پاکستان وسطی ایشیا اور خلیجی ممالک یعنی ایک وسیع دنیاکے لیے گیٹ وے کا درجہ رکھتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایات ہیں کہ محل وقوع کے لحاظ سے دنیا کے تمام ممالک کا ہمیشہ سے مملکتِ خداداد کی جانب جھکائو رہا ہے۔ چین اس وقت پوری دنیا میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور پاکستان میں اس کی دلچسپی کچھ زیادہ ہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کے حوالے سے چین کی تاریخ میں کسی دوسرے ملک میں یہ سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے اور یہ کہ چین پاکستان تجارتی راہداری حقیقت بننے کو تیار ہے۔ گوادر بندرگاہ صوبہ بلوچستان میں بحیرہ عرب پر واقع گرم پانی اور گہرے سمندر کی ایک بڑی بندرگاہ ہے جو خلیج فارس کے دہانے پر واقع ہے۔ اس بندرگاہ کی وجہ سے پاکستان کی جیوسٹریٹیجک پوزیشن پورے خطے میں خاص اہمیت حاصل کر چکی ہے۔ اس سے جنوبی ایشیا، مغربی اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے درمیان تجارتی نقل و حمل، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تنصیب سمیت دیگر صنعتی اور تجارتی شعبوں کو متحرک کیا جا سکتا ہے۔ یہ عظیم الشان بندرگاہ‘ جو قیام پاکستان کے وقت سلطنتِ عمان کے زیرِ کنٹرول تھی‘ 1958ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کی کوششوں سے پاکستان کو حاصل ہوئی۔
دنیا جانتی ہے کہ سی پیک منصوبہ درحقیقت معاشی گیم چینجر ہے اور یہ پاکستان کو معاشی اہمیت کی بلندی پر کھڑا کرسکتا ہے۔ اقتصادی زونز صنعتی پارکس، آئل پائپ لائنز کے قیام سے جہاں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے‘ وہیں اقتصادی راہداری منصوبہ وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلق کو مضبوط بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا اور اس کی تکمیل سے پسماندہ علاقے ترقی یافتہ علاقوں سے منسلک ہو جائیں گے۔ تزویراتی طور پر بین الاقوامی اہمیت کی حامل گوادر بندرگاہ سے بے شک پورے خطے کے لیے اقتصادی ترقی کے دروازے کھل جائیں گے۔ سی پیک سے منسلک ممالک کی تجارتی منڈیوں تک رسائی ہو گی اور عالمی اقتصادی ترقی کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے۔ ہمیں اس بندرگاہ کے راستے ملک کے بالائی اور شمالی علاقہ جات سے درآمدی سامان کی ترسیل کو یقینی بنانا ہے‘ اس مقصد کے لیے گوادر سے ملک کے بالائی علاقوں تک سڑکوں اور ریلوے لائنوں کا بہترین اور فعال نیٹ ورک کا ہونا بہت ضروری ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سی پیک اور گوادر جس وقت پوری طرح فعال ہوں گے‘ پاکستان پرچاروں طرف سے ہن برسے گاجس کے بعد پاکستان کی پتلی معاشی صورتحال قصۂ پارنیہ بن جائے گی لہٰذ ا آئندہ آنے والے وقت میں معاشی راہداری اور گوادر کی بندرگاہ سے بے پناہ وسائل حاصل ہوں گے اور پاکستان کی تزویراتی ذمہ داریوں کا دائرہ بھی عملاًمشرقِ وسطیٰ تک دراز ہوجائے گا۔
دوسری جانب اس عظیم الشان منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے عالمی قوتیں بھارت کو استعمال کررہی ہیں کیونکہ عالمی صہیونی قوتیں جان چکی ہیں کہ افغانستان سے امریکا کے نکل جانے کے بعد اب جلد ہی پاکستان کی مغربی پشت محفوظ ہوجائے گی اور اس کی ساری توجہ امریکا اور اسرائیل کے مقامی فرنٹ مین بھارت کی جانب مبذول ہوجائے گی جس کی وجہ سے امریکا اور اسرائیل اس خطے کے حوالے سے اپنے جن مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں‘ وہ کبھی پورے نہیں ہو سکیں گے۔ ا س ساری گیم کا اصل مقصدیہ ہے کہ خطے میں افراتفری پھیلا کر چین کے سامنے بند باندھا جا سکے۔ اسی تناظر میں ہنود و یہود گٹھ جوڑ کی وطن عزیز کو فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں رکھنے کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارت کے اعلیٰ عہدیدار برسرعام یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ مودی حکومت نے اپنی بھرپور کاوشوں سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں داخل کرایا؛ تاہم اب گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلنے کے روشن امکانات نے بھارت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ بھارت اور امریکا کا خطے میں کھیلے جانے والا کھیل خود ان پر الٹ چکا ہے۔ اسی بوکھلاہٹ میں کبھی پاکستان پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا جاتا ہے تو کبھی براہ راست جنگ کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ بھارت بڑھکوں سے آگے نہیں جاسکتا کیونکہ اگر وہ جوہری قوت ہے تو پاکستان بھی نہ صرف جوہری قوت ہے بلکہ اس کے پاس ایک منظم اور طاقتور فوج بھی ہے جو کسی بھی وقت حالات کو دشمن کے خلاف پلٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ بھارت نے جارحانہ عزائم کے پیشِ نظر پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ ''بنیے‘‘ کوآج بھی ہمالیہ کے پہاڑوں سے بلند پاک چین دوستی ہضم نہیں ہورہی۔
ہمارے دوست ملک عوامی جمہوریہ چین نے ''ون بیلٹ‘ ون روڈ‘‘ کے عظیم الشان منصوبے کے تحت ''چین پاک اقتصادی راہداری‘‘ کے جس منصوبے کا آغاز کر رکھا ہے‘ اس میں گوادر بندرگاہ کی تعمیر و ترقی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ حکومت نے اس مقصد کے تحت گوادر پورٹ اتھارٹی بھی بنا رکھی ہے جو بظاہرکئی سال تک غیرفعال رہی۔ اس کی تحقیقات وقت کا تقاضا ہے کیونکہ سی پیک کا حصہ ہونے کی بنا پر اس کی سیاسی‘ اقتصادی اور سٹریٹیجک اہمیت مسلمہ ہے اور ہمارے ازلی دشمن کو پاکستان کے ساتھ دیگر ممالک کی دوستی، ترقی اور خوشحالی کے اقدامات ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چین سرمایہ کاری ، تجارت، سفارت کاری اور مالیات کو استعمال کرتے ہوئے ایشیا میں ذرائع آمدو رفت و اداروں کا ایسا جال بچھا رہا ہے کہ جس سے مذکورہ انقلابی منصوبے کو اس طرح تقویت ملے کہ پورا خطہ اس کی بانہوں میں سمٹ آئے لہٰذا اسی معاشی و سیاسی اثر و رسوخ کو روکنے اور ایشیا پر اپنی بالا دستی قائم کرنے کے لیے امریکا اپنے اتحادیوں کے ذریعے نت نئے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اس کی یہ کوشش ہے کہ اتحادیوں کی مدد سے خطے کے حالات مزید خراب کرکے چین اور پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کر کے اقتصادی راہداری اور ون بیلٹ‘ ون روڈ منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔
پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اوردنیا بھر نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہا ہے۔ یہ امر بھی قابلِ تحسین ہے کہ خطے میں سکیورٹی اور استحکام کے لیے چین پہلے سے زیادہ مؤثر کردار کر رہا ہے۔ بیجنگ کی کوشش ہے کہ سی پیک کو کوئی نقصان نہ پہنچے تاکہ اس کے ثمرات سے دنیا کے تمام ممالک مستفید ہوں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے ایسی مشترکہ دفاعی اور اقتصادعی حکمت عملی مرتب کی جائے کہ امن دشمن عناصر کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکے۔ بھارت نے سی پیک کے حوالے سے ایک پراکسی وار شروع کر رکھی ہے جس سے سادہ لوح عوام کی ذہن سازی کرتے ہوئے انہیں گمراہ کیا جا رہا ہے۔ چونکہ ہمارے ازلی دشمن کے لیے سی پیک کی کامیابی ہی سب سے بڑی ناکامی ہے لہٰذا وہ بوکھلاہٹ کے عالم میں ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے اس عظیم الشان پروجیکٹ کو سبو تاژ کرنا چاہتا ہے۔
بلوچستان سے نکلنے والی قدرتی گیس اور دیگر معدنیات نے ملکی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے اور آنے والے دور میں اقتصادی راہداری اس سے بھی بڑھ کر کردار ادا کرے گی اس لیے اکنامک کوریڈور کی تکمیل کو روکنے کے لیے مختلف انداز سے در اندازی کی جا رہی ہے اور بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کی سازشیں عروج پر ہیں جن کے ثبوت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ماضی میں بھی سامنے لائے گئے اور اب بھی لائے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قائد کے وژن پر عمل کرتے ہوئے اتحاد و یگانگت سے معاملات طے کیے جائیں۔
درحقیقت بیجنگ کے دنیا میں بڑھتے ہوئے معاشی و سیاسی اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے ایک گریٹ گیم جاری ہے جس کے لیے امریکی ایما پر بھارت پاکستان کے اندر دہشت گردی کو فروغ دینے میں اپنا پورا زور لگا رہا ہے تاکہ اربوں ڈالرز کے جاری پروجیکٹس کو روکا جا سکے۔ ملک دشمن عناصر اقتصادی راہداری منصوبے کو ختم کرنے یا اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس عالمی منصوبے کے خلاف عالمی گٹھ جوڑ کا مقابلہ قومی اتفاقِ رائے اور یکجہتی ہی سے کیا جا سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved