تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     25-07-2022

نئے انتخابات کی چاپ

مولانا روم کا قول ہے ''ضد میں تباہی ہے اور نرمی میں خیر۔ جو ضد چھوڑ کر ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے وہ تباہی سے بچ جاتا ہے اور جو ضد کا دامن نہیں چھوڑتا وہ تباہی کو گلے لگاتا ہے‘‘۔ ہماری سیاست میں انتشار بڑھ رہا ہے‘ نفرتیں آگ اُگل رہی ہیں اور حسد سوا نیزے پر ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا حقِ حکمرانی چھیننے کے درپے ہیں۔ طاقت اور اقتدار کی خواہشیں اتنی بے لگام ہو چکی ہیں کہ کوئی ملک کا سوچ رہا ہے نہ عوا م کا۔ معیشت کا دیا منڈیر پڑا آخری سانسیں لے رہا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری اشرافیہ اپنی ہی دھن میں مگن ہے۔ ہمہ وقت ایک دوسرے کا راستہ کاٹنے کو تیار اور اپنے ہی قبیلے کی ٹانگیں کھینچنے کے لیے بے تاب۔
سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی
کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا
سیاستدان آمروں اور اُن کے ہم نواؤں کو تو آئین شکن کہہ کر مخاطب کرتے ہیں مگر انہوں نے اپنے لیے آج تک کوئی لقب دریافت ہی نہیں کیا۔ آمروں کا رویہ سمجھ میں آتا ہے‘ وہ تو آئین کو نظر انداز کرکے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں مگر ہمارے سیاستدانوں کو کیا ہو گیا ہے‘ وہ تو آئین کو سپریم مانتے ہیں۔ زبانی کلامی آئین کا احترام بھی کرتے ہیں اور جی بھر کر چرچا بھی مگر یوں گمان ہوتا ہے جیسے اس طبقے کا بھی من پسند مشغلہ آئینی شکنی ہے۔ میاں نواز شریف ہوں یا عمران خان‘ آصف زرداری ہوں یا کوئی اور۔ سب آئین کو اپنے سیاسی مفاد کی عینک سے دیکھتے ہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق تشریح کرتے ہیں۔ تین روز قبل وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے موقع پر ڈپٹی سپیکر نے مسلم لیگ (ق) کے دس ووٹ مسترد کرتے ہوئے جو رولنگ دی وہ میرے نزدیک صریحاً آئین کی خلاف ورزی تھی۔ آئین کی شق 63اے دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ پارلیمانی پارٹی اور دوسراحصہ پارٹی سربراہ کے اختیارات پر ہے۔ پہلے حصے میں واشگاف الفاظ میں لکھا ہے کہ پارلیمانی پارٹی فیصلے کرے گی کہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے انتخاب کے وقت کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔ دوسرے حصے میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی رکنِ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو نظرانداز کرے گا تو پارٹی ہیڈ مذکورہ ممبر کا موقف سنے گا اور اگروہ مطمئن نہ کر سکے تو پارٹی سربراہ نااہلی کے لیے سپیکر کو ریفرنس بھیجے گا۔ اتنی سادہ سی بات مسلم لیگ (ن) کے اکابرین کو سمجھ آرہی ہے نہ پیپلزپارٹی کی قیادت کو۔ پارٹی کا سربراہ کسی صورت بھی پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کی نفی نہیں کر سکتا۔ آئین نے اسے یہ اختیار دیا ہی نہیں ہے۔ کچھ قانونی اور سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ پارٹی سربراہ کی اجازت کے بغیر پارلیمانی پارٹی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ ہو سکتا ہے یہ منطق اخلاقیات کے زمرے میں آتی ہو مگر قانون اس دلیل کو نہیں مانتا۔ میرے فہم کے مطابق اس نقطے کو لے کر آرٹیکل 63اے کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عدالتیں اُس آرٹیکل کی تشریح کرتی ہیں جو مبہم ہوں مگر یہاں ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔ نجانے کیوں تمام فریقین آئینی عمل کو اپنے مفاد اور منشا کے مطابق توڑنا مروڑنا چاہتے ہیں۔ آئین صرف اس وقت معنی خیز ہوتا ہے جب سیاست سے بالاتر ہو کر الفاظ اور روح پر عمل یقینی بنایا جائے۔
پی ٹی آئی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی ہے جہاں ماضی کے عدالتی فیصلوں اور آرٹیکل 63 اے کی مزید پرتیں کھلنے کا امکان ہے۔ ابتدائی سماعت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حمزہ شہباز کے ستارے گردش میں ہیں کیونکہ ایک دن کی سماعت کی بعد جو مختصر عدالتی فیصلہ آیا اس میں حمزہ شہباز کو ایک بار پھرعبوری وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ فیصلے میں لکھا ہے کہ '' بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غلط ہے اور اگر پارٹی سربراہ کی ہی بات ماننی ہے تو اس کا مطلب ہے پارٹی میں آمریت قائم کردی جائے‘‘۔ ان عدالتی ریمارکس کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمران اتحاد نے سپریم کورٹ کے جس فیصلے کی وجہ سے چودھری شجاعت حسین سے لیٹر لکھوایا تھا‘ عدالت اس نقطے کی مزید تشریح ہی کرے گی۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے لکھا تھا: اگر پارٹی ہیڈ کی ہدایت کے برعکس کوئی ووٹ دے گا تو وہ ممبر نہ صرف ڈی سیٹ ہوگا بلکہ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں کیا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے نہ آئین کی درست تشریح پر مبنی ہے۔ آپ کسی شخص کا جرم مانے بغیر اسے سزا کیسے دے سکتے ہیں؟ اگر سزا دینی ہے تو اس کے جرم کو بھی ماننا پڑے گا۔ دوسرا‘ اگر تحریک ِعدم اعتماد کے وقت ووٹ ہی شمار نہیں ہوگا تو وزیراعظم کا احتساب کیسے ممکن ہو سکے گا؟ ووٹ شمار ہونا چاہیے تھا پھر بھلے جو مرضی سزا منتخب کر لی جاتی۔ تمام قانونی ماہرین متفق ہیں کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد آئین کا ایک آرٹیکل معطل ہوکر رہ گیا ہے جسے کبھی دوبارہ استعمال میں نہیں لایا جا سکے گا۔ یہی نہیں‘ اگر مسلم لیگ (ن) نے سارا کھیل سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر کھیلا ہے تو غلطی کی ہے کیونکہ جو بات آئین میں وضاحت کے ساتھ لکھی ہو اسے کوئی بھی عدالتی فیصلہ ختم یا کمزور نہیں کر سکتا۔ جب بھی آئین اور سپریم کورٹ کا فیصلہ متصادم ہوگا تو ترجیح ہمیشہ آئین کو دی جائے گی۔ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے میں پارٹی سربراہ کی ہدایات کومدِ نظر رکھنے کا لکھا گیا ہے تو عین ممکن ہے سپریم کورٹ اپنی غلطی کی خود ہی تصیح کردے کیونکہ اس معاملے میں آئین مکمل طور پر واضح ہے‘ کوئی ابہام ہے ہی نہیں۔
پنجاب اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف کھائی ہے اور دوسری طرف کنواں۔ ایک جانب انتشار ہے تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام۔ تین ماہ سے زائد ہو چکے ہیں کہ پنجاب میں آئینی اور سیاسی بحران ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پہلے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ کا الیکشن ہونے نہیں دے رہے تھے‘ پھرگورنر نے حمزہ شہباز سے حلف لینے سے انکار کردیا‘ اس کے بعد کئی ہفتوں تک پنجاب کی کابینہ حلف کے لیے ماری ماری پھرتی رہی۔ آخرگورنر کو تبدیل کیا گیا تو صدرِ پاکستان نے وزیراعظم کی سمری مسترد کردی۔ غرض ایک کے بعد ایک آئینی اور سیاسی بحران جنم لیتا رہا۔ اب وزیراعلیٰ کے انتخاب کے بعد ایک اور بحران پیدا ہوگیا ہے۔ کون جانے یہ بحران آخری ہوگا یا پھر اس کی کوکھ سے مزید تلخیاں جنم لیں گے۔ میرے خیال میں یہ کیس ہم سب کے لیے امتحان ہے اور اس کا فیصلہ مستقبل کی سیاست کا آئینہ بنے گا کیونکہ جب سے عدالت میں اس کیس کی سنوائی ہوئی ہے حکمران اتحاد کا لب ولہجہ بدل گیا ہے۔ میاں نواز شریف سے لے کر مریم نواز تک اور وزیراعظم سے لے کر وزیر داخلہ تک سب نے گلے شکوے اور تلخ بیانات دینا شروع کردیے ہیں۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمن اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لیے پَر طول رہے ہیں۔ ان کے لہجوں کی تلخی بتا رہی ہے کہ وہ لڑائی کے موڈ میں ہیں اور ان کا ہدف بھی وہی ہوں گے جو عمران خان کے نشانے پر ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر الیکشن کا نقارہ بجے گا اور یہ الیکشن تاریخ کے مشکل ترین الیکشن ہوں گے۔ ملک زیادہ دیر انتشار اور سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر ہماری اشرافیہ اور مقتدر حلقوں کو پاکستان کا مفاد عزیز ہے تو پھر ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔ اس سیاسی بحران کا واحد حل ڈائیلاگ میں پنہاں ہے جب تک ساری جماعتیں ڈائیلاگ کا راستہ نہیں اپناتیں نئے الیکشن کی راہ ہموار ہوگی نہ سیاسی استحکام کا دروازہ کھلے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved