کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام کے لیے اُس کی معیشت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ جو معاشرے معاشی اعتبار سے مستحکم ہوتے ہیں اُن میں لوگوں کی ضروریاتِ زندگی کے پورے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ امن کے بعد رزق کی نعمت یقینا بہت بڑی نعمت ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرزمینِ مکہ کے لیے جہاں پر امن کی دعا مانگی وہیں پر اس کے لیے رزق کو بھی طلب کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دُعا کو سورہ بقرہ کی آیت نمبر 126میں کچھ یوں نقل فرماتے ہیں: ''اور جب کہا ابراہیم نے اے میرے رب! بنادے اسے اَمن والا شہر اور رزق دے اس کے رہنے والوں کو پھلوں سے جو ایمان لائے اُن میں سے اللہ اور آخرت کے دن پر‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دُعا سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رزق قوموں کی زندگی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ رزق اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمت ہے اور جہاں اِس کے حصول کے لیے دُعا مانگتے رہنا چاہیے وہیں پر اس کے لیے تگ ودو بھی کرنی چاہیے۔ ہمارا ملک پاکستان ایک عرصے سے معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ پاکستان کے معاشی زوال اور انحطاط کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ جن میں درآمدات کا برآمدات کے مقابلے میں زیادہ ہونا‘ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مسلسل قرضوں کا وصول کرنا‘ ملک میں صنعت کاری کو فروغ حاصل نہ ہونا اور اِن تمام باتوں سے بڑھ کر سودی بینکاری کے نظام کا ملک کے طول و عرض میں جاری رہنا ہے۔
بحیثیت مجموعی ہمارے حکمرانوں نے کبھی بھی اس بات پر زیادہ غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ سودی لین دین کے نتیجے میں ملک کی معیشت پر ناقابلِ برداشت بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ جس سے نجات حاصل کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے حکمران اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے سے قاصر رہتے ہیں اور جب بھی کبھی سودی لین دین کے خاتمے کی بات ہوتی ہے تو کمرشل بینکوں کے ساتھ ساتھ حکومت خود بھی سودی لین دین کی حامی بن جاتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی انحطاط پر ہر محب وطن شہری اور جماعت دل گرفتہ ہوتی ہے اور اس بحران سے نکلنے کے لیے اپنی حیثیت میں مثبت تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔ 19جولائی کو جماعت اسلامی کے سربراہ جناب سراج الحق نے اسی حوالے سے ایک قومی مشاورت کو لاہور کے مقامی ہوٹل میں منعقد کیا۔ جس میں ماہرین اقتصادیات‘ علماء‘ صحافی اور دانشوروں کی ایک کثیر تعداد شریک ہوئی۔ اس موقع پر معیشت کی بحالی کے حوالے سے مختلف طرح کی تجاویز دی گئیں۔ جہاں پر دیگر ماہرین نے اس حوالے سے اظہارِ خیال کیا ۔ میں نے بھی اپنی تجاویز کو شرکائے مجلس کے سامنے رکھا۔ میری گفتگو کا خلاصہ کچھ کمی بیشی کے ساتھ درج ذیل ہے:
کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا جائے تو معیشت اور اقتصادیات کے بہتر ہونے کے امکانات معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سودی لین دین کا نتیجہ صنعت کاری کے انجماد کی شکل میں نکلتا اور غیر پیداواری معاملات کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ سود کا لین دین کرنے والوں کو صنعتوں اور تجارت کے فروغ سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔ وہ اپنی رقم پر ایک خاص شرح منافع کو مسلسل وصول کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے میں نہ تو صنعت کاری کو فروغ حاصل ہوتا ہے‘ نہ تجارتی مواقع بڑھتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ ان تمام معاملات سے نجات حاصل کرنے کے لیے سودی لین دین کا خاتمہ ازحد ضروری ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ سودی بینکاری نظام کے مقابلے پر ایک انویسٹ منٹ کارپوریشن کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس انویسٹ منٹ کارپوریشن میں وہ لوگ جو کاروبار کی صلاحیت نہیں رکھتے اپنی رقم کو جمع کرکے منافع حاصل کر سکتے ہیں۔ دینی جماعتیں اور اداروں کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے اور انویسٹ منٹ کی بنیاد پر تجارتی ادارے قائم کرکے بینکوں کے متبادل نظام کو معاشرے میں متعارف کروانے کی بھرپور انداز میں سعی اور تگ ودو کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ مرکزی اور قومی سطح پر قومی بیت المال کا قیام بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس مرکزی بیت الما ل میں لوگ اپنی زکوٰۃ‘ صدقات اور خیرات کو اگر جمع کروائیں تو اس کے نتیجے میں ایک بڑی رقم بیت المال میں جمع ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں غرباء‘ مساکین اور یتامیٰ کی بحالی کے لیے بھرپور کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق صاحب نے بھی خطاب کیا۔ سراج الحق صاحب ایک عرصے سے سودی لین دین کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے مؤثر تحریک چلا رہے ہیں اور جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے بھی قومی اسمبلی میں اس حوالے سے بھرپور آواز اُٹھائی ہے۔ سراج الحق صاحب نے بھی سودی لین دین کی قباحت سے شرکائے مجلس کو آگاہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی معاشرہ سودی لین دین کی موجودگی میں معاشی ترقی کی شاہراہ پر نہیں چل سکتا۔ معاشی استحکام کے لیے سودی لین دین سے نجات حاصل کرنا ازحد ضروری ہے۔ اسلام نے سود کی حوصلہ شکنی کی اور صدقات و خیرات کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ چنانچہ ہمیں معاشرے میں سود کے خاتمے اور صدقات و خیرات کے فروغ کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ اس موقع پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی پیش کیا گیا جس میں معاشرے‘ علماء اور حکومت کی ذمہ داریوں سے قوم کو باخبر کیا گیا۔ یہ تقریب غیرمعمولی اہمیت کی حامل تھی اور اس تقریب سے یہ بیانیہ سامنے آیا کہ دینی جماعتیں ملک کو معاشی استحکام کے راستے پر چلانے لیے تیار ہیں۔
دوسری اہم تقریب کا انعقاد مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ پر 20 جولائی کو ہوا۔ اس تقریب میں مولانا عبدالغفار روپڑی‘ مولانا عبد الرؤف فاروقی‘ نعیم بادشاہ‘ حافظ عبدالوحید شاہد روپڑی‘ مولانا شکیل الرحمٰن‘ ناصر سید محمود غزنوی‘ رانا نصراللہ خان‘ مولانا حفیظ اللہ بلوچ‘ پروفیسر عدنان ستی‘ حافظ محمد زبیر ورک‘ مولانا زاہد محمود ہاشمی‘ سید عبد الوحید شاہ‘ غضنفر عزیز‘ مولانا لطیف الرحمن‘ حافظ سعید عمران‘ انجینئر محمد عمران اور راقم الحروف سمیت دیگر نے خطاب اور شرکت کی۔ اس اجلاس کا مقصد بنیادی طور پر سانحۂ جڑانوالہ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا تھا۔ عید کے روز جڑانوالہ کے قریب ایک قصبے میں دو قریبی ساتھیوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ اس قتل پر پورے علاقے میں غم وغصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔ میرے دوستوں اور ساتھیوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور میں مقررہ مقام پر پہنچا اور میں نے بھی ان دوستوں کے قاتلوں کی گرفتاری کا بھرپور انداز میں مطالبہ کیا۔ اور اس بات کو انتظامیہ کے سامنے رکھا کہ پاکستان میں ایک عرصے سے قتل وغارت گری کا سلسلہ جاری ہے اور چھوٹی چھوٹی بات اور معمولی تنازعات پر لوگ ایک دوسرے کا قتل کرنے پر آمادہ و تیار ہو جاتے ہیں ۔ ملک میں جاری اس قتل وغارت گری کے خاتمے کے لیے کسی مؤثر حکمت عملی کو نہیں اپنایا گیا۔ قتل وغارت گری کے واقعات پر حکمران دکھ اور تاسف کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن اس کے خاتمے کے لیے کوئی مضبوط لائحہ عمل نہیں اپناتے۔ جس کی وجہ سے وقفے وقفے سے اس قسم کے سانحے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ پولیس کے سنیئر افسران نے موقع پر پہنچ کر اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ مجرموں کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ پولیس اپنے دعویٰ میں سچی ثابت ہوئی اور مجرموں کو اگلے ہی روز گرفتار کر لیا گیا۔ یہ پیش قدمی ہر اعتبار سے خوش آئند تھی لیکن پاکستان میں ایک عرصے سے یہ بات دیکھنے میں آ رہی ہے کہ قتل وغارت گری کے کیسوں میں ملوث مجرموں کو اثرروسوخ کے ذریعے چھڑوا لیا جاتا ہے‘ اس امکان کے انسداد کے لیے علمائے کرام جمع ہوئے اور مشترکہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ اسلام نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ اور مشترکہ طور پر حکومت سے اس امر کا مطالبہ کیا گیا کہ سانحہ جڑانوالہ میں ملوث افراد کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر ملک میں جرائم کا ارتکاب کرنے والے عناصر کو قرار واقع سزا مل جائے تو یقینا معاشرے سے قتل وغارت گری اور ڈکیتی کی وارداتوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے کو پُرامن معاشرے میں تبدیل فرمائے اور معاشرے میں جاری قتل وغارت گری کا خاتمہ فرمائے۔ آمین
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved