تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-07-2022

بلدیاتی انتخابات اور کراچی کے مسائل

چند ہفتوں میں فیصلہ ہونے والا ہے کہ بلدیاتی اداروں کو عوام کی طرف سے کون چلائے گا۔ سندھ کے بلدیاتی انتخابات کا دوسرا اور آخری مرحلہ چند ہفتوں کی دوری پر ہے۔ کراچی اور حیدر آباد پر بادشاہت کے لیے بڑی جماعتوں میں خاصی کھینچا تانی ہو رہی ہے۔ ہر جماعت اس بات کی خواہاں ہے کہ ہما اُس کے سر پر بیٹھے۔ بعض تو ہما کو پکڑ کر سر پر بٹھانے کے فراق میں ہیں! دھینگا مشتی، چھینا جھپٹی کا ماحول ہے۔ سٹیک ہولڈر ہونے کے دعویدار ذمہ داریاں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہاں!اختیارات کی بات ہو تو جان و دل سے حاضر ہیں۔ یہ بھی کوئی انوکھا معاملہ نہیں۔ ہر دور میں نام نہاد سٹیک ہولڈر صرف مال بٹورنے ہی کے لیے آگے آتے رہے ہیں۔ کراچی اور حیدر آباد پر جنہیں ایک مدت تک حکمرانی کا موقع ملا وہ بھی کچھ ایسا کرنے میں ناکام رہے جس سے دونوں شہروں کی حالت میں کچھ بہتری لائی جاسکتی۔ صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے میں کبھی خاطر خواہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کوشش یہ رہی ہے کہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھ کر مقامی منتخب اداروں کو بے دست و پا رکھا جائے۔ اس کا نتیجہ بھی سب نے دیکھ لیا۔ مقامی اداروں کے نام پر فنڈز جاری کیے جاتے ہیں مگر کچھ پتا نہیں چلتا کہ یہ فنڈز کہاں چلے جاتے ہیں۔ جو کچھ کراچی اور حیدر آباد پر خرچ کیا جانا چاہیے وہ ذاتی اثاثوں کی فہرست کو طول دینے میں کھپ جاتا ہے۔
الزام تراشی کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ حد یہ ہے کہ تیس سال سے اقتدار کے مزے لُوٹنے والے بھی بھولے بادشاہ بن رہے ہیں کہ اُن کے ہاتھ میں تو کچھ تھا ہی نہیں۔ عوام یہ بات ماننے کو تیار نہیں کیونکہ اگر واقعی ایسا تھا تو پھر اُنہیں اقتدار میں رہنے کی ضرورت کیا تھی۔ عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے اقتدار کو خیرباد کہا جاسکتا تھا۔ اِس صورت میں کم از کم ساکھ تو بچ جاتی۔ مگر صاحب! یہاں ساکھ اور عزت کی فکر کس کو ہے!
پرویز مشرف کے دور میں کراچی کو نئی زندگی دینے کا عمل شروع ہوا۔ پہلے جماعتِ اسلامی کو شہر کا نظم و نسق سنبھالنے کا موقع ملا۔ یہ چار سال کراچی کے لیے نئی زندگی کے مترادف تھے۔ اِس دوران خاصے ترقیاتی کام ہوئے۔ نعمت اللہ خان مرحوم نے شہر کو اِس طور چلایا کہ مخالفین بھی اُن کی دیانت اور جاں فشانی کی داد دینے پر مجبور ہوئے۔ جماعتِ اسلامی کے لیے شہر کو سنبھالنے کا یہ پہلا موقع نہ تھا۔ 1979ء سے 1987ء تک مسلسل دو میعاد کے لیے عبدالستار افغانی کراچی کے میئر منتخب ہوئے تھے۔ عبدالستار افغانی نے کرپشن سے پاک نظم و نسق کی انوکھی اور درخشاں مثال قائم کی۔ انہوں نے شہر کو ٹاؤن پلاننگ کے مطابق ترقی سے ہم کنار کرنے میں دن رات ایک کیے رکھا۔ اُن کے دور میں شہر کی حالت متوازن اور معیاری تھی۔ یہ آٹھ برس اہلِ شہر کو اب تک نہیں بھولے۔ لیاری کے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہنے والے عبدالستار افغانی نے میئر کی حیثیت سے آٹھ سال تک شہرِ قائد کی خدمت کرنے کے بعد دفتر چھوڑا اور دوبارہ اپنے اُسی چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں سکونت پذیر ہو گئے۔ اُن پر کرپشن کا الزام اُن کی میئر شپ کے عہد میں لگایا گیا نہ بعد میں کسی نے ایسا کرنے کی ہمت اپنے اندر پائی۔ نعمت اللہ خان کے دور میں کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے جو کچھ کیا گیا وہ بھی کراچی کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ یہ پیپلز پارٹی کے بعض ''اہلِ نظر‘‘ ہی کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے نعمت اللہ خان کے دور میں کیڑے نکالنے کی کوشش کی! کہا جارہا ہے کہ پانی کا مسئلہ اُن کے دور میں پیدا ہوا۔ نعمت اللہ خان سے شدید مخالفت رکھنے والے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے کہ اُن کے دور میں کرپشن نام کی کوئی چڑیا بلدیاتی اداروں میں اُڑتی دکھائی نہیں دی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنے چار سالہ دور میں موصول ہونے والے فنڈز اور تمام اخراجات کی تفصیل دے کر رخصت ہوئے۔ اُن کے دور کے کسی ریکارڈ کو آگ بھی نہیں لگی! وہ ریکارڈ اب بھی کھنگالا جاسکتا ہے، جائزہ لے کر دیکھا جاسکتا ہے کہ کتنی رقم کہاں خرچ کی گئی۔ جن جماعتوں کو شہرِ قائد اور حیدر آباد پر تیس سال سے بھی زائد مدت تک حکمرانی کا موقع ملا ہے اُنہوں نے جو کچھ کیا‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ہم ایک زمانے سے تبدیلی کا غلغلہ سن رہے ہیں۔ حقیقی تبدیلی اب تک دکھائی نہیں دی۔ اب وقت آگیا ہے کہ جو کچھ بھی بدلنا ہے وہ بدل ہی دیا جائے۔ کراچی کو متبادل قیادت کی ضرورت ہے۔ جنہیں اِس شہر کا نظم و نسق چلانے کا موقع‘ بھرپور وسائل کے ساتھ‘ ملتا رہا ہے اُن سب کی کارکردگی عوام کے سامنے ہے۔ وقت بدل گیا ہے۔ اب اہلِ کراچی کو ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہے۔
چند برس کے دوران کراچی کے مسائل کے حوالے سے آواز اٹھانے والوں میں مصطفی کمال، آفاق احمد وغیرہ بھی نمایاں رہے ہیں؛ تاہم سب سے توانا آواز حافظ نعیم الرحمن کی رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم پاکستان، پاک سرزمین پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مہاجر قومی موومنٹ اور دوسری بہت سی جماعتیں میدان میں رہی ہیں۔ شہر کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوامی مسائل پر کھل کر بات کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوں۔ جماعتِ اسلامی چند ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر کراچی کے لیے حقیقی سنجیدگی کے ساتھ اپنا کردار بہت عمدگی سے ادا کر سکتی ہے۔حافظ نعیم الرحمن چار‘ پانچ برس کی مدت میں بہت تیزی سے ابھرے ہیں۔ کراچی کی میئر شپ کے لیے وہ ایک بڑے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اقتدار میں نہ ہونے پر بھی جماعت نے گزشتہ چار پانچ برس کے دوران شہرِ قائد کو نئی زندگی دینے کے حوالے سے بہت کچھ کیا ہے۔ شہرِ قائد کی سیاست کے حوالے سے اس کا ٹریک ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے۔ عبدالستار افغانی کی آٹھ سالہ میئر شپ نے جماعتِ اسلامی کو کراچی کے معاملات سمجھنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ تب کراچی میں جماعتِ اسلامی کی جڑیں مضبوط ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بعد میں نعمت اللہ خان نے بھی شاندار انداز سے شہر کی خدمت کی اور مخالفین بھی اُن کے خلوص، دیانت اور جاں فشانی کو سراہے بغیر نہ رہ سکے۔
اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ شہرِ قائد کا رقبہ بہت زیادہ ہے اور آبادی بھی تمام اندازوں کی حد پار کرچکی ہے۔ شہر میں درجنوں جماعتیں سرگرم ہیں؛ تاہم چھوٹی جماعتیں اپنے طور پر زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکتیں۔ ایسے میں اُن کے لیے بہترین آپشن یہ بنتا ہے کہ شہر کو حقیقی سیاسی و انتظامی تبدیلی سے ہم کنار کرنے کے لیے بڑی جماعتوں سے ہاتھ ملالیں تاکہ بلدیاتی انتخابات میں چہروں کے بجائے نظام کی تبدیلی کی راہ ہموار کی جاسکے۔ شہرِ قائد کے مکینوں کو بھی سوچنا ہے کہ یہاں سے کس سمت بڑھنا ہے۔ کیا آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلنی ہیں؟ جنہیں تین عشروں کے دوران شہر کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا گیا وہ کچھ خاص نہ کر پائے۔ اُن کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ شہر کے لیے جاری کیے گئے فنڈز ذاتی اثاثوں کی فہرست کو طول دینے میں کھپائے جاتے رہے۔ یہ سب کچھ 'طشت از بام‘ کے درجے میں ہے یعنی کسی کا کوئی معاملہ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس نے کتنا مال بٹورا۔ کبھی سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے پھرنے والے آج کروڑ پتی‘ ارب پتی ہیں۔ اُن کے حالات بدل گئے مگر شہر وہیں کا وہیں ہے بلکہ مزید خرابیوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ شہرِ قائد کے مکینوں کو بڑی تبدیلی کا موقع ہاتھ لگا ہے۔ یہ موقع ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔ شہر کے لیے کسی ایسے امیدوار کا انتخاب کرنا چاہیے جو شہر کے وسائل کو شہر اور عوام کی بہتری کے لیے صرف کرے‘ محض اپنی جیبیں یا تجوری بھرنے پر اس کی نظر نہ ہو۔ ایسی قیادت‘ جو شہر کے مسائل سے بخوبی واقف اور ان کے حل کے لیے سنجیدہ ہو‘ وہی عوام کی تکالیف میں کمی کی کچھ سبیل کر سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved