تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     23-07-2022

جیت صرف ووٹ کی

میں صرف جمہوریت کو سپورٹ کرتی ہوں لیکن کرپٹ اور موروثی جمہوریت کو سپورٹ نہیں کرتی۔ جمہوریت کا مطلب چند خاندانوں کی حکومت نہیں ہے‘ اس کا مطلب عوام کی حکومت ہے جو عوام کے لیے کام کرے مگر ہمارے دیس میں حساب کچھ اور ہی ہے۔ یہاں جمہوریت چند خاندانوں کی حکومت کا نام ہے۔ اُن خاندانوں کے نزدیک جب وہ برسراقتدار ہوں گے تبھی ملک میں حقیقی جمہوریت قائم ہوگی ورنہ ملک اور جمہوریت کو فوری طور پر شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ اس وقت تو ملک میں خیر سے 13جماعتوں کی حکومت قائم ہے‘ پھر بھی ملک میں دودھ یا شہد کی نہریں بہتی نظر نہیں آ رہیں۔ عوام مشکلات کا شکار ہیں اور معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ اتنے سارے تجربہ کار سیاست دان ایک ساتھ ہوتے ہوئے بھی عوام کیلئے کچھ نہیں کر پا رہے۔ عوام روز بروز بڑھتی مہنگائی سے تنگ آ کر فاقوں اور خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔ پی ڈی ایم تو مہنگائی کے خلاف میدان میں اُتری تھی پھر خود حکومت میں آکر وہ مہنگائی کی کہ جس کا ریکارڈ نہیں ملتا۔
پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخاب سے بہت سے نتائج اخذ ہوئے ہیں۔ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان کاٹنے دار مقابلہ تھا۔ لوٹاکریسی کی روش نے ملکی سیاست کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جمہوری قوتیں اِس بار پوری طاقت سے غیرجمہوری قوتوں کا مقابلہ کررہی تھیں۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں رجیم چینج کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان ایک بھرپور مقابلہ رہا۔ ان انتخابات میں جیت تحریک انصاف کو ملی اور یہ ایک شاندار جیت تھی۔ عوام کی ایک بڑی تعداد جوکہ پی ٹی آئی کی حامی ہے‘ وہ اس جیت پر پُرمسرت نظر آئی۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) نے بھی کھلے دل کے ساتھ شکست کو تسلیم کیا۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ شاید پی ڈی ایم کی حکومت اتنی بڑی شکست کے بعد مستعفی ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ اتنی جلدی جانے کے موڈ میں نہیں لگ رہی۔
رجیم چینج کے بعد سے ہر چیز کا ایک تماشا سا لگا ہوا ہے۔ بہت سے لوگ سائفر کو نہیں مانتے لیکن میں اس کو سازش اور مداخلت سب مانتی ہوں۔ اس طرح اتنی جماعتوں کا اتحاد غیرفطری ہے‘ یہ کیسے ہوگیا‘ حیرت انگیز بات ہے۔ ایک اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا اور ایک وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ یہ سب بہت افسوس ناک تھا۔ فائیو سٹار ہوٹل میں پنجاب کا وزیراعلیٰ منتخب ہوا۔ پنجاب اسمبلی کے فلور پر پنجاب پولیس کے اہلکار آ دھمکے‘ ایسے مناظر پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ میرے نزدیک ایسا کرنے سے صوبائی اسمبلی اور اسپیکر کے عہدے کی تذلیل کی گئی۔ اس طرح کے اقدامات سے پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے کی سیاست میں جو مذاق ہوئے‘ مطالعہ پاکستان کے طالب علموں کیلئے اُنہیں یاد رکھنا کسی تکلیف سے کم نہ ہوگا۔ اتنی تاریخیں‘ اتنے لوگ‘ اتنے عہدے اور اتنی قلیل مدت جمہوریت کے ساتھ کھل کر کھیلا گیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے جان بوجھ کر جمہوریت کے ساتھ مذاق کیا تاکہ عوام کا اعتبار جمہوریت سے اٹھ جائے۔
پھر بھی پنجاب کے 20حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں عوام گھروں سے باہر نکلے اور اُن تبدیلیوں کو مسترد کردیا جو اقتدار کی غلام گردشوں میں کی جاتی ہیں۔ عوام صرف ووٹ سے تبدیلی کے خواہاں ہیں‘ اُنہوں نے وفاداریاں بدلنے والے لوٹوں کو یکسر مسترد کردیا۔ اب پرانے ووٹرز کے ساتھ نئے ووٹرز بھی انتخابی عمل کا حصہ بن چکے ہیں اور نیا ووٹر موروثی سیاست اور کرپٹ سیاستدانوں کو مسترد کررہا ہے۔ نوجوان ووٹر بہت ذہین ہیں۔ اُنہوں نے ووٹنگ کے عمل پر پوری پوری نظر رکھی اور پَل پَل کی رپورٹ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔ اس بار ہوا تحریک انصاف کے ساتھ تھی‘ اس لیے وہ زیادہ نشستیں لے گئی۔ تحریک انصاف کا بیانیہ عوام میں عام ہوا اور عوام کی بڑی تعداد نے ان کو ووٹ دیا۔ اس کے ساتھ حماد اظہر اور یاسمین راشد نے جس طرح سے مؤثر طریقے سے مہم چلائی‘ وہ بہت متاثر کن تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ چوہدری خاندان کے سیاسی داؤ پیچ بھی تحریک انصاف کے کام آئے۔ پنجاب میں اِس بار تحریک انصاف کو مؤثر قیادت ملی ہے۔
دوسری طرف مریم نواز نے بھی بہت اچھی انتخابی مہم چلائی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ عوام ان کی جماعت کی طرف سے کی جانے والی مہنگائی سے نالاں ہیں۔ حکومت قبول کرنے سے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بھی متاثر ہوگیا۔ اس کا اثر پوری (ن) لیگ کی سیاست پر پڑا ہے اور شاید اسی وجہ سے نواز شریف اور اسحاق ڈار وطن واپس نہیں لوٹ رہے۔ اب یہ ضمنی الیکشن میں ہار ایک اور بڑا جھٹکا ہے کہ (ن) لیگ اپنے گڑھ میں ہار گئی ہے۔ تاہم اتحادی اب بھی خواہش مند ہیں کہ وہ حکومت میں رہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو سوچنا پڑے گا کہ حکومت میں رہنے کا اُن کے ووٹ بینک پر کیا اثر پڑے گا۔ گزشتہ ضمنی انتخابات اور 20حلقوں میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخاب نے مسلم لیگ کی پوزیشن واضح کردی ہے۔ حکومت کی تبدیلی میں مسلم لیگ کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے‘ یہ ایک سیاسی نقصان ہے کہ اپنے سیاسی گڑھ میں بھی صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتی نا جا سکیں۔وزیراعلیٰ کے انتخاب میں پھر سے خرید و فروخت کی منڈی لگی رہی۔ اس ملک میں اگر خرید و فروخت کے لیے اتنا پیسہ ہے تو پھر ہم آئی ایم ایف کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ یہ ووٹ کو خریدنے والے پیسہ قومی خزانے میں جمع کروا دیں۔ لیکن انہوں نے ملک کے کام نہیں آنا‘ صرف جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنی ہیں اور سیاست کو عوام کی نظر میں بدنام کرنا ہے۔
پھر بھی عوام جمہوریت کو پسند کرتے ہیں اور جمہوریت کو ووٹ دینے باہر نکلے۔ اب بھی وہ ملک میں پارلیمانی نظام کے خواہاں ہیں لیکن عوامی مینڈیٹ کو ایوان میں آکر بیچ دینا عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔ اس بار عوام دوسرا چانس دینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اس لیے اپنی سیاست بچانے کا طریقہ یہی ہے کہ جمہوریت کو چلنے دیں‘ عوام کے ووٹ کو مت بیچیں اور محلاتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ یہاں ہمیشہ خرید و فروخت کی منڈیاں لگتی رہی ہیں اور وفاداریاں بیچنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ لیکن اب ووٹ کو عزت دینی چاہیے نوٹ کو نہیں۔ سارا ملک یہ تماشا دیکھ رہا‘ وہ لوگ بھی جنہوں نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دی۔اپوزیشن جماعتیں برسراقتدار آنے والی جماعت کو اپنی مدت پوری کرنے دیا کریں۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچنی چاہئیں۔ ایک دوسرے کی کردار کشی نہیں کی جانی چاہیے۔ اپنے اپنے لہجوں میں نرمی پیدا کرنی چاہیے۔ سیاسی قیادت جو لڑائیاں لڑ رہی ہے وہی معاشرے میں عدم برداشت پھیلا رہی ہیں۔ نظریاتی اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے عوام بھی ایک دوسرے سے اُلجھ رہے ہیں‘ اس سلسلے کو اب رُک جانا چاہیے۔ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں اور ایک دوسرے کو کام کرنے کا پورا موقع دیں۔
عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ اب سیاست دان کیا طے کرتے ہیں‘ کیا وہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں گے یا اسی طرح خرید و فروخت کرکے ایک دوسرے کے ووٹ بینک کی توہین کرتے رہیں گے‘ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مجھے لگتا تھا کہ اس ملک میں آمروں نے جمہوریت کو پھلنے پھولنے نہیں دیا لیکن اب تو لگتا ہے کہ سیاست دان ان سے زیادہ قصوروارہیں جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پا رہے اور ووٹ کی خرید و فروخت اور لوٹا کریسی سے جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved