حکمرانوں کے کارناموں ‘ ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور مایوسیوں کے گہرے ہوتے ہوئے اندھیروں میں گھرے ہماری عمر اور نسل کے لوگ اکثر سوال اٹھاتے ہیں کہ بہتر ہوتا کہ اچھے وقتوں میں اس ملک سے نکل کر کہیں اور جا بستے۔ ہماری جامعہ پنجاب میں 1973ء شعبہ سیاسیاست کی کلاس تاریخی طور پر تعداد میں بہت بڑی تھی۔ ہم پنجاب اور ملک کے مختلف علاقوں سے 1970 ء میں جامعہ میں داخل ہوئے تھے۔ وہ آزادی‘ آزاد روی ‘ خوابوں اور نئے پاکستان کی تعمیر کا زمانہ تھا۔ ہم میں سے اکثر نوجوانوں نے ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کیا اور اسے انجام تک پہنچایا تھا۔ وہی جذبہ جامعہ پنجاب میں بھی نظریاتی تقسیم کی صورت رہا۔ سب تو نہیں مگر خاصی بڑی تعداد میں طلبہ دو دھڑوں میں تقسیم تھے۔ ایک طرف اسلامی جمعیت طلبہ تھی‘ دوسری طرف اشتراکی تنظیمیں ملک کے مستقبل کو اپنے نظریات کے مطابق ڈھالنے کے لیے بر سرپیکار تھیں۔ تب اس ماحول میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جونہی ہم یونیورسٹی سے فارغ ہوں گے‘ وسیع تر قومی میدان میں نکلتے ہی اسلامی یا اشتراکی انقلاب کی قیادت کریں گے ‘اور اپنے اپنے خوابوں کا پاکستان تعمیر کریں گے۔ مگر ذہن میں ابھرتے ہوئے خوابوں اور معاشرے کی حقیقتوں میں بہت فرق ہوتا ہے جس کا ادراک یونیورسٹی کے خوابستان میں ممکن نہیں۔ آخری امتحان ہوتے ہی ہم خزاں رسیدہ پتوں کی طرح مختلف سمتوں میں بکھر گئے ‘ مگر وہ بہار کے تین سال بھلا کون بھول سکتا ہے۔ ہم میں سے ایک بڑی تعداد نے سول سروس کا امتحان دیا اور اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں کامیابی سمیٹی۔ چند نے درس و تدریس کو ترجیح دی۔ کچھ ملک چھوڑ کر کہیں اور جا بسے۔ سب اپنے پیشوں سے ریٹائر ہوکر سنہری دور گزاررہے ہیں۔
ہم نے اپنے سکول‘ کالج ‘ جامعہ پنجاب اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ہم جماعتوں سے رابطہ برقرار رکھا ہے۔ سب سے تو شاید ممکن نہ تھا‘ مگر ہمارے حلقے میں بڑی تعداد ہے جن سے ملاقات بھی رہتی ہے ‘ اور اب سیل فون کی ہزار خرابیاں سہی ‘ دوستوں سے لفظی اور تصویری ملاقات کی ایسی آسانیاں ہیں کہ کسی معجزے کا گمان ہوتا ہے۔ چند ہی سیکنڈوں میں دنیا کے کسی بھی حصے میں بیٹھے دوست سے بات ہوجاتی ہے۔ جامعہ پنجاب کے ہم جماعتوں کا ایک گروپ بنا ہوا ہے ‘ اور ہم بلاناغہ سب کو سلام اور تندرستی کا پیغام بھیجتے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی حالات حاضرہ پر تبصرے کے لیے کچھ بے قرار رہتے ہیں۔ ہم کسی بھی قومیت کی مذہبی اور سیاسی بحث سے گریز کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت پسپائی اختیار کرنے‘ ہار مان لینے اور دوسرے کا دل رکھنے کے لیے تائید کرنے میں ہی عافیت ہے۔اس چھوٹے سے فورم پرکچھ دوست ایک دوسرے کے سیاسی تبصروں سے ناراض ہوکر گروپ کو خیر باد بھی کہہ گئے ‘ لیکن پھر دوسروں کی طرف سے منت سماجت کے بعد واپس آئے۔ ان میں سے کئی آج تک غائب ہیں۔ مختلف شہروں اور ملکوں میں بیٹھے بزرگوں کی لڑائیوں پر ہنستے ہیں۔ رونا ہمیں آتا نہیں۔ کبھی کبھار کوئی کالم اُنہیں چھیڑنے کے لیے بھیج دیتا ہوں۔ تبصرے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور ہم ہمیشہ کی طرح خموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ''آخری موقع‘‘ کالم شیئر کیا تو ایک دوست نے لکھا کہ جی چاہتا ہے کہ بندہ یہ ملک چھوڑ کر روانڈا چلا جائے۔امریکامیں بیٹھے ہمارے دانشور دوست اور سیاست کے پروفیسر‘ چوہدری مقصود احمد بہت خوش ہیں کہ مناسب وقت پر ملک چھوڑ کر امریکا میں آباد ہوگئے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے گئے تھے تو وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ آج کے پاکستانی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے وہ اکثر لکھتے ہیں کہ اچھاہوا کہ وہ یہاں سے نکل گئے۔ ہماری تو خواہش ہے کہ جو دوست جہاں ہیں‘ خوش رہیں۔ ہماری نسل کے ہم جیسے لوگ جو پاکستان میں ہی رہے ‘ اور جنہیں میں بہت قریب سے جانتا ہوں ‘ سب کامیاب ‘ خوش حال‘ آسودہ ‘ا ورمعاشرے میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔کچھ بہت بااثر اور نامور ہیں‘ اور مجموعی طور پر ان کا معیارِ زندگی امریکا اوریورپ کے متوسط طبقے سے بہتر ہے۔ ہمارے دوست‘ ماہرِ اقتصادیات پروفیسر عابد برکی ہمیں یاد کراتے رہتے ہیں کہ معیارِ زندگی‘ آمدنی اور وسائل کو دیکھا جائے تو ہم میں سے اکثر آبادی کے پانچ فیصد کے زمرے میں آتے ہیں۔ وہ اپنی تحقیق کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔ مجھے تو معلوم نہیں ‘ اور نہ ہی ایسی جستجو اخلاقی لحاظ سے جائز ہے کہ کس کے پاس کیا کچھ ہے ‘ مگر معاشرے کے جس طبقے سے اپنا ملنا جلنا ہے ‘ اور وہ جوکسی زمانے میں جامعہ پنجاب میں تھے ‘ میرے اپنے اندازے کے مطابق پانچ فیصد خوش حال آبادی میں شمار ہوتے ہیں۔ مگر ملکی حالات‘ حکمرانوں کی لوٹ مار اور جنوبی ایشیا میں آج پاکستان جہاں کھڑا ہے ‘ اس سے یہ کامیاب لوگ بھی پریشان ہیں۔ اور اس کی ایک وجہ ہے۔
ہم نے اس ملک کے بارے میں کچھ خواب دیکھے تھے۔ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے عملی جدوجہد بھی کی تھی۔ ہم میں سے اکثر آزادی کے اوائل کے برسوں میں پیدا ہوئے تھے۔ ہم سب پُرامید تھے۔ ملک جس طرح ترقی کی راہ پر گامزن تھا‘ ہم اس پر نازاں تھے۔ چین ‘ تائیوان‘ جنوبی کوریا ہماری طرف دیکھتے تھے۔ نوکرشاہی کی تباہ کاری کا آغاز ابھی نہیں ہوا تھا۔ بلند اخلاق اور اچھے معیار کے لوگ سول سروسز میں تھے۔ ایک مضبوط اور خوش حال پاکستان اُن کا خواب تھا۔ قانون کے مطابق چلتے تھے ‘ پسند کی جگہ کی دوڑ کے لیے کسی سیاست دان اور وڈیرے کی غلامی کے لیے تیار نہیں تھے۔ صنعت کار ہوں یا کاشت کار‘ سب کچھ نہ کچھ زیادہ کرنے کی لگن رکھتے تھے۔ جو خواب ہم نے ایوب خان کے خلاف جمہوری تحریک میں شمولیت اختیار کرتے وقت دیکھے تھے ‘ وہ ہمارے سامنے پہلے جمہوری دور میں چکنا چور ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اس کے بعد کی کیا کیا کہانیاں آپ کو سنائیں۔ سب کچھ تو آپ کے سامنے ہے۔ کیسے کیسے کردار سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کی صورت آپ پر حکمرانی کررہے ہیں۔ ہماری نسل کے دوست ایسے تو مایوس نہیں کہ روانڈا تک جانے کے لیے تیارہوجائیں۔
مجھے معلوم ہے کہ کوئی کہیں نہیں جائے گا۔ ہم سب یہیں رہیں گے۔ ہم خالص دریائے سندھ کی مٹی سے گوندھے گئے ہیں۔ ہمارے یہ موسم‘ یہ برساتیں ‘ یہ موسم سرما میں دھوپ میں چارپائی ڈال کر دراز ہونا۔ اور پھر یہ آموں کا رس بھرا موسم۔ ہمارے پھلوں کی رنگت اور ذائقہ بھلا دنیا کے کس حصے میں ہمیں نصیب ہوگا؟ میں تو دوستوں سے کہتا ہوں کہ میدان نہ چھوڑنا۔ بدعنوان ٹولوں کا مقابلہ کرنا سیکھو۔ جو اچھا کرسکتے ہو‘ آخری سانس تک کرو۔ آپ جاگیں گے تو یہ بھاگیں گے۔ یہاں جنات کا سایہ نہیں۔ ان بستیوں پر انسانی آسیبوں کاقبضہ ہے۔ ہمیں کہیں نہیں جانا‘ بلکہ انہیں ان ممالک کی طرف روانہ کرنا ہے جن کے یہ گماشتے ہیں ‘ اور ہمیں ان کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
سیاسی بہاریں کسی سے اجازت لے کر نہیں اترتیں ‘ نہ ہی سماجی موجوں کو مقتدر وں کی تائیددرکار ہوتی ہے۔ ایک طرف نئی بیداری کا طوفان ہے ‘ دوسری طرف فرسودہ ‘ کرم خوردہ ‘ دیمک زدہ کرپٹ نظام اور ا س کے نمائندوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ اگر بیداری کی لہر میں طاقت نہ ہوتی تو یہ سب اتنابڑا‘ مگر لولا لنگڑا اتحاد کیوں بناتے جو بیساکھیوں کے بغیر چل بھی نہیں سکتا ؟ موجودہ کشمکش کا فیصلہ ہو کر رہے گا۔ تاریخ کا سبق ہے کہ ظلم ‘ ناانصافی اور دھاندلی کا راج دیر پا نہیں ہوتا۔ یہ ختم ہوکر رہے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved