تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     24-07-2022

سری لنکا میں عوامی یلغار سے سبق سیکھیں

تصور کریں‘ لوگ پٹرول پمپوں پر حملے کررہے ہیں‘ ایک وزیر کو گھیرا ہوا ہے اور ''چور‘ چور‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ایسا پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے۔ بسٹیل جیل پر حملہ تاریخ کے اوراق میں ایک سبق کی طرح محفوظ ہے۔ تو کیا سری لنکا میں ایوانِ صدر پر حملے میں بھی کوئی سبق پنہا ں تو نہیں؟ کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ کیا تاریخ دوبارہ رقم ہورہی ہے؟ کیا ہم تاریخ ساز لمحات کے گواہ بننے جارہے ہیں؟ کیا پاکستان بھی سری لنکا کی راہ پر تو نہیں چل نکلا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہے ہیں۔ ہر عالمی بحران مزید تقسیم‘ انتشار اور کشمکش پیدا کرتا اور لوگوں کو کھائی کے دہانے تک لے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ غربت اور افلاس کے ہاتھوں مجبور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور وہ بعض اوقات پُرتشدد ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ انقلابِ فرانس (1789-1799ء) کے ابتدائی مہینوں کے دوران ایک قلعہ نما جیل‘ بسٹیل‘ جس میں سیاسی قیدیوں کو بند کیا جاتا تھا اور جو فرانسیسی بادشاہت کے جبر کی علامت تھی‘ پر معاشرے کے نچلے طبقات پر مشتمل انقلابیوں نے چودہ جولائی 1789ء کو یلغار کردی۔ عوام کی اکثریت کو زندگی کی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں تھیں‘ خوراک کا حصول مشکل تھا‘ آواز تک بلند نہیں کر سکتے تھے۔ تو پھر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بھوک اور جبر کے ستائے ہوئے لوگوں نے مل کر اربابِ اختیار پر چڑھائی کر دی۔ سری لنکا عوامی اشتعال کی لہروں کی زد میں ہے۔ پاکستان میں بھی حالات اس نہج تک پہنچ سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان ممالک میں دبے ہوئے عوامی جذبات کے اظہار کے درمیان کیسی کیسی لرزہ خیز مماثلت پائی جاتی ہے:
1۔ بھائیوں کے ہاتھ اقتدار: سری لنکا میں تقریباً دو عشروں سے راجا پاکسے خاندان اقتدار میں تھا‘ جس طرح پاکستان میں شریف خاندان تین عشروں سے سیاست میں ہے۔ راجا پاکسے بھائیوں میں سے ایک‘ مہندا سری لنکا کی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔ پہلے وہ ایک عشرے (2005-2015ء) تک ملک کے صدر رہے۔ پھر بعد میں جب وہ وزیراعظم بنے تو اُن کے بھائی‘ گوتا بایا صدر بن گئے۔ صرف یہی نہیں‘ اُنہوں نے اپنے بھائی لیفٹیننٹ کرنل نندا سینا گوتا بایا کو ملک کا سیکرٹری دفاع بنا دیا حالاں کہ وہ اُس وقت امریکی شہری تھے۔ بعد میں ان کے ایک اور بھائی‘ باصل کو صدر کے سینئر مشیر کا عہدہ دے دیا گیا حالاں کہ وہ بھی امریکی شہریت رکھتے تھے۔ بطور صدر مہندا کی پہلی مدت کے دوران راجا پاکسے بھائیوں نے ملک کے اقتصادی نظام کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ باصل نے مالیاتی لین دین میں سے اپنا حصہ وصول کرنا شروع کردیا اور یوں وہ سری لنکا کے مسٹر ٹین پرسنٹ کہلائے۔ شریف برادر اور زرداری خاندان چار مرتبہ اقتدار سے نکالے اور واپس لائے گئے۔ شریف اور زرداری خاندان کی طرح راجا پاکسے خاندان بھی موروثی سیاسی گھرانا کہلاتا ہے۔ اسے بھی کئی مرتبہ بدعنوانی کی پاداش میں اقتدار سے چلتا کیا گیا لیکن طاقتور حلقوں کے ساتھ ساز باز کرکے پھر واپس آگیا ۔
2۔ غریبوں پر کرپشن ٹیکس: طاقت دولت لاتی ہے اور دولت زیادہ طاقت کا باعث بنتی ہے۔ یہ فارمولہ راجا پاکسے خاندان اور شریف خاندان کے درمیان مشترک تھا۔ دوسری نسل کے سیاست میں آنے کے بعد سیاسی دنیا میں ان کا خاندانی اثر و رسوخ وسیع ہوتا گیا۔ منافع بخش وزارتی منصوبے ان کے کنٹرول میں آگئے۔ ایک اور بھائی‘ چمل راجا پاکسے پارلیمنٹ کے سپیکر منتخب ہوئے اور پھر وہ جہاز رانی اور ہوا بازی کے وزیر بن گئے۔ مہندا کے بڑے بیٹے نمل راجا پاکسے اگلے اعلیٰ عہدے کے وارث خیال کیے جاتے تھے۔ 2010ء میں پارلیمنٹ میں آنے کے بعد انہیں یوتھ اینڈ سپورٹس کا وزیر بنایا گیا۔ جس طرح شریف خاندان نے نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا۔ نواز شریف کے بھانجے عابد شیر علی وزیر مملکت برائے توانائی بن گئے۔ ان کی بیٹی مریم سیاسی وارث ہیں۔ اس وقت چھوٹے بھائی شہباز شریف وزیراعظم ہیں اور ان کا بیٹا وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ راجا پاکسے اور شریف حکومت دونوں مصنوعی معاشی نمو کی چمک دکھائیں گے جو کسی بھی معاشی بحران کا سامنا کرنے پر دھول بن کر اُڑ جائے گی۔ مہندا راجا پاکسے کی حکومت نے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برسوں کی شاندار ترقی ریکارڈ کی لیکن ترقی ایک خاص قسم کی تھی: بڑے پیمانے پر تعمیراتی منصوبے جیسا کہ سڑکیں‘ ہائی ویز‘ ہوائی اڈہ اور لوٹس ٹاور۔ یہ منصوبے بدعنوانی کے الزامات سے داغ دار تھے۔ یہ ملک کے لیے زیادہ فائدہ مند تو نہیں تھے لیکن ان کے ذریعے سیاسی وابستگی رکھنے والوں‘ حامیوں اور مفاد پرست کاروباری طبقے کی جیبیں بھری گئیں۔ اس دوران سری لنکا میں صدر کے ناقدین کو ڈرایا گیا اور صحافیوں کو ہلاک یا لاپتا کر دیا گیا‘ جس سے بڑے پیمانے پر خوف اور سنسر شپ کا ماحول پیدا ہوا۔ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہوا‘ زیادہ لاگت اور بھاری قرضوں سے بنی میٹروز اور اورنج ٹرین کے لیے حاصل کیے گئے قرض کی ادائیگی کا وقت آیا تو معیشت دیوالیہ ہوگئی۔
3۔ بغاوت: خاندانی گٹھ جوڑ سیاست‘ پالیسیوں اور منصوبوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ پاکستان میں اس سہ جہتی امتزاج کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ حکومت نے تمام سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی میں تبدیل کرنے کے لیے 50 ارب روپے کا اعلان کیا ہے جبکہ وزیراعظم کا صاحبزادہ مبینہ طور پر پاکستان میں سولر پینلز کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ چند ہاتھوں میں دولت کا اس طرح جمع ہونا آمدنی میں عدم مساوات کو بڑھاتا‘ مہنگائی کا سبب بنتا اور لوگوں کو غربت‘ بیماری اور بھوک کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔ سری لنکا میں یہ پٹرول کی قیمت اور مہنگائی تھی جس نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا۔ وہاں مہنگائی کی شرح 40فیصد تھی۔ پاکستان میں اشیائے خور و نوش کی مہنگائی 30 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ آخر کار سری لنکا میں پٹرول اور خوراک کی قلت کے باعث لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ سڑکوں پر ہونے والے ان مظاہروں کی وجہ سے کچھ دکھاوے کی خاطر استعفے اور تبدیلیاں ہوئیں لیکن معیشت گرتی رہی۔ اس کے نتیجے میں ایوانِ صدر پر باغیانہ یلغار ہوئی۔ عوام نے دھاوا بول دیا۔ صدر کے مستعفی اور ملک سے فرار ہونے کی ملی جلی خبریں ہیں۔ پاکستان میں جب دونوں حکمران جماعتوں کی بدعنوان حکومتوں کا خاتمہ ہوا‘ یہ خاندان اپنے غیر ملکی رابطوں کی وجہ سے این آر او حاصل کر کے بیرون ملک فرار ہو گئے۔ اس بار وہ غیر ملکی اور مقامی سہولت کاروں کی وجہ سے دوبارہ حکومت میں آئے ہیں۔ تاہم‘ تیسری پارٹی‘ تحریک انصا ف کے سیاسی رجحان کی دنیا ان سے بالکل الگ ہے۔ اس کا احتجاج ایک تحریک بن چکا جسے اگر حکومت اور اس کے سہولت کاروں نے طاقت سے روکا تو وہ بغاوت کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کو سری لنکا سے کیا سبق سیکھنے کی ضرورت ہے؟ عالمی سپر پاور نے مقامی سپر پاور کے گیم پلان کے ذریعے عمران خان کو قابو کرنے کا جو منصوبہ بنایا‘ وہ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ حکومت تمام معاملات میں ناکامی کا منہ دیکھ رہی ہے۔ معیشت زوال پذیر ہے۔ سندھ اور پنجاب کی گورننس ایک مذاق بن چکی ہے۔ عوامی بے چینی کا گراف خطرناک حد کو چھو رہا ہے۔ اگر سہولت کار کچھ سمجھداری سے کام لیں تو وہ سیاسی عمل پر اثر انداز ہونا بند کردیں۔ انتخابات اور انتقالِ اقتدار شفاف اور منصفانہ ہو۔ میڈیا اور اینکرز کو ہراساں کرنا بند کیا جائے۔ سب سے اہم یہ کہ عام انتخابات کے لیے کسی معقول ٹائم ٹیبل پر گفت و شنید کی راہ ہموار کی جائے۔
یہ وہ اقدامات ہیں جو پاکستان میں سری لنکا کے واقعات کا اعادہ ہونے سے روکیں گے۔ عوامی غیظ و غضب کو بے لگام ہونے سے روکنے کے لیے یہ سبق سیکھنا ضروری ہو چکا۔ یہ منطقی لگتا ہے لیکن ایسا ہونے کا امکان کم سے کم ہے۔ جیسا کہ راجا پاکسے خاندان کی طرح شریف خاندان کی بھی تاریخ ہے کہ وہ اس وقت تک اپنی راہوں پر چلتے رہتے ہیں جب تک کہ اُنہیں وہاں سے ہٹنے پر مجبور نہ کردیا جائے۔ سبھی حلقے اس تباہی میں واضح طور پر شریک ہیں۔ اس وقت اس کی صورت حال: نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن جیسی ہے۔
اگر انتخابات میں ہیرا پھیری سے من پسند نتائج لیے جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں عوامی ہنگامہ برپا ہوگا جس کے غیر ارادی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ عوام کا غصہ صرف وزیراعظم ہاؤس تک محدود نہیں رہے گا بلکہ بسٹیل جیل پر حملے کی طرح کچھ اور مقامات بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے۔ اب بھی سبق سیکھنے اور تلافی کرنے کی گنجائش باقی ہے۔ اس میں واحد رکاوٹ انا‘ طاقت کی ہوس اور خوف ہے۔ درحقیقت ان سے لڑنا ہی اصل جنگ ہے جس میں فتح ملک کو سانحات سے بچا سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved