تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     24-07-2022

نئے مسائل اور فرسودہ خیالات

گزشتہ دنوں میں نے پاکستان میں موجودہ معاشی بحران کے تناظر میں مختلف معاشی نظاموں کا جائزہ لیا تھا۔ اس جائزے کے دوران یہ عرض کیا تھا کہ اس وقت پوری دنیا میں مروجہ نیولبرلزم اور سرمایہ داری نظام کو سخت قسم کے معاشی و سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ یہ ایک طرح سے پوری انسانیت کا مشترکہ بحران ہے ‘ جس سے نکلنے کیلئے مقامی حکومتوں کا ایک کردار ضرور ہے‘ مگر اس سلسلے میں کسی قابل ِذکر کامیابی کے لیے عالمی سطح پر مشترکہ کوشش ناگزیر ہے۔ میں نے اس باب میں یہ عرض کیا تھا کہ دنیا میں کوئی نظام مقدس نہیں ہوتا۔ بنی نوع انسان کی تاریخ میں ہر نظام کا متبادل موجود رہا ہے اور یہ متبادل ہمیشہ موجود رہے گا۔ کوئی نظام جب فرسودگی کا شکار ہونا شروع ہوتا ہے تو وہ انسان کو درپیش مسائل کا حل پیش کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ وہ نئے حالات اور وقت کے نئے تقاضوں کی روشنی میں اٹھائے گئے سولات کا جواب نہیں دے سکتا۔ انسان کو درپیش معاشی اور سیاسی مسائل کا حل نہیں پیش کر سکتا۔ نتیجتاً وہ نظام ناکام ہوجاتا ہے اور اس کے بطن سے نیا نظام جنم لیتا ہے۔ نئے نظام کا جنم اکثر اوقات انقلاب کی شکل میں ہوتا ہے‘ لیکن گاہے یہ نظام ایک پر امن اور سست رفتار اصلاحی طریقے سے بھی پرانے نظام کی جگہ لیتا ہے۔ پتھر کے زمانے سے لے کر دنیا میں مختلف معاشی و سیاسی نظام رہے ہیں۔ ان میں ایک سوشلزم بھی ہے‘ جو ایک جدید سائنسی نظریہ ہے مگر سوشلسٹ تصورات بذات ِخود بہت پرانے ہیں۔سوشلسٹ انقلاب سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک‘ تہذیبوں اور سماجوں میں سوشلزم سے ملتے جلتے نظریات موجود رہے ہیں‘ جس کا سلسلہ تاریخی سوشلزم سے شروع ہو کرمذہبی سوشلزم‘ یوٹو پیائی سوشلزم سے ہوتا ہوا جدید سوشلزم تک پہنچتا ہے۔ اس طرح کے نظریات کے اندر دولت کی منصفانہ تقسیم کا تصور اور سماج میں مساوات کے تصورات تاریخ کے ہر دور میں موجود رہے ہیں اور مختلف اوقات میں ابھر کر سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن تاریخ میں جو نظریہ ایک سائنسی اور انقلابی قوت کے طور پر اب تک سامنے آیا ہے اسے مارکسزم کہا جا تا ہے اور مشہور دانشور کارل مارکس کو اس نظریے کا خالق سمجھا جاتا ہے۔ کارل مارکس ایک جرمن فلاسفر تھے۔ وہ بیک وقت ماہر معاشیات‘ تاریخ دان ‘ ماہرِ سماجیات‘ اور فلاسفر تھے۔ مارکس نے سیاسی ‘معاشی اور فلسفے کے میدان میں قابلِ رشک اور معرکہ آرا کام کیا۔ مارکس کی تخلیقات میں داس کیپٹل اور کمیونسٹ مینی فیسٹو سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ مارکس نے بون اور برلن جیسی اپنے وقت کی مشہورجرمن یونیورسٹیوں سے قانون اور فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ اپنے خیالات و انقلابی نظریات کی وجہ سے مارکس کو اپنا ملک چھوڑ کر جلاوطن ہونا پڑا اور اپنے بیوی بچوں سمیت لندن میں رہ کر اپنا کام جاری رکھا ‘ جہاں انہوں نے ایک اور فلسفی فریڈرک اینگلز کے ساتھ مل کر معاشیات کے حوالے سے بنیادی کام کیا۔ دونوں فلسفیوں نے معیشت اور سیاست پر جو کام کیا اسے مارکسزم کہا جاتا ہے۔ مارکسزم کیا ہے ؟ مارکسزم ایک سماجی‘ سیاسی اور معاشی فلسفہ ہے۔ یہ فلسفہ بنیادی طور پر محنت کش طبقات کی جدو جہد کو فوکس کرتا ہے۔ مارکسی فلسفے کی رو سے ایک سرمایہ دارانہ سماج کے اندر محنت کش اور سرمایہ دار کے درمیان تعلق استحصال پر مبنی ہوتا ہے‘ جس کی وجہ سے طبقاتی تضاد پیدا ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔ یہ تضاد انقلاب کے لیے حالات پیدا کرتا ہے جس کے تحت محنت کش طبقہ سرمایہ دار طبقے کو ہٹا کر سماج کا معاشی و سیاسی انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ مارکس کے خیال میں ایک سرمایہ دارانہ سماج میں دو طبقات ہوتے ہیں‘ایک وہ جو ذرائع پیداوار کے مالک ہوتے ہیں اور دوسرے محنت کش‘ جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا مگر جن کی محنت خام مال کو قابلِ قدر معاشی اشیا میں بدلتی ہے۔ محنت کش طبقات کا سرمایہ دارانہ معیشت میں کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اپنا منافع بڑھانے کے لیے سرمایہ دار محنت کش طبقات کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرتے ہیں اور ان کو ان کی محنت کا کم از کم معاوضہ دیتے ہیں جس سے معاشی عدام توازن پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ محنت کش کا اس پیداواری عمل میں حصہ بہت کم ہوتا ہے‘ جس کی وجہ سے وہ تصورِ بیگانگی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس طرح سرمایہ دار طبقات کا تمام سماجی اداروں ‘ حکومت‘ میڈیا ‘ایکڈیمیا‘ بینکوں اور معاشی اداروں پر کنٹرول ہوتا ہے اور وہ اس کو محنت کش طبقات کے مفادات کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ یہ عدم مساوات اور استحصال سماج میں انقلاب کا باعث بنتا ہے جس کے ذریعے محنت کش ذرائع پیداوار کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ گویا خود سرمایہ داری نظام کے اندر اس کی تباہی کا سامان موجود ہوتا ہے۔ محنت کش طبقات کی بیگانگی اور ان کا استحصال ان کو بغاوت پر آمادہ کرتا ہے جس سے انقلاب جنم لیتا ہے‘ اس انقلاب کی رہنمائی ایسے پڑھے لکھے لوگ کرتے ہیں جو سماج کے طبقاتی تضادات کو سمجھتے ہیں اور جو محنت کش طبقے کو متحد کرتے ہیں اور اس کو سماجی شعور سے لیس کرتے ہیں۔اس طرح مارکس نے پہلی بار سوشلزم کے تصورات کو تھیوکریٹک اور یو ٹوپیائی سوشلزم سے الگ کیا اور اسے جدید سائنس اور فلسفے کی روشنی میں جدید معاشی اور سیاسی اصطلاعات کے ذریعے واضح کیا۔ مارکس کی داس کیپٹل اور کمیونسٹ مینی فیسٹو پوری دنیا کی سوشلسٹ تحریکوں کی رہنمائی کے لیے بنیادی دستا ویزات کی شکل اختیار کرگئیں۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں مارکسزم ایک جدید سیاسی و معاشی نظریے اور فلسفے کے طور پر دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں میں مقبول ہو گیا لیکن مارکسزم کے عملی اطلاق اور الگ الگ ملکوں کی عملی سیاست میں اس کے استعمال کے سوال پر دنیا بھر کے سوشلسٹوں اور سوشلسٹ تحریکوں میں سخت اختلاف موجود رہا‘ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا گیا نتیجتاً دنیا بھر میں سوشلسٹ انقلابات کی صورت میں سوشلزم کی مختلف شکلیں ابھر کر سامنے آئیں۔ ان میں مارکسزم‘ لینن ازم‘ ماؤ ازم‘ جو چے نظریہ سمیت سوشلزم کی کئی مشہور شکلیں ابھریں۔ ان کے علاوہ مشرقی یورپ کے کئی ممالک‘ کیوبا‘ وینزویلا سمیت لاطینی امریکہ کی کچھ ریاستوں میں سوشلزم کی نئی شکلیں سامنے آئیں۔ اس کے علاوہ کچھ مغربی ممالک میں جمہوری سوشلزم‘ سوشلزم کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سوشل ڈیماکریسی‘ کرسچین سوشلزم کے نظریات بھی سامنے آئے۔ اس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں سوشلزم کے مختلف ماڈلز سامنے آئے۔ کچھ ماڈلز کا تجربہ سوویت یونین میں ہوا‘ جن میں مارکسزم لینن ازم‘ سٹالن ازم اور بعد کے ماڈلز شامل ہیں۔ اس طرح مشرقی یورپ کے کچھ ممالک ہنگری‘ بلغاریہ‘ چیکو سلواکیہ اور جرمنی وغیرہ میں ایک دوسرا ماڈل سامنے آیا۔ کیوبا اور وینزویلا وغیرہ میں سوشلزم کی اشکال بالکل مختلف تھی۔ چین میں ما ؤازم یا کوریا میں جوچے ازم میں سوشلزم کا بالکل علیحدہ شکلوں میں اظہار ہوا۔ ان الگ الگ ماڈلز ‘ ان کی کامیابیوں‘ اور ناکامیوں اور ان سے سیکھے جانے والے اسباق کا جائزہ آئندہ کالموں میں لیا جائے گا۔ فی الحال سبق یہ ہے کہ کوئی نظام حتمی نہیں ہوتا۔ پاکستان میں ماضی میں سرمایہ داری نظام کو ایک حتمی بلکہ مقدس نظام کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔ اس کے برعکس سوشلزم کے خلاف فتوے جاری کیے جاتے رہے‘ اور ریاستی سرپرستی میں اس نظریے کے خلاف مہم چلائی جاتی رہی۔ اب نیو لبرل ازم کو مقدس جان کر اس کو عوام کا مقدر قرار دینے کی کوشش جاری ہے‘ جبکہ دنیا میں نئے تصورات اور خیالات سامنے آ رہے ہیں‘ جو انسانیت کو درپیش سوالات کا جواب دے سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved