’’پاکستان کا ہر شہری میری اولاد کی طرح ہے‘ میں ہر روز اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے جنازے نہیں اٹھا سکتا‘‘ وزیراعظم کے ان الفاظ نے ایک جھماکا سا کیا اور چشم حیراں بلکہ چشم ویراں صدیوں پیچھے چلی گئی۔اس ایک جملے نے کیا کیا نہ یاد کرا دیا کہ اگر ایسے جملوں میں جذبوں کی سچائی‘ اخلاص اور عمل کی بجلی بھری ہو تو مسلمان مدینے سے نکل کر فرات، مصر، اور سپین تک پہنچ جایا کرتے ہیں۔ یاد آیا کہ مدینے میں قحط پڑا تو خلیفۂ ثانی نے مشترکہ دسترخوان کا اہتمام کیا۔ ایک دن خلیفہ وقت حضرت عمرؓ ایک بدو کے ساتھ مل کر ایک ہی طشت میں کھانا کھا رہے تھے۔ طشت میں گھی میں چورا کی ہوئی روٹی تھی‘ آپؓ نے دیکھا کہ وہ بدو’’ندیدوں‘‘کی طرح طشت میں اس طرف ہاتھ مار رہا ہے جس طرف گھی زیادہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی گھی نہیں کھایا؟ اس نے کہا کہ جب سے قحط پڑا ہے نہ خود اس نے گھی یا تیل کھایا ہے نہ کسی اور کو کھاتے دیکھا ہے۔ یہ سن کر آپؓ نے قسم کھائی کہ جب تک قحط رہے گا وہ گوشت اور گھی کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گے ۔ پھر خلیفہ نے اپنے ایک ایک فعل سے ثابت کیا کہ رعایا کا دکھ اصل میں ہوتا کیا ہے۔ اپنے لوگوں پر چھائے قحط کے دنوں میں مسلسل پریشانی‘ پیہم مشقت‘ دن رات کی تگ وتاز اور اس پر اس تبدیلی غذا کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپؓ کے چہرے کا رنگ سیاہ پڑ گیا (حالانکہ وہ سرخ وسپیدتھے) پیٹ میں قراقر رہنے لگا‘ دن بدن لاغر ہوتے چلے گئے‘ اس پر آپؓ کے رفقاء کو تشویش لاحق ہوئی اور انہوںنے آپؓ سے کہا کہ آپؓ اس تبدیلی غذا کو برداشت نہیں کر سکیں گے اس لئے آپ اپنے معمول کی غذا کی طرف پلٹ آئیے۔ اس کے جواب میں ہی آپؓ نے وہ تاریخی فقرہ کہا تھا جو تاریخ کے آسمان پر صدیوں بعد بھی کبھی نہ ڈوبنے والے سورج کی طرح روشن ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ’’مجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس کس طرح ہو سکتا ہے جب تک مجھ پر بھی وہی کچھ نہ گزرے جو ان پر گزرتی ہے۔‘‘ اور قحط کا سارا زمانہ اسی سوکھی روٹی اور تیل پر گزار دیا۔ جن لوگوں نے آپؓ کی یہ حالت دیکھی تھی‘ وہ کہتے تھے کہ ’’اگر کچھ وقت اور قحط دور نہ ہوتا تو ہمیں خدشہ تھا کہ خلیفہ مسلمانوں کے غم میں اپنی جان گھلا دیتے۔‘‘ انہی قحط کے دنوں میں ایک دن آپؓ نے دیکھا کہ آپؓ کا پوتا ککڑی(یاتربوز) کھا رہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بلایا سخت خفا ہوئے اور ڈانٹ کر کہا: ’’محمدؐ کی امت بھوکی مر رہی ہے اور عمرؓ کا پوتا پھل کھا رہا ہے‘‘۔ اس واقعے سے اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ کس طرح حکمران اپنے بچوں کے ساتھ اس قسم کے حالات میں زندگی گزارتے رہے ہیں جیسے حالات میں بیشتر عوام رہ رہے ہوں۔ محلوں میں بیٹھ کر ٹپکتی ہوئی چھتوں والی اندھیری بستیوں کا ادراک تو سقراط کو بھی نہیںہو سکتا تھا۔ تبھی یہ تاریخی جملہ جو عمدہ حکمرانی کی اساس ہے ، صدیوں سے درد مند… صحیح معنوں میں درد مند… سچے دل سے درد مندحکمرانوںکی راہنمائی کر رہا ہے کہ حکمران کو لوگوں کی تکلیف کا احساس کس طرح ہو سکتا ہے جب تک اس پر بھی وہی کچھ نہ گزرے جو عوام پر گزرتی ہے ۔ کیا کروڑوں روپے اپنی سکیورٹی پر خرچ کرنے والے حکمران ایک لمحے کو بھی پاکستانی عوام کی اذیت اور درد سمجھ سکتے ہیں؟ جو صحیح معنوں میں درد سمجھتے تھے وہ کیا کرتے تھے۔ وہی جو قحط کے دنوں کا تذکرہ اوپر کیا گیا۔ خلیفۂ ثانی نے ایک دن گلی میں دیکھا کہ ایک بچی جا رہی ہے۔ زرد رُو‘ نحیف ونزار، اسے دیکھ کر آپؓ کو بڑا صدمہ ہوا۔ پوچھا یہ کس کی بچی ہے؟ بیٹا ساتھ تھا‘ کہا: ’’یہ امیر المومنین کی پوتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ اس کی ایسی حالت کیوں ہے؟ کہا کہ اس قحط میں جو کچھ ملتا ہے بدوئوں کے بچے تو اس کے عادی ہیں لیکن ہمارے بچے اس کے عادی نہیں‘ اس لئے ان کی یہ حالت ہو رہی ہے۔ فرمایا: ’’حالت کچھ بھی ہو‘ اس عالمگیر مصیبت میں کسی کے ساتھ ترجیحی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ گویا ہمارے بچے بھی وہی کھائیں گے جو بدوئوں کے بچے کھائیں گے۔ لفاظی کی حد تک تقریر یقینا خوبصورت تھی ۔ ناامیدی گناہ ہے‘ اگلا مرحلہ عمل کا ہے ۔ آخر میں اپنا ایک پرانا شعر ؎ عمل کی سوکھتی رَگ میں ذرا سا خون شامل کر میرے ہمدم فقط باتیں بنا کر کچھ نہیں ملتا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved