مارشل لا آئے اور گئے۔ جمہوری حکومتیں آئیں اور گزر گئیں۔ بے نظیر‘ شریف برادران‘ زرداری سب ایک ایک کرکے حکمرانی کر گئے۔ عمران خان بھی چار سال تخت پر بیٹھ کر چلے گئے۔ ہمارے گاؤں جیسے تھے‘ ویسے ہی رہے۔
آج ہی اپنی کئی بستیوں سے ہو کر آیا ہوں۔ وہی کچّی گلیاں! نالیوں کے بغیر! پانی سے بھری ہوئیں! وہی ٹوٹی ہوئی گرد اڑاتی سڑکیں! وہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ چلچلاتی دوپہریں! وہی سکول جن کی دیواریں ہیں تو چھتیں نہیں ہیں اور چھتیں ہیں تو استاد نہیں ہیں! ہر طرف کوڑے کرکٹ کے ڈھیر! پینے کے صاف پانی کی کمیابی! علاج معالجے کی سہولتوں کا مکمل فقدان! سینکڑوں سال سے یہ گاؤں اسی طرح ہیں۔ کیا عجب آئندہ کئی سو برس تک ایسے ہی رہیں! جہاں بجلی اور پانی نہیں‘ وہاں انٹرنیٹ کا کیا سوال! فتح جنگ تک تو سی پیک کی مغربی شاہراہ کام آجاتی ہے! اس کے بعد سڑک کے نام پر اذیت بچھی ہے! بے پناہ اذیت! ڈھرنال جانا ہے یا کھوڑ! مٹی‘ کنکر اور بجری کے ملغوبے سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ کہیں سڑک کھدی پڑی ہے کہیں کھڈوں سے بھر پور! مستقبل کا کوئی روڈ میپ بھی نہیں نظر آرہا۔ یہ مضافات کی شاہراہیں ہیں جن پر وزیراعظم کا گزر ہونا ہے نہ چیف منسٹر کا نہ گورنر کا! ان شا ہراہوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں! یہیں ایک گاؤں کمڑیال ہے جہاں کے رہنے والے ملک سہیل خان اب اس علاقے سے ایم این اے ہیں اور وزارتِ شہری ہوا بازی کے پارلیمانی سیکرٹری بھی! ان سے تو ہماری ملاقات ایک آدھ بار ہی ہوئی ہے مگر ان کے والد مرحوم‘ ملک لال خان‘ سے بہت اچھے مراسم تھے۔ وہ بھی اسی نشست سے کئی بار ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ فتح جنگ سے کمڑیال تک جس اذیت ناک شاہراہ کا ماتم یہاں کیا جا رہا ہے‘ ملک سہیل خان بھی یقینا اسی سے گزر کر اپنے گاؤں جاتے ہوں گے۔ اگر وہ چاہیں تو متعلقہ محکموں کی توجہ اس صورت حال کی طرف مؤثر طریقے سے مبذول کروا سکتے ہیں۔ ورنہ شکست و ریخت اور نام نہاد مرمت کا یہ عبرتناک سلسلہ مستقبل بعید تک چلتا ہی رہے گا!
بارانی علاقے کے یہ گاؤں دوہری مصیبت سے دو چار ہیں ؎
غرض دو گو نہ عذاب است جانِ مجنوں را
بلائے صحبتِ لیلیٰ و فرقتِ لیلیٰ
ایک تو شہر کاری (Urbanisation) ہے۔ یعنی کنبوں کے کنبے گاؤں چھوڑ کر قصبوں اور شہروں میں جا کر آباد ہو رہے ہیں۔ اس کی ابتدا نچلے طبقات سے ہوئی۔ وہ خاندان جنہیں بدقسمتی سے کمّی کہا جاتا ہے‘ سب سے پہلے شہروں کو سدھارے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک تو ان کی زمینیں تھیں نہ رہنے کے مکان ہی اپنے تھے۔ دوسرا‘ زمانہ تبدیل ہو رہا تھا۔ ان کے باپ دادا سارا سال لوگوں کے کام کرتے تھے اور جب فصل اترتی تھی تو انہیں غلہ دیا جاتا تھا۔ یہی ان کا معاوضہ ہوتا تھا مگر ان کی نئی نسل نے جب دیکھا کہ ہاتھ سے کام کرنے والوں کو شہروں میں نقد معاوضہ ملتا ہے اور کمّی کے توہین آمیز لقب سے بھی وہاں جان چھوٹ جاتی ہے تو انہوں نے اپنے اوزار اٹھائے اور شہروں میں جا بسے۔ شہروں میں انہیں مزدوری اچھی مل رہی ہے اور آئندہ نسلیں‘ کسی طبقاتی امتیاز یا خوف سے آزاد ہو کر تعلیم بھی حاصل کر رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب بارانی علاقے کے جو ہمارے گاؤں ہیں ان میں کوئی راج رہا ہے نہ معمار‘ نہ درزی‘ نہ لوہار‘ نہ بافندے! کمہار پہلے ہی بیکار ہو رہے تھے کہ اب دیہاتی بھی مٹی کے برتنوں کوچھوڑ رہے تھے۔ ہمارے بچپن میں گاؤں کا مقامی مستری مکان تعمیر کر دیتا تھا۔ اب اسے باقاعدہ درآمد کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ قبروں کو پختہ کرنے والا کوئی نہیں ملتا۔ ان نچلے طبقات کے بعد‘ کسان اور زمیندار بھی شہروں کو منتقل ہونے لگے اور مسلسل ہو رہے ہیں۔ جو افراد‘ واہ‘ سنجوال‘ کامرہ‘ حویلیاں اور راولپنڈی کی فیکٹریوں میں ملازمت کر رہے تھے‘ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں کو نہیں لوٹے بلکہ وہیں آباد ہو گئے۔ جو باقی بچے تھے ان میں سے کوئی فتح جنگ چلا گیا اور کچھ نے راولپنڈی اور اسلام آباد کی راہ لی۔ گاؤں میں ہر تیسرا گھر مقفل ہے! بابے آکر چکر لگا جاتے ہیں مگر اُن بابوں کے جانے کے بعد نئی نسل نے گاؤں کے مکانوں‘ حویلیوں اور زمینوں میں کوئی دلچسپی نہیں لینی! یوں ایک ویرانی ان بستیوں میں آہستہ آہستہ‘ دبے پاؤں‘ در آرہی ہے جسے روکنا ممکن نہیں!
دوسرا مسئلہ اُن بستیوں میں تعلیم کے پست معیار کا ہے۔ یہ درست ہے کہ پرائمری سکول‘ ہائی سکول بن گئے اور جو ہائی تھے وہاں گیارہویں اور بارہویں جماعتیں پڑھائی جانے لگیں مگر اساتذہ ایسے نہیں جو جوہرِ قابل کو پہچان سکیں یا کمزور طلبہ و طالبات کو صیقل کر سکیں! یوں یہ طلبہ و طالبات شہروں کے طلبہ و طالبات کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اُنہیں ملازمتیں بھی اسی نسبت سے کم حیثیت کی ملتی ہیں! اس طرح طبقاتی تفاوت میں اضافہ ہو رہا ہے اور معاشرہ تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہا ہے۔ نجی شعبہ بھی سکول کھول رہا ہے مگر وہ زیادہ کامیاب نہیں ثابت ہو رہے۔ ان کی فیسیں کسانوں کی سکت سے زیادہ ہیں۔ ایسے سکول تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد بند ہو جاتے ہیں۔
ہمارے گاؤں‘ ترقی یافتہ ملکوں کے دیہات کی طرح‘ کب جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ہوں گے؟ اس کا مستقبل بعید میں بھی کوئی امکان نہیں نظر آتا۔ لمحۂ موجود میں تو ہم آگے کی طرف نہیں‘ پیچھے کی طرف چل رہے ہیں! پاکستانی پنجاب کے مغربی اضلاع کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ عسکری بھرتی کے مراکز ہیں۔ کام کرنے والے جوان ہاتھ چلے جاتے ہیں بلکہ ایک ایک خاندان کے کئی لڑکے چھاؤنیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یوں زراعت توانا ہاتھوں سے محروم ہو جاتی ہے۔ ایک تو بارش پر تکیہ‘ دوسرا افرادی قوت کی کمی! تو پھر فی ایکڑ زرعی پیداوار کم نہ ہو تو اور کیا ہو! اس کا موازنہ فیصل آباد سے یا کسی بھی نہری علاقے سے کیجئے۔ آب رسانی کا خاطر خواہ انتظام! بھرپور افرادی قوت! یوں وہاں فی ایکڑ پیداوار کئی گنا زیادہ حاصل ہوتی ہے!
مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں ریٹائرڈ بوڑھوں کے لیے خصوصی گاؤں بسائے جاتے ہیں! شہر کے ہنگاموں سے دور‘ یہ آبادیاں بظاہر تو گاؤں کہلاتی ہیں مگر ان میں ہر وہ سہولت موجود ہوتی ہے جو شہر میں ہو سکتی ہے۔ انٹر نیٹ سے لے کر جدید ترین میڈیکل وسائل تک ہر شے مہیا کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ موبائل لائبریریاں بھی! شہروں کی لائبریریاں‘ کتابوں سے بھری ہوئی گاڑیاں ان آبادیوں میں بھیجتی ہیں۔ گاؤں کے لوگ اپنی پسند کی کتابیں ایشو کرا لیتے ہیں۔ وقتِ مقررہ پر یہ گاڑیاں پھر آتی ہیں۔ ہمارے لیے یہ سب کچھ خواب کی طرح ہے! ایسا خواب جس کی تعبیر کوئی نہیں! سینکڑوں سال سے ہمارے گاؤں اسی حالت میں ہیں! فرق اتنا پڑا ہے کہ بجلی آگئی ہے مگر لوڈ شیڈنگ کے ساتھ! ہاں! موبائل فون ہر دیہاتی کے ہاتھ میں ضرور ہے! جو تھوڑی بہت نقدی بجلی کے بل ادا کرنے کے بعد بچ جاتی ہے اسے موبائل فون چوس جاتا ہے! ڈیزل‘ کھاد اور بیج کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں! وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ؛ ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات! تو کسان کے اوقات کس قدر تلخ ہیں؟ اس کا اندازہ شہر والوں کو کہاں ہو سکتا ہے! انہیں تو آٹے سے لے کر دالوں تک ہر شے کیش اینڈ کیری سے میسر آجاتی ہے! ساحل پر کھڑے تماشائیوں کو کیا خبر کہ گرداب میں پھنسی کشتی کا کیا حال ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved