دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
یاد نہیں پڑتا کہ عمران خان کے دور میں بھارت کا کوئی جہاز فنی خرابی پیدا ہونے کی وجہ سے کراچی یا پاکستان کے کسی اور علاقے میں اُترا ہو۔ ہاں ایک مرتبہ ایسا ضرور ہوا تھا کہ جب 27فروری 2019ء کو بھارتی وزیراعظم نے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کرنے کیلئے اپنی ائیر فورس کے ہوا باز ابھی نندن کو پاکستان بھیجا تاکہ وہ پاکستان کو مزہ چکھائے لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ نریندر مودی کا سورما پاکستانی شاہینوں کے ہاتھوں ایسا چِت ہوا کہ اپنے جہاز سمیت مٹی چاٹنے پر مجبور ہونے کے بعد پاکستان ائیر فورس کی قید میں چلا گیا۔ یہ زخم مودی اور اس کا ٹولہ ابھی تک نہیں بھولا اور اسے ہر وقت پاکستان کا لگایا ہوا یہ کاری زخم درد کا احساس دلاتا رہتا ہے‘ لیکن جب سے عمران خان کو گھر بھیجا گیا ہے‘ ان چند ماہ کے دوران بھارت کے تین جہاز فنی خرابی کی وجہ سے کراچی لینڈ کر چکے ہیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ جہاز صرف کراچی میں ہی کیوں لینڈ ہوتے ہیں؟ کراچی سے میرے بہت سے دوستوں نے پوچھا ہے کہ آج کل بھارت کے جہازوں کو کیا ہو گیا ہے کہ آئے دن کسی نہ کسی جہاز میں فنی خرابی پیدا ہو رہی ہے اور پریشانی اور سوچ بچار ہرمحبِ وطن شخص کو یہ ہے کہ وہی جہاز کیوں فنی خرابی کا شکار ہو رہے ہیں جن کی سمت اور پرواز کراچی کے ارد گرد ہوتی ہے؟ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور میں یہ جہاز خراب کیوں نہیں ہوئے‘ اب کیا ہو گیا ہے کہ آئے روز بھارتی جہاز فنی خرابی کا شکار ہو کر کراچی میں اُتر رہے ہیں۔ اور وہ بھی رات بارہ بجے کے بعد ہی کیوں؟
یہ کوئی معمولی بات نہیں جسے نظرانداز کر دیا جائے۔ یہ بارہ جولائی کی بات ہے جب بھارت کے دو مزید جہاز فنی خرابی کی وجہ سے کراچی اُترے‘ جن کے متعلق کہا گیا کہ یہ بھارت سے بحرین جا رہے تھے۔ شنید ہے کہ چند روز پہلے ایوی ایشن اتھارٹی میں کچھ بہت ہی اہم پوسٹنگ ٹرانسفر کی گئی ہیں۔ ہم سب کو ان فنی خرابیوں کو معمولی واقعہ سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ پانچ جولائی کو بھی بھارتی ائیر کرافٹ SG11 سپائس جیٹ737 جو دہلی سے روانہ ہوا‘ اچانک اسے کسی فنی خرابی کی وجہ سے کراچی لینڈ کرنا پڑا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس جہاز کی فنی خرابی تو دور نہ ہو سکی‘ اس لیے اس میں سوار لوگوں کیلئے بھارت سے ایک نیا جہاز بھیجا گیا۔ لگتا ہے کہ نریندر مودی کی دوستی ان جہازوں کی فنی خرابی کو یہ کہتے ہوئے شہ دے رہی ہے کہ ''کوئی گل نئیں‘ ہن ستے خیراں نے‘‘۔
بھارتی ہوائی جہازوں کی فنی خرابیاں تو رہیں ایک طرف‘ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کی ایک پوسٹ نے ملک بھر میں تشویش کی لہردوڑا دی ہے وہ یہ کہ شریف برادران کے مختلف حکومتی ادوار میں اب تک مختلف سرکاری محکمہ جات میں 232کے قریب آتش زدگی کے واقعات ہو چکے ہیں جن میں لاہور کی ضلع کچہری میں ڈپٹی کمشنر دفتر اور ایل ڈی اے پلازہ کے اس فلور کی ہولناک آگ بھی شامل ہے جہاں بہت ساریونیو اور ترقیاتی ریکارڈ جل کر خاکستر ہوا۔ حیرت انگیز طور پر اس بد بخت آگ نے 30 سے زائد غریب ملازمین کی جانوں کو بھی نگل لیا جو اپنے گھروں کے واحدکفیل تھے اور صرف ترقیاتی ریکارڈ کو ہی اپنی لپیٹ میں لیا۔ اب ایک اور چنگاری نے چند روز ہوئے ملکی خزانے میں ایک ایسی آگ لگائی ہے جس کی تپش مدتوں محسوس کی جاتی رہے گی کیونکہ اس تپش میں اب تک پوری قوم جل رہی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے مین سٹریم میڈیا کا ایک مخصوص حصہ شاید مصلحتاً اس آگ پر پردہ ڈالے ہوئے ہے۔
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ جس قومی اثاثے کو آگ لگی ہے یا جوکچھ روز قبل جل کر خاکستر ہو چکا ہے‘ اس کو لگنے والی آگ کے شعلے کم ازکم پچیس کلو میٹر دور سے دیکھے جا سکتے تھے۔ یاد رہے کہ اس قومی ادارے کو عمران خان کی حکومت کے پرائیویٹائزیشن کمیشن نے متحدہ عرب امارات کو فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کیلئے کابینہ نے اپنے اجلاس میں باقاعدہ منظوری دے دی تھی۔متحدہ عرب امارات کی اس کمپنی کا وعدہ تھا کہ وہ اس سے حاصل ہونے والی بجلی کو کم قیمت پر حکومتِ پاکستان کو فروخت کرے گی۔ سندھ میں واقع گدو تھرمل پاور سٹیشن میں آگ لگنے سے پہلے پوری قوم اس سے سستی ترین 747میگا واٹ بجلی حاصل کر رہی تھی۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ وزارتِ توانائی اور وزارتِ اطلاعات کی جانب سے 15ارب روپے سے زائد کے اس قومی نقصان پر ایک ہلکا سا بیا ن بھی سامنے نہیں آیا جس سے بظاہر یہی لگتا ہے انہیں اس قومی نقصان پر کوئی دکھ نہیں ہوا کیونکہ اس طرح پرائیویٹ پاور پلانٹس کی بجلی مہنگے ترین داموں پر خریدی جا سکے گی۔ گدو پاور سٹیشن کے خاکستر ہونے کے قومی سانحہ پر بجائے دکھ اور افسوس کے ساری مرکزی کابینہ عمران خان پر آرٹیکل چھ لگنے کا مژدہ سنانے میں مصروف ہے اور وزیر داخلہ جنہیں اس قومی نقصان پر نیند نہیں آنی چاہیے تھی‘ وہ بھی عمران خان کو گرفتار کرنے کی دھمکیاں دینے میں مصروف رہے۔
گلی لٹی تو کیا ہوا‘ محلہ لٹا تو کیا غم اور شہر لٹا تو کیسا دکھ‘ ملک لٹا تو رونا کیسا‘ اپنا گھر تو سلامت ہے۔ اپنے اور ساتھیوں کے خزانے تو بھر رہے ہیں‘ لوڈ شیڈنگ سے ہم یا ہمارے ساتھی یا ہمارے اور ان کے خاندانوں کو تو کوئی پریشانی نہیں‘ عوام ہی حبس اور گرمی میں تڑپیں گے‘ مہنگی بجلی کی وجہ سے ان کو ملنے والا بل انہیں ہی تو رلائے گا‘ جو قطاروں میں لگ کر ہم سب کو ووٹ ڈالتے ہیں‘ جو ہمارے جلسوں میں کئی کئی گھنٹے بیٹھ کر ہماری راہیں تکتے ہیں۔ گدو پاور سٹیشن کی تباہی پر جہاں پوری پی ڈی ایم خاموش ہے‘ سندھ میں جناب زرداری کی حکومت چپ بیٹھی ہے تو وہیں مرکز میں اقتدار سنبھالے شہباز حکومت کا رویہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ۔ لگتا ہے کہ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں کہ کون ذمہ دار ہے؟ گدو کی اس آگ سے ملکی خزانے کے پندرہ ارب کے جل جانے پر تحریک انصاف کے رہنما علی حیدر زیدی اور امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے مطالبہ کیا ہے کہ اس قومی سانحہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ پاکستانی عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے والا یہ پلانٹ کس کی غفلت کی وجہ سے جل کر زمین بوس ہوا؟ لیکن ان کے اس مطالبے کو سنی اَن سنی کرتے ہوئے میاں شہباز شریف کی حکومت نے ایک چیف انجینئر کی قیادت میں چار رکنی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس آتش زدگی کے واقعہ کی تحقیق کرے گی۔
اب تک کوئی ایک مثال دی جا سکتی ہے تو بتا دیجئے کہ پندرہ ارب سے زائد قومی اثاثہ مٹی میں مل جائے‘ قوم کی سستی ترین747 میگاواٹ بجلی معطل ہو جائے اور اس کیلئے ہائی پاور کمیشن کے بجائے ایک چیف انجینئر کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دے دی جائے۔ گمان ہونے لگا ہے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ان پندرہ ارب روپوں پر ''مٹی ڈال دی جائے‘‘۔ کیونکہ چند برس پہلے صرف کیے گئے یہ پندرہ ا رب تو اب جل ہی گئے ہیں اور ڈالر کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے نئی مشینری اور سامان کی خریداری پر کم ازکم پچیس ارب روپے لاگت آئے گی!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved