باہر تیز بارش برس رہی تھی اور ہم Tim Hortons میں کافی پیتے ہوئے گلاس وال سے باہر کا منظر دیکھ رہے تھے۔ شعیب کہنے لگا: اب ہمیں کہاں جانا ہے؟ میں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا: ہماری اگلی منزل یونیورسٹی آف ٹورونٹو ہے جہاں سے میں نے تیس سال پہلے پی ایچ ڈی کی تھی۔ شعیب نے ہنستے ہوئے کہا: اور جہاں آج کل میں پڑھ رہا ہوں۔ ہم نے گلاس وال سے باہر دیکھا‘ تیز بارش اب ہلکی خوشگوار پھوار میں بدل چکی تھی۔ ہم کافی شاپ سے نکل کر ٹورونٹو کی دھلی دھلائی سڑکوں پر چلنے لگے۔ شعیب کہنے لگا: آج کل کینیڈا کا موسم آئیڈیل ہے لیکن کچھ دنوں بعد گرمی شروع ہو جائے گی۔ ہم سائیڈ واک پر چل رہے تھے اور میں شعیب کو بتا رہا تھا کہ آج سے تیس سال پہلے جب میں یہاں پڑھ رہا تھا‘ یونیورسٹی جانے کے لیے یہ میرا معمول کا رستہ ہوتا تھا۔ باتیں کرتے کرتے رستا کٹنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ ٹریفک سگنل کے دوسری طرف OISE (Ontario Institute for Studies in Education) کی عمارت تھی۔ OISE یونیورسٹی آف ٹورونٹو کا حصہ ہے جہاں میں پی ایچ ڈی کے لیے چار سال زیرِ تعلیم رہا۔ جہاں میری کتنی ہی صبحیں اور شامیں گزریں۔ OISE تعلیم کے شعبۂ ریسرچ کے اعتبار سے کینیڈا میں پہلے اور دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے۔ OISE کے نام سے میں اس وقت آشنا ہوا تھا جب 1985ء میں امریکن ایمبیسی کے سکالرشپ پر امریکہ گیا تھا۔تب ہماری پروگرام کی انچارج اور معروف ماہر لسانیات Diane Larson Freene نے مجھے OISE کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کے کئی برس بعد مجھے کینیڈین کامن ویلتھ سکالرشپ ملا تو میں نے اپنی ترجیح میں OISEکا نام لکھا۔ میرے گھر 35 Charles Street سے OISE کا فاصلہ دس‘ بارہ منٹ کا ہوگا جو عام دنوں میں تو ایک خوشگوار سرگرمی تھی لیکن برفباری کے دنوں میں جب سائیڈ واکس برف سے ڈھکی ہوتیں اور ہواؤں میں تیز کاٹ ہوتی تو یہ مختصر سفر بھی مشکل لگتا۔
شعیب نے کہا: ٹریفک کا اشارہ کھل گیا ہے۔ باتوں میں رستا کٹنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ میں نے چونک کر دیکھا سڑک کے پار OISE کی 14 منزلہ عمارت کھڑی تھی۔ میرے قدم تیز ہوگئے۔ میں عمارت کے مین ڈور سے اندر گیا تو وہی مانوس منظر میرے سامنے تھا۔ یہ موسمِ گرما کی تعطیلات کا وقت تھا۔ زیادہ تر لوگ چھٹیاں منانے مختلف جگہوں پر گئے ہوئے تھے۔ میں Elevator کا بٹن دبا کر دسویں منزل پر چلا گیا جہاں کریکولم (Curriculum) ڈیپارٹمنٹ اور Modern Language Centre تھا۔ زیادہ تر آفس بند پڑے تھے۔ تب میری نگاہ اس آفس پر پڑی جہاں میں بیٹھا کرتا تھا۔ ہر آفس میں پی ایچ ڈی کے دو سکالر ہوتے تھے۔ میرے ساتھ ایک چینی لڑکی Yelinبیٹھتی تھی۔ مجھے یاد ہے Yelinکی میز ہر وقت ایک مگ رکھا ہوتا‘ کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے وہ مگ سے چسکیاں لیتی رہتی۔ ایک روز میں نے پوچھا: تم ہر وقت کافی کیوں پیتی رہتی ہو؟ اس نے ہنس کر میری طرف دیکھا اور اپنے کپ سے کور ہٹا کر مجھے دکھایا‘ کپ میں صرف گرم پانی تھا۔ گرمیوں‘ سردیوں میں وہ گرم پانی پیتی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ میں مجھے چند معروف اساتذہ سے پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ ان میں سرفہرست Jim Connelly کا نام آتا ہے جنہوں نے اپنی کتاب Teachers as Curriculum Planners میں Curriculum کا بالکل نیا تصور پیش کیا۔ اسی طرح Literacy کی دنیا میں ایک بڑا نام David Olson بھی میرے استاد تھے۔ Jim Cummins ہمارے سب سے کم عمر استاد تھے جو بعد میں ماڈرن لینگویج سنٹر کے سربراہ بنے۔ Joe Weissہمیں Curriculumپڑھاتے تھے۔ انہی کی کلاس میں میرا تعارف ایک ایسی کتاب سے ہوا جس نے میری سوچ پر اہم اثرات مرتب کیے۔ اس کتاب کا نام Becoming Critical تھا۔ اسی شعبے میں مجھے Jim Cummins سے دو کورسز پڑھنے کا موقع ملا جو میری زندگی کا بہترین تجربہ تھا۔ جم کینیڈا میں اقلیتی زبانوں اور Multilingualism اور تحقیق کا اہم پیش رو سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرحEsther Geva اور Dale Willows سے میں نے ایک الگ کورس پڑھا جو ایک یادگار تجربہ تھا۔ معروف ریسرچرMerill Swain سے Cooperative Learning پڑھنے کا موقع ملا جہاں میں پہلی بار Reflective Journals کے تصور سے متعارف ہوا‘ بعد میں پاکستان کی دو مایہ ناز یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے دوران میں نے Reflective Journals کو ایک مؤثر تدریسی تکنیک کے طور پر استعمال کیا۔ پروفیسر Gordon Wells‘ جو زبان کے ایک نامور ریسرچر تھے‘ سے ایک کورس پڑھنے کا موقع ملا۔ گورڈن کے ساتھ مجھے بطور ریسرچ اسسٹنٹ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ گورڈن سائیکل پر یونیورسٹی آتے تھے۔ افسوس کہ 2020ء میں وہ امریکہ میں ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئے۔ سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر Linda Siegel ایک اہم اور دلچسپ پروجیکٹ پر کام کر ہی تھیں جس میں زبانوں کے رسم الخط اور زبانوں Reading Proficiency کے باہمی تعلق پر تحقیق کی جارہی تھی۔ ایک سمسٹر میں مجھے پروفیسر Lindaکے ساتھ اس پروجیکٹ پر کام کرنے کا موقع ملا۔
انہی دنوں OISE میں امریکہ سے ایک نوجوان پروفیسر آیا اور آتے ہی اپنی علمیت کی دھاک بٹھا دی۔ یہ Keith Stenovich تھا۔ Keith سے میں نے دو کورسز پڑھے اور فیصلہ کیا کہ میں Keith کے ساتھ پی ایچ ڈی کی ریسرچ کروں گا۔ اتفاق سے Keith ایک بڑے ریسرچ پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا‘ میری خوش قسمتی تھی کہ میں اس پروجیکٹ کے ساتھ بطور ریسرچ اسسٹنٹ منسلک ہو گیا۔ اسی دوران میں نے Keith سے اپنا پی ایچ ڈی کا سپروائزر بننے کی درخواست کی جو اس نے منظور کر لی۔ Keith کے ساتھ ریسرچ کا سفر میری زندگی کا خوش گوار ترین تجربہ تھا۔ وہ ایک بہترین استاد‘ بہترین ریسرچر اور بہترین انسان تھا۔ تین سال کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس نے فیڈبیک دینے میں تاخیر کی ہو۔ آخر تھیسز لکھنے کا سفر اختتام کو پہنچا اور میں تھیسز جمع کرا کے ڈیفنس کا انتظار کرنے لگا۔ میرے ڈیفنس سے دو ہفتے پہلے ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس کے اثرات پورے ڈیپارٹمنٹ پر مرتب ہوئے۔ ہوا یوں کہ مجھ سے ایک سال سینئر لڑکی کاپی ایچ ڈی ڈیفنس ہوا جس میں وہ ایگزامینرز کے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہ دے سکی اور یوں ڈیفنس میں فیل ہو گئی جس کا مطلب یہ تھا کہ اب اسے نئے سرے سے تھیسز لکھنا اور دوبارہ ڈیفنڈ کرنا ہو گا۔ اس واقعے سے میرے ذہن کے ایک کونے میں نامعلوم خوف در آیا۔ آخر وہ دن آہی گیا جس دن میرا ڈیفنس ہونا تھا۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو ایک لمبی میز کے اردگرد چھ سے سات لوگ بیٹھے تھے۔ ڈیفنس کا دورانیہ اڑھائی گھنٹے کا تھا۔ مجھے Presentation کیلئے 20 منٹ دیے گئے اور باقی تمام وقت سوالات کے کئی دور ہوئے۔ میں نے اپنے تھیسز کو کئی بار پڑھا تھا اور اپنے طور پر تمام ممکنہ سوالات کے لیے تیاری کی ہوئی تھی۔ اڑھائی گھنٹے بعد مجھے کہا گیا کہ میں کمرے سے باہر ویٹنگ روم میں انتظار کروں۔ انتظار کی شدت کا اندازہ مجھے اس روز ہوا۔ مجھے یوں لگا وہاں بیٹھے بیٹھے کئی صدیاں بیت گئی ہیں۔ ذہن میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے۔ اگر میں کامیاب نہ ہو سکا تو کیا ہو گا؟ میں کبھی کرسی پر پہلو بدلتا اور کبھی کھڑا ہو کر ٹہلنے لگتا۔ وقت تھا کہ گزر ہی نہیں رہا تھا۔ تب کمرے کا دروازہ کھلا اور میں نے دیکھا کہ میرا سپروائزر Keith کمرے سے نکل کر میری طرف آرہا ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved