یہ پہلا سیاسی معرکہ ہے جو تحریکِ انصاف نے اپنے زورِ بازو سے لڑا اور جیتا۔ اس سے پہلے جو کامیابیاں اس کے نام رہیں‘ ان پر اَن دیکھے کرداروں کی پرچھائیاں ہیں۔ کیا عمران خان اپنی سعیٔ مسلسل سے اپنی سیاسی عصبیت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں؟ ضمنی انتخابات کے نتائج سے پیدا ہونے والے چند سوالات اور بھی ہیں جو اس کالم کا موضوع ہیں۔
سیاسی عصبیت کیا ہے؟ کسی فرد‘ گروہ یا نظریے کے ساتھ‘ عوام کے ایک طبقے کی ایسی وابستگی جسے وقت نے ایک خاص مدت تک پرکھا اورپھر اس کے استحکام پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ ضمنی انتخابات کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب کے حق میں وہ عصبیت پیدا ہو چکی۔ اب وہ سیاسی بیساکھیوں کے بغیر بھی‘ اپنے پاؤں پر چل سکتے ہیں۔ اس کا یہ مفہوم ہر گز نہیں کہ دیگر عصبیتیں ختم ہوگئیں۔ پیپلز پارٹی اور نواز شریف صاحب بھی اپنی اپنی عصبیت رکھتے ہیں اور وہ اپنی جگہ برقرار ہیں۔ اب ان کے ساتھ ایک نئی سیاسی عصبیت بھی جنم لے چکی۔
یہ عصبیت‘ کسی نظریے یا جماعت کے حق میں پیدا نہیں ہوئی‘ ایک فرد کے ساتھ خاص ہے۔ نظریے نام کی کوئی شے سیاست میں نہیں پائی جاتی۔ جماعت اسلامی کے استثنا کے ساتھ‘ قومی سیاسی جماعتیں اس سے تہی دامن ہیں۔ اس لیے یہ نئی عصبیت نظریاتی نہیں ہو سکتی۔ اس کو جماعتی قرار دیا جا سکتا تھا اگر یہ پیش گوئی ممکن ہوتی کہ یہ خان صاحب کے بعد بھی باقی رہی گی۔ ایسا کوئی امکان موجود نہیں۔ یہ ایک شخصی عصبیت ہے۔ جب تک خان صاحب ہیں‘ یہ باقی رہے گی۔
اس سے جڑا ہوا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ جب کسی رہنما کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے خلاف قانون کا اطلاق مشکل اور سیاسی اعتبار سے بے معنی ہو جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کو قتل کے مقدمے میں سزا ہوئی لیکن آج کسی کو اس سے غرض نہیں کہ اس الزام میں کتنی صداقت تھی۔ تاریخ نے صرف اس بات کو محفوظ رکھا کہ ایک سیاسی رہنما ایک آمر کے ہاتھوں پھانسی چڑھا دیا گیا۔ اسی لیے میرا تاثر یہ ہے کہ اب عمران خان کے خلاف بغاوت یا کوئی اور مقدمہ ان کی سیاسی حیثیت کو مجروح نہیں کر سکتا جس طرح اگرتلہ سازش کا مقدمہ شیخ مجیب الرحمن کی سیاست کو متاثر نہیں کر سکا۔ آج کے بعد تحریکِ انصاف کے خلاف پارٹی کی فارن فنڈنگ کا کیس بھی اپنی معنویت کھو چکا۔ فیصلہ جو بھی ہو‘ اس کی کوئی سیاسی افادیت باقی نہیں۔ الیکشن کمیشن اپنے تساہل کے سبب‘ فیصلے کے اعلان کا صحیح وقت ضائع کر چکا۔ اداروں کے خلاف خان صاحب کی جارحانہ سیاست نے ان کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے اور اب کوئی ادارہ ان کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہیں کر سکتا۔
اہم سوال یہ ہے کہ (ن) لیگ کیوں ناکام رہی؟ پنجاب اس کی سیاست کا گڑھ ہے۔ تحریکِ انصاف کے عہدِ اقتدار میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں فتح کا سہرا اس کے سر باندھا گیا۔ اس بار تو اقتدار بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔ پھر یہ ناکامی کیوں؟ اس سے متصل ایک سوال اور بھی ہے۔ اگر یہ مہنگائی کی سزا ہے تو یہ عمل تحریکِ انصاف کے عہد سے شروع ہوا۔ اس دور میں بھی پٹرول وغیرہ کی قیمتیں بڑھیں۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوا۔ شیخ رشید صاحب کا اعتراف موجود ہے کہ ہم عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں تھے۔ اب ایسا کیا ہوا کہ عوام نے چار سالہ مہنگائی اور نااہلی کو تو معاف کر دیا لیکن دومہینے کی مہنگائی پر سزا سنا دی؟ کیا یہ امریکہ مخالف بیانیے کی پذیرائی ہے؟
میرے پاس ان سوالات کے منطقی جواب موجود نہیں۔ اسی امریکہ مخالف بیانیے کو دیکھ لیجئے۔ اگر مہنگائی کو شکست کا ایک بڑا سبب مانا جائے تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ امریکہ نے آئی ایم ایف کی مدد سے تحریک انصاف کی کامیابی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ آئی ایم ایف کے اصرار پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا اور سیاست کا ایک مبتدی بھی جانتا تھا کہ سیاسی حکومت کو لازماً اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ آئی ایم ایف کو ہم سے زیادہ اس کے سیاسی اثرات سے آگاہی تھی۔ اس کے باوجود موجودہ حکومت کو غیرمقبول فیصلوں پر مجبور کیا گیا اور اسے کسی قسم کی رعایت دینے سے انکار کیا گیا۔ یوں بالواسطہ طور پر آئی ایم ایف نے خان صاحب کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
اس بیانیے کی حقیقت تو پہلے ہی دن سے واضح تھی لیکن ضمنی انتخابات نے اس کے بے بنیاد ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ موجودہ حکومت کو ایک دن بھی امریکہ سمیت کسی بیرونی حکومت یا عالمی مالیاتی ادارے کی مدد نہیں ملی۔ سعودی عرب جیسے دوست نے بھی معمول سے ہٹ کر کوئی مدد نہیں کی۔ اب اس کے باوجود بھی اگر کوئی 'رجیم چینج‘ کا بیانیہ تلاش کر سکتا ہے تو مان لینا چاہیے کہ وہ سمندر کی تہہ میں گم سوئی بھی ڈھونڈ سکتا ہے۔
ضمنی انتخابات کے نتائج نے میرے اس تجزیے کو مزید مستحکم کیا ہے کہ خان صاحب ایک 'کلٹ‘ ہیں۔ کلٹ میں کسی منطق‘ کسی عقلی رویے کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔ یہ پاپولزم کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ تضادات سے مملو ایک مؤقف کو جس طرح پذیرائی ملی‘ وہ حیران کن نہیں اگر اسے کلٹ مان لیا جائے۔ کیا عقل اس تضاد کو دورکر سکتی ہے کہ ایک شخص کرپشن مخالف بیانیے کا علمبردار ہے اور اس کی ساری تگ و دو کا حاصل یہ ہے کہ نصف پاکستان کے مقدر کو ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیا جائے جو اس کی نظر میں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو تھا؟ اگر لوگ اس کے باوجود یہ مان لیں کہ ایسا آدمی فی الواقع کرپشن کے خلاف لڑ رہا ہے تو اس کی کیا عقلی توجیہ ہے؟
بظاہر تین اسباب ہیں جنہوں نے تحریکِ انصاف کی اس کامیابی میں بنیادی کردار اداکیا۔ ایک نوجوانوں کی غیرمعمولی تائید اور دوسرا خواتین کی بے مثال سیاسی حمایت اور تحرک۔ نوجوانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ہم نے ان کے سیاسی شعور کو بہتر بنانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں نہ یہ سکھایا جاتا ہے کہ جمہوریت کیوں ضروری ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے اورنہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ ملکوں کے سیاسی استحکام میں آئین کی کیا اہمیت ہے۔ اس صورتِ حال میں یہ بہت آسان ہے کہ نوجوان پاپولر سیاست کا شکار ہو جائیں اور یہی ہوا۔
ملک میں خواتین کی تعداد پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔ خواتین کی غیرمعمولی تعداد عمران خان کے ساتھ ہے۔ جو اعلانیہ نہیں ہیں‘ میرا تاثر یہ ہے کہ ان کی اکثریت بھی ان کو پسند کرتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ خواتین کی نوے فیصد تعداد سیاسی حرکیات کے الف بے سے بھی واقف نہیں۔ ان خواتین کو نہ تو یہ خبر ہے کہ رجیم چینج کیا ہوتا ہے اور نہ وہ یہ جانتی ہیں کہ ریاستی ادارے کس چڑیا کا نام ہے؟ عمران خان کی اس نسوانی تائیدکے تمام تر اسباب سماجی اور نفسیاتی ہیں۔ اگر یہاں تحقیق کا ماحول ہوتا تو کسی یونیورسٹی کے شعبۂ نفسیات میں اس سوال پر تحقیق ہوتی کہ خواتین میں عمران خان کی مقبولیت کے نفسیاتی اسباب کیا ہیں؟
تیسرا سبب خان صاحب کی جرأت مندانہ اور جارحانہ سیاست ہے۔ انہوں نے ریاستی اداروں کے بارے میں جس لب و لہجے میں بات کی‘ جس طرح انہیں للکارا‘ اس نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا کہ عوام لیڈر کو جرأت مند دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی بات نے نواز شریف اور مریم نواز کو مقبول بنایا۔ اب جرأت اور بدتمیزی میں کیا فرق ہے‘ یہ سوال آج میرا موضوع نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved