پچھلے تین دن لاہور میں گزرے۔میں نے لاہور میں کیا دیکھا؟ محلاتی سازشوں‘اقتدار کی بھول بُھلیوں میں ناچنے والی بے جان پتلیاں۔ بڑھتے ہوئے گہرے مہیب سائے ۔بدن اور اہلِ وطن کے اعتماد سمیت سب کچھ بیچ ڈالنے کے لیے تیار اور اُن کے خریدار ۔اسی دوران نہ جانے کب اور کیسے میرا دھیان ساحر لدھیانوی کے خونِ جگر سے کشید ہونے والے سماج کے اس نوحے کی طرف چلا گیا۔
یہ کوچے یہ نیلام گھر دل کشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
یہ پُر پیچ گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
یہ بے باک نظریں یہ گستاخ فقرے
یہ ڈھلکے بدن اور یہ مدقوق چہرے
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پائوں زینوں کی جانب
بلائو خدایانِ دیں کو بلائو
یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دکھائو
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کو لائو
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟؟
آتش بجاں ساحر لدھیانوی نے یہ نظم اُسی موضوع پر لکھی تھی ‘جس پر مردِ آزاد شورش کاشمیری نے پوری کتاب باندھی۔جس کا عنوان ہے''اُس بازار میں‘‘۔1930ء 40ء اور 50ء کی دہائیوں میں اُس بازار کو چکلے کے نام سے پہچانا جاتا تھالہٰذا ساحر ہوں یا شورش ‘نظم ہو یا نثر‘ دونوں کا مخاطب جسم و جاں بیچنے کے لیے چکلے تک پہنچنے والے‘جسم و جاں کے خریدار‘ پُر پیچ گلیوں سے انسانوں کی خریداری کے لیے اندر آنے والے بیوپاری ‘دونوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ دونوں تخلیقات ہمارے ادبِ لطیف کا لافانی حصہ ہیں۔
جاری ماہ جولائی کی پہلی تاریخ کو میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے کھڑا تھا۔دن ڈھل گیا‘ شام آئی بھی ‘کھڑے کھڑے گزر گئی۔بحث ‘گزارشات سے تکرار تک بھی پہنچی ۔آخر کار چودھری پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز دونوں کو سپریم کورٹ نے لاہور رجسٹری میں طلب کرکے عدالتی کیمروں کے سامنے لا کھڑا کیا ۔ عدالت نے ریمارکس دیے ‘ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو Constitutional Impasseسے باہر نکالنا ہے۔آئینی بحران سے آگے بڑھنے کا فارمولا ڈسکس ہونا شروع ہوا ۔میں ایک ہی بات پر اڑا رہا ‘یا کھڑا رہا کہ ہم سائیفر زدہ رجیم چینج سے اقتدار میں لائے جانے والوں کو کسی صورتlegitimacyنہیں دیں گے۔اسی دوران پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز نے عدالت کے سامنے تین باتوں پر اتفاق کرلیا۔
اتفاقِ رائے کا پہلا نکتہ: آئین کے آرٹیکل 130ذیلی آرٹیکل (4)کی روشنی میں طے ہوگیا کہ یکم جولائی کوپنجاب کے چیف منسٹر کا الیکشن نہیں ہوگا۔جس کی وجہ یہ تھی کہFirst-poll والے دن حمزہ شہباز کو پنجاب اسمبلی سے اکثریت کا ووٹ نہیں ملا۔اس لیے اُس الیکشن کے دو امیدواروں کے مابین آرٹیکل 4کی provisoنمبر1کی رُو سے الیکشن کا second-poll ہوگا۔ دن 22 جولائی طے ہوا‘وقت شام 4 بجے کا اور امیدوار تھے پرویز الٰہی بمقابلہ حمزہ شہباز۔
اتفاقِ رائے کا دوسرا نکتہ: پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز نے سپریم کورٹ میں وعدہ کیاکہ الیکشن تک کے لیے دونوں سائیڈ کسی ووٹ کو نہ متاثر کریں گی ۔نہ کسی کو لالچ دیا جائے گا ۔نہ ہی آئین اور عدالتی حکم سے ماورا کوئی حرکت ہوگی۔
اتفاقِ رائے کا تیسرا نکتہ:پری پول اور پولنگ کے مرحلوں میں نہ تو ریاستی طاقت استعمال ہوگی نہ ہی نون لیگی کابینہ کے وزیر انتخابی عمل میں کوئی مداخلت کریں گے۔
میں نے فاضل بینچ سے عدالت میں ہونے والی اس ڈویلپمنٹ پر پارٹی لیڈر عمران خان سے fresh instructionsلینے کا وقت مانگا۔عدالتی اجازت ملنے پر اسد عمر اورفواد چودھری سمیت گاڑی میں جا بیٹھا۔ 15‘20منٹ کی کال کے دوران الیکشن پراسیس پر پی ٹی آئی کے خدشات پرnotes بنائے۔یہnotesعدالتی بینچ میں واپس جا کر پیش کردیے ۔ ہمارا مرکزی نکتہ ووٹ فروشی کا مکروہ دھندہ روکنا اوردھاندلی نہ دہرانے کے عدالتی احکامات لینا تھا۔جن کی بنیاد آئین کے آرٹیکل130کا یہ حصہ ہے:
"(4) The Chief Minister shall be elected by the votes of the majority of the total membership of the Provincial Assembly: Provided that, if no member secures such majority in the first poll, a second poll shall be held between the members who secure the two highest numbers of votes in the first poll and the member who secures a majority of votes of the MEMBERS PRESENT and voting shall be declared to have been elected as Chief Minister ".
الیکشن ڈے سے تین دن پہلے عمران خان لاہور میں تھے ‘جنہوں نے مجھے فوراً لاہور پہنچنے کا کہا۔میں جس ہوٹل میں ٹھہرنے پہنچا‘ ہماری سائیڈ کے ممبرز اُسی میں مقیم تھے۔تب لاہور میں ووٹ کی عصمت کے سودوں پہ تکرار کا ریٹ 40کروڑ سے شروع ہوکر50تک پہنچ چکا تھا۔جسم و جاں برائے فروخت رکھنے کی آخری حد پہ1ارب روپے سکہ رائج الوقت بھی آفر ہوا۔ سیاسی bookieمیچ فکس کرنے کے لیے غیر ملکی کرنسی کی بوریاں بھر کر لاہور لائے ۔
ایسا نہیں کہ یہ کرنسی Transportationچھپ چھپا کر خفیہ ہوئی۔اس کا اعلان تو کئی دن سے ٹی وی مسلسل کرتے رہے۔ شکر ہے کرنسی کے غیر ملکی ‘غیر قانونی ‘غیر چارٹر شدہ اس کاروبار کی خبر متعلقہ اداروں نے ٹی وی پر نہیں سنی نہ سوشل میڈیا پہ دیکھی ورنہ وہ فوراً بیان دیتے ‘کسی نے پاکستانی کرنسی کی قدر و قیمت کو میلی آنکھ سے دیکھاتوہم اُسے کانا کردیں گے‘یا کم از کم بھینگا ضرور بنائیں گے۔
ضمیر فروشی کے اس بارٹر ٹریڈ کے کئی پہلو ادبِ لطیف کی خدمت کرتے رہے۔کئی اتالیق پرانے ٹرک کی نئی لال بتی کے برانڈ ایمبیسڈر بنے اور عمران خان کے پاس زمان پارک جا پہنچے۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ ادیب پاکستانی ہو اور ایمبیسڈر کی اسامی ہو ۔تو ادبِ لطیف ایمبیسڈر شپ کے لیے کیسے مچلتا ہے۔ خالی اسامی کے مستقل برانڈ ایمبیسڈر نے عمران خان کو کمال کے دو مشورے دیے۔پہلا ‘ آپ سڑکوں سے گفتگو کی میز پر آجائیں۔بیچارے یہ نہ بتا سکے میز ہے کس کی۔اشاراتی گفتگو میں مُنے کے ابا کہنے کی بھی ہمت نہ ہوئی ۔دوسری سانس میں مشورہ دیا کہ اقتدار میں آکر ''اُن ‘‘کو نہیں چھوڑنا۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved