موت برحق ہے۔ ہر حال میں آئے گی‘ آکر رہے گی۔ اِس حقیقت کو مرزا غالبؔ نے بہت ہی دل نشیں اور مدلّل انداز سے بیان کیا ہے ؎
موت کی راہ نہ دیکھوں؟ کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں؟ کہ نہ آؤ تو بُلائے نہ بنے
ہر انسان کے لیے موت چونکہ ناگزیر معاملہ ہے‘ اس لیے عقلِ سلیم کا تقاضا ہے کہ اس کے لیے ہر وقت تیار رہا جائے۔ پھر بھی طبعی موت کا خیرمقدم کرنے کی تیاری زیادہ اہم ہے۔ شہری اور دیہی ثقافت میں موت کے حوالے سے الگ الگ سوچ پائی جاتی ہے۔ شہری زندگی میں لوگ موت کے بارے میں سوچنا پسند نہیں کرتے۔ وہ یہی سمجھ کر جی رہے ہوتے ہیں کہ کبھی مرنا ہی نہیں ہے۔ دیہی ثقافت میں البتہ موت کو ایک بدیہی حقیقت کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہوئے زندگی بسر کی جاتی ہے۔ جب کوئی اپنے آپ کو موت کے لیے آمادہ پاتا ہے تو اُس کی طرزِ زندگی میں غیرمعمولی اور نمایاں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ موت کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرنے کی ذہنیت ہی جوابدہی کے حوالے سے بھی حسّاس بناتی ہے۔
جَین ثقافت میں بڑھاپے کی آمد کے ساتھ ہی موت کے حوالے سے سوچنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اس حوالے سے معمولات میں بھی تبدیلی آنے لگتی ہے۔ بڑھاپے کی مناسبت سے سنجیدگی اور بُرد باری شرط سمجھی جاتی ہے اور زندگی کے آخری دور کو شایانِ شان طریقے سے گزارنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جانا چاہیے‘ وہ کیا جاتا ہے۔ ہندو اِزم بھی کہتا ہے کہ طبعی موت جیسے جیسے قریب آتی جائے‘ دنیا سے تعلق کی گِرہیں کھولی جائیں‘ مصروفیات گھٹائی جائیں‘ دل و دماغ پر غیرضروری بوجھ رہنے نہ دیا جائے۔ اسلامی تعلیمات عمر کے کسی خاص حصے کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے تمام مراحل کے لیے ہوتی ہیں۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ موت کے لیے ہر وقت تیار رہا جائے اور تیاری بھی ایسی ہونی چاہیے کہ دنیا سے رختِ سفر باندھتے وقت دل میں کسی بات کا ملال نہ ہو‘ کوئی کمی محسوس نہ ہو۔ یہ حسرت لے کر دنیا سے نہیں جانا چاہیے کہ فلاں کام کر لیتے تو اچھا ہوتا۔ یا فلاں سے تعلقات بہتر بنا لیتے تو بہت اچھا ہوتا۔عقلِ سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اِس دنیا میں اپنے قیام کو اللہ کی طرف سے دی جانے والی انتہائی پُرکشش مہلت تصور کرتے ہوئے ایک ایک لمحے کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی کوشش کرے۔ اِس کے لیے سوچ کا مثبت ہونا لازم ہے۔ یہ سب کچھ‘ ظاہر ہے‘ خود بہ خود نہیں ہوتا۔ شعوری کوشش کے بغیر کوئی بھی مثبت نتیجہ ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ پوری کائنات شعور کا مظہر ہے۔ ہم واحد جاندار ہیں جنہیں شعور کی دولت عطا کی گئی ہے۔ اس دولت کو بروئے لاکر زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامقصد بنانا ہمارا کام ہے۔
عظیم برطانوی ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شا نے کہا تھا ''اِس سے پہلے کہ مجھے موت آئے‘ مجھے اپنے وجود کو مکمل طور پر بروئے کار لانا ہے۔ میں جتنا زیادہ کام کروں گا اُتنا ہی زیادہ جیوں گا۔ میرے لیے زندگی کوئی چھوٹی سی شمع نہیں بلکہ ایک بڑی مشعل ہے جو پل بھر کے لیے میرے ہاتھ آئی ہے۔ یہ مشعل آنے والوں کو سونپنے سے قبل میں بھرپور طور پر روشن رکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ ایسی ہی سوچ انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بناتی ہے۔ ہمیں زندگی کے نام پر جو عظیم نعمت عطا کی گئی ہے وہ اس لیے ہرگز نہیں کہ کھیل تماشوں میں ضائع کردی جائے۔ یہ نعمت ہمارے لیے ذمہ داری کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کا حساب دینا ہے۔ زندگی ایسی نعمت کو اِس طور بروئے کار لانا ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے اور وہ بھی اپنی زندگی میں زیادہ معنویت پنپتی ہوئی محسوس کریں۔
جارج برنارڈ شا نے جو بات کہی وہ ہر اُس انسان کا خواب ہوا کرتی ہے جو زندگی کو زیادہ بامعنی اور بامقصد بناتے ہوئے جینے پر یقین رکھتا ہے۔ دنیا میں ایک طرف وہ ہیں جو زندگی کے نام پر عطا کی جانے والی سانسوں کو محض گنتی کا معاملہ سمجھتے ہیں اور یوں زندگی بھر ڈھنگ سے کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے۔ ہر معاشرے میں وہی لوگ واضح اکثریت میں ہیں جو زندگی کے بارے میں زیادہ سنجیدہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ کسی اعلٰی مقصد یا مقاصد کا حصول یقینی بنانے کی سوچ کے ساتھ جئیں۔ ایسے لوگ خاصے کم ہوتے ہیں تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس دنیا اور یہاں گزاری جانے والی زندگیوں کا حُسن ایسے ہی لوگوں کے دم سے ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے ہی لوگوں کو یاد بھی رکھا گیا ہے۔ ارسطو‘ سقراط‘ افلاطون اور اُن کے بعد آنے والے اہلِ علم و فن کو لوگ نہیں بھولے۔ اُنہیں گئے ہوئے ڈیڑھ سے ڈھائی ہزار سال تک کا وقت بیت چکا ہے مگر پھر بھی لوگ اُن کے علم و فن سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اُنہی کے ادوار میں کتنے ہی بڑے تاجر‘ زمیندار‘ کاری گر وغیرہ بھی ہوں گے مگر انہیں کوئی نہیں جانتا۔ کسی بھی انسان کو دیرپا شہرت اور مقبولیت صرف اُس وقت ملتی ہے جب وہ اپنے وجود کو ایک طرف ہٹاکر دوسروں کی زندگی میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی یقینی بنانے کے لیے کام کرتا ہے۔
زندگی کو زیادہ بامقصد بنانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ انسان کو جو کچھ بھی آتا ہے وہ پوری دل جمعی اور دلچسپی سے کرے تاکہ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچے۔ یہ بڑپّن کو دل کی گہرائیوں سے اپنانے کا معاملہ ہے۔ جو اپنی ذات کو ہر حال میں پہلے نمبر پر رکھتے ہیں وہ بھرپور کامیابی حاصل ہونے پر بھی اُس سے بھرپور حظ نہیں اٹھا سکتے۔ کوئی بھی کامیابی اُسی وقت دل کے لیے راحت و تسکین کا ذریعہ بنتی ہے جب اُس سے پہنچنے والا فائدہ صرف اپنی ذات تک محدود نہ رہے۔ عظیم انسانوں کی نمایاں ترین شناخت یہ ہے کہ وہ صرف اپنے لیے زندہ نہیں رہتے۔ اُن کی زندگی کا بنیادی مقصد اس دنیا کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ دنیا کو بہتر اسی وقت بنایا جا سکتا ہے جب اپنی صلاحیت و سکت سے دوسروں کو بھی مستفید کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔
اللہ نے جنہیں صلاحیت و سکت عطا کی ہو وہ اگر اُس کا حق ادا نہ کریں تو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ ہماری ہر صلاحیت اس دنیا کو بہتر بنانے کے حوالے سے ذمہ داری کا درجہ رکھتی ہے۔ ہمیں اپنے وجود کے ساتھ ساتھ پورے ماحول کی بہبود ذہن نشین رکھنی ہے۔ جو اپنی صلاحیت و سکت کے حوالے سے باشعور اور حسّاس ہوتے ہیں وہ مرتے دم کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے نمایاں ترین مثالیں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی مرحوم اور ڈاکٹر جمیل جالبی مرحوم کی ہیں۔ اس کے علاوہ جمیل الدین عالی‘ احمد ندیم قاسمی‘ انتظار حسین‘ مستنصر حسین تارڑ‘ ظفر اقبال‘ حمید اختر‘ عباس اطہر‘ سید ولایت علی اصلاحی اور دوسرے بہت سے سینئرز کی بھی مثال دی جا سکتی ہے جنہوں نے بھرپور بڑھاپے میں بھی کام کا شوق ماند نہیں پڑنے دیا۔
1950 میں ریلیز ہونے والی فلم ''محل‘‘ میں لتا منگیشکر کا گایا ہوا یہ گیت بھی بہت مقبول ہوا تھا ؎
مشکل ہے بہت مشکل چاہت کا بُھلادینا
آسان نہیں دل کی یہ آگ بُجھا دینا
دل والوں کی دنیا میں ہے رسم کہ جب کوئی
آئے تو قدم لینا، جائے تو دُعا دینا
موت آئے گی تو ہمیں اُس کے قدم لینے ہیں اور اُسے دُعا دینے کا تو محل ہی نہیں کہ اُسے واپس جانا ہی نہیں۔ جب تک ہم موت کے قدم لینے کے قابل نہیں ہو پاتے یعنی جب تک زندہ ہیں تب تک اپنے حصے کا کام کیے جانے ہی میں عظمت کا راز پنہاں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved