جمعہ کے روز سب پنجاب اسمبلی پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ اتوار 17 جولائی کو صوبے کی 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف 15 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ ان نتائج کے بعد تحریک انصاف اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے لیے پرعزم تھی۔ عمران خان اور ان کی ٹیم کا مورال بھی کافی بلند تھا۔جمعرات کی شب خان صاحب نے ایک بھرپور خطاب بھی کیا‘ جس میں عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنے کا کہا‘ سری لنکا کے حالات سے ڈرایا اور یہ دھمکی بھی دی کہ پھر عوام کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔خطاب کے آخر میں انہوں نے کارکنوں سے کہا کہ نتائج ان کی مرضی کے آئے تو جشن ہوگا‘ کچھ گڑبڑ ہوئی تو جمعہ کی رات کو پھر خطاب کرکے اپنا لائحہ عمل دیں گے۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) والے بھی پُراعتماد تھے۔ اس سب کے بیچ سابق صدر آصف علی زرداری خاصے متحرک رہے۔ جمعرات کو وہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کے گھر پہنچے‘ ملاقات کی اور جاتے ہوئے وکٹری کا نشان بناکر گئے۔ ان کے جانے کے بعد چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی شجاعت حسین صاحب کو ملنے پہنچ گئے‘ پھر زرداری صاحب تھوڑی دیر بعد واپس وہاں پہنچ گئے اور رات تک وہیں رہے۔ اس بیچ خبر آئی کہ چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے زرداری صاحب کی خواہش کے باوجود ان سے ملاقات نہیں کی اور اُس ہوٹل چلے گئے جہاں تحریک انصاف اور ان کے اتحادی موجود تھے۔ زرداری صاحب پھر بھی شجاعت حسین صاحب کے پاس رات گئے تک بیٹھے رہے‘ وہیں کھانا کھایا‘ آرام دہ صوفے پر دونوں کی بیٹھے ہوئے تصویر بھی میڈیا کی زینت بنی۔
پھر جمعہ کا دن آگیا۔ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اپنے اپنے ہوٹلوں سے بسوں میں سوار ہوکر پنجاب اسمبلی پہنچے۔ اجلاس شام 4 بجے شروع ہونا تھا لیکن نہ ہوا‘ کچھ وقت گزرا تو پی ٹی آئی والوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ اجلاس شروع نہ کرکے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور وہ عدالت سے رجوع کریں گے۔ آخر کار شام 7 بجے سے کچھ پہلے اجلاس شروع ہوگیا‘ لیکن اجلاس شروع ہونے سے پہلے اسمبلی میں ایک‘ اور پھر دو خطوں کی بازگشت ہونے لگی۔ اس بیچ مونس الٰہی بھی پنجاب اسمبلی سے نکل کر چودھری شجاعت حسین کو ملنے پہنچے اور خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے۔ اجلاس شروع ہوا‘ پی پی 7 راولپنڈی سے مسلم لیگ (ن) کے نو منتخب رکن راجہ صغیر نے حلف اٹھایا پھر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے سب کو ہدایات دیں‘ ووٹنگ ہوئی‘ گنتی ہوئی‘ چودھری پرویز الٰہی کو 186 اور حمزہ شہباز کو 179 ارکان نے ووٹ دیا۔ نتائج کا اعلان کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر چودھری شجاعت حسین کی جانب سے ان کے لیے لکھا گیا خط سامنے لے آئے۔ انہوں نے خط پڑھ کر سنایا کہ اپنی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے ارکان کو ہدایت کررکھی ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ نہ دیا جائے‘ اس بنا پر انہوں نے چودھری شجاعت حسین کی پارٹی کے 10 ووٹ کاؤنٹ نہیں کئے۔ یوں حمزہ شہباز تین ووٹوں کی برتری سے وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے۔
کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ کپتان پھر سکرین پر آئے اور قوم کو پرامن احتجاج کی کال دے دی اور اسمبلی میں جو ہوا اس کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا۔ ان کے ارکانِ اسمبلی اور چودھری پرویز الٰہی رات گئے سپریم کورٹ رجسٹری لاہور پہنچ گئے۔ ایک بار پھر رات گئے عدالت کھل گئی۔ ہفتے کے روز سپریم کورٹ نے لاہور رجسٹری میں سماعت کے بعد مختصر فیصلے میں حمزہ شہباز کو ایک بار پھر قائم مقام وزیراعلیٰ بنادیا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر نے 17 مئی کے عدالتی احکام کو غلط سمجھا ہے اور پارٹی ہیڈ اور پارلیمانی ہیڈ کے اختیارات کی غلط تشریح کی ہے‘ اس لئے پیر یعنی کل تک حمزہ شہباز صرف روٹین کے محدود امور نمٹائیں گے اور ان کا سٹیٹس وہی ہوگا جو یکم جولائی کو تھا۔ سپریم کور ٹ نے پنجاب حکومت سے تفصیلی جواب طلب کرنے کے علاوہ چوہدری شجاعت حسین کا خط دیکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ۔تاہم جمعہ کے روز اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس پر قانونی ماہرین کی رائے تقسیم ہے۔کچھ ماہرین کے خیال میں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے جو کیا وہ درست نہیں تھا۔ بعض قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ کپتان خود سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کروا چکے ہیں اور اس تشریح کے مطابق پہلے انہوں نے عدالت سے فیصلہ لیا کہ پارٹی سے انحراف کرنے والوں کے ووٹ کو نہ گنا جائے‘ اب وہ عدالت اس لیے گئے کہ پارٹی سربراہ کی واضح ہدایت کے باوجود اس کے خلاف جاکر ووٹ دینے والوں کے ووٹ کو گنا جائے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان صاحب عوامی جذبات پر سیاست کرنے کے ماہر ہیں۔ ان کے چاہنے والے ان کے منہ سے ادا ہوئے الفاظ کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں ۔ پچھلے کچھ عرصے میں خان صاحب نے جارحانہ سیاست کی جو پالیسی اپنا رکھی ہے اس میں وہ ان سب کو پاکستان دشمن اور غدار قرار دے چکے ہیں جن کی ماضی میں وہ تعریفیں کرتے رہے ہیں۔ عمران خان 20 حلقوں میں ضمنی الیکشن سے پہلے دھاندلی کا شور مچاتے رہے‘ تب بھی اپنے حامیوں کو یہ سبق یاد کروایا کہ چیف الیکشن کمشنر‘ حمزہ شہباز اور مریم نواز کے ساتھ مل کر الیکشن میں دھاندلی کرنے جارہے ہیں‘کوئی مسٹر ایکس اور پھر بعد میں ایک اور مسٹر وائے کی کہانی بھی لے آئے۔ یوں ایک ایسا ماحول بنادیا گویا ضمنی الیکشن میں ان کے خلاف اوپر سے لے کر نیچے تک ہر ادارہ سازش کررہا ہے۔ پولنگ کے دن بھی دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹا‘ شام کو رزلٹ آئے تو دھاندلی کا بیانیہ غائب اور کپتان کا نشانہ پھر چیف الیکشن کمشنر کی ذات تھی۔ کپتان کے سیاسی مخالفین کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن ان کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے جارہا ہے اور خان صاحب پریشر بڑھانے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کی ذات کو نشانہ بنارہے ہیں۔اگر فیصلہ ان کے خلاف آئے تو وہ اپنے حامیوں کو بتائیں گے کہ وہ پہلے ہی کہتے تھے کہ الیکشن کمیشن ان کے خلاف ہے۔عمران خان ایک منظم اور مربوط انداز میں اپنا بیانیہ لے کر چلتے ہیں۔ وہ جو بات کرتے ہیں اس کو سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلایا جاتا ہے اوراس دور میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ سچ جھوٹ کی تصدیق کرے۔لوگ اپنے پسندیدہ لیڈر کی زبان سے نکلے لفظوں پر یقین کرنا ضروری سمجھ لیتے ہیں۔عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے جانے سے پہلے کہتے تھے کہ وہ نکالے گئے تو بہت خطر ناک ہوجائیں گے‘ پھر انہوں نے خطرناک ہونے کی بھرپور تیاری کی۔ لانگ مارچ لے کر اسلام آباد گئے‘ مطلوبہ بندے ساتھ نہ دیکھ کر واپس ہولیے‘ اس سب کے ذریعے عمران خان مقتدرہ کو بیک فٹ پر لانا چاہ رہے ہیں۔ اپنے حامیوں کو وہ یہ باور کرواچکے ہیں کہ امریکا نے ان کو اقتدار سے نکالا۔ اب ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں اقتدار میں واپس لایا جائے۔ عمران خان اب پنجاب کی وزارت اعلیٰ اپنے اتحادی چودھری پرویز الٰہی کو دلانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ خان صاحب یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ ان کے ایم پی ایز کو کروڑوں روپے آفر کیے گئے ہیں۔ ضمیروں کا سودا کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ووٹنگ ہوئی تو دونوں جماعتوں کی جو پارٹی پوزیشن تھی وہی ووٹ نکلے۔ امریکی سازش ‘ انتخابات میں چیف الیکشن کمشنر کی دھاندلی‘ سرکاری مشینری کے استعمال کے بعد ان کا نوٹوں کی بوریوں کا الزام بھی جھوٹا ثابت ہوا‘ لیکن کپتان کے حامیوں کو ان کا ہر الزام سچ لگتا ہے۔ ان کے لیے ایک سوال چھوڑے جاتا ہوں کہ عثمان بزدار کے خلاف سازش کس نے کی تھی؟ بزدار کی حکومت کس نے ختم کی تھی؟ ایک خدشہ اور بھی ہے کہ عدالت سے اب اگر کپتان کی مرضی کا فیصلہ نہ آیا تو کہیں ان کی توپوں کا رخ عدلیہ کی جانب نہ ہوجائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved