ہم سب انسان ہیں اور خطا کے پتلے۔ ایک حجاب ہے جو انسانیت کے بھرم کو قائم رکھتا ہے۔ یہ حجاب باقی نہ رہے تو گھر سلامت رہتا ہے نہ ریاست۔ جسے گھر اور ریاست سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے‘ وہ اپنی کمزوریوں کے باجود آخری درجے میں یہ کوشش کرتا ہے کہ یہ حجاب دھجیوں میں نہ بدلے جو گلیوں میں رلتیں اور پھر پاؤں میں روندی جاتی ہیں۔
یہ باپ کا حجاب ہے جو گھر کے نظم کو باقی رکھتا ہے اور بھرم کو بھی۔ باپ بھی ایک عام انسان ہوتا ہے جو خواہشیں پالتا ہے اور مجبوریوں کا اسیر ہوتا ہے۔ خاندان کے مفاد میں مگر اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اُن پر پردہ پڑا رہے۔ کبھی کبھی وہ بیوی کو شریکِ راز کر لیتا ہے مگر چاہتا ہے کہ بچوں کو اس کی بھنک نہ پڑے۔ خالی جیب کے ساتھ وہ جوان بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھتا اور اس سے کہتا ہے: ''میں اس دھوم دھام سے اپنی بیٹی کو رخصت کروں گا کہ دنیا دیکھے گی‘‘۔ وہ اپنے آنسوؤں کو پلکوں میں تھام لیتا ہے کہ کہیں بیٹی باپ کو پگھلتا ہوا نہ دیکھ لے۔ اسے بہرصورت باپ کا بھرم قائم رکھنا ہے۔
باپ کبھی نہیں چاہتا کہ اس کی کمزوریوں پر پڑا حجاب اٹھ جائے۔ وہ بساط سے بڑھ کر محنت کرتا ہے۔ قرض بھی لیتا ہے مگر اس طرح کہ گھر والوں کو معلوم نہ ہو۔ ہر روز اپنی شخصی خواہشوں کو کچلتا ہے۔ اس کی قمیص کا پیوند اسے نئے لباس کی ضرورت کی طرف متوجہ کرتا ہے مگراس کا خیال بیٹی کے جہیز کی طرف ہوتا ہے۔ وہ پیوند پر ایک دوسرا پیوند لگا لیتا ہے مگر اپنی ذات پر اپنے سماجی کردارکو ترجیح دیتا ہے جو ایک باپ کا کردار ہے۔ وہ اس حجاب کو باقی رکھتا ہے جو ایک باپ کا حصار کیے رکھتا اور اس کے بھرم کا پہرا دیتا ہے۔
ریاست بھی یہی کرتی ہے۔ لوگ معترض ہوتے ہیں کہ صدر اور وزیراعظم کا اتنا پروٹوکول کیوں ہوتا ہے؟ وہ ایسی عالی شان قیام گاہوں میں کیوں رہتے ہیں؟ اس میں شبہ نہیں کہ ہٹو بچو کی صداؤں میں مبالغہ ہوتا ہے اور اس سے گریز کرنا چاہیے۔ بایں ہمہ‘ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اس کے پس منظر میں وہی بھرم ہے جو ریاست کو بہر صورت قائم رکھنا ہے۔ رعایا کی نفسیات پر‘ تاکہ اس کا اثر رہے اور دنیا پر بھی کہ یہاں ایک نظام ہے اور ریاست ایک قوت کا نام ہے۔ اس قوت کا حجاب کبھی نہیں اٹھنا چاہیے کہ اس کی کمزوریاں اشتہار بن جائیں۔
تاہم‘ ظاہری بھرم کافی نہیں ہوتا۔ ریاست کو بھی باپ کی طرح کچھ نہ کچھ مشقت اٹھانا ہوتی ہے۔ ریاست اگر دفاع کی صلاحیت اور قوتِ نافذہ سے محروم ہو جا ئے تو اہلِ منصب کا رکھ رکھاؤ اور پروٹوکول‘ تنہا اس بھرم کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ عوام کے جان و مال کی حفاظت‘ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس معاملے میں اس کا کردار مثالی نہ سہی‘ اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ عوام مایوس ہوکر ملک چھوڑ نے یا اپنی حفاظت اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور نہ ہوں۔ حجاب کو بہرصورت باقی رہنا چاہیے کہ ریاست کا وجود باقی رہے۔
اسی کا اطلاق عوام کے منتخب نمائندوں پر ہوتا ہے۔ ان کو بھی اپنا بھرم قائم رکھنا ہوتا ہے۔ ان کے بچے ہوتے ہیں اور انہیں اپنے بچوں کا مستقبل عزیز ہوتا ہے۔ وہ بھی آرزوئیں پالتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتاکہ اراکینِ اسمبلی اپنی خواہشوں کے ایسے اسیر نہ ہو جائیں کہ عوام ان سے دور ہوکر جمہوریت سے بھی اُکتا جائیں۔ لوگ یہ محسوس کریں کہ ان کا منصب عوام کے لیے بے معنی ہے۔ ان کا فیض تو ان کی ذات ہی کے لیے ہے۔ عوام تو محض سیڑھی ہیں جن کا ووٹ انہیں اس منصب تک پہنچاتا ہے۔ عوامی نمائندے‘ عام آدمی کے مفاد اور اس کی ضروریات سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ اسی حجاب سے جمہوریت کا بھرم قائم رہتا ہے۔
عدلیہ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ عدالت سے لوگوں کو انصاف کی توقع ہوتی ہے۔ معاشرے عدل سے قائم رہتے ہیں اور عدالتیں اس کی علامت ہوتی ہیں۔ جج بھی انسان ہوتے ہیں۔ ان کی رائے ہو تی ہے‘ جذبات ہوتے ہیں اور مفادات بھی۔ انہیں لیکن‘ کم ازکم ایک سطح تک‘ ان سب سے بلند ہونا پڑتا ہے۔ اگر منصف کے بارے میں جانب داری کا تاثر پھیل جائے تو لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد باقی نہیں رہتا۔ پھر عوام خیال کرتے ہیں کہ عدالتوں میں صرف فیصلے ہوتے ہیں‘ انصاف نہیں۔ جج اسی لیے‘ جب اس منصب پر فائز ہوتے ہیں تو سماج سے کٹ جاتے ہیں۔ انہیں ہر دم احساس رہتا ہے کہ کہیں ان پر کسی فریق کی طرف داری کا الزام نہ لگے۔
سیاسی و آئینی معاملات میں صورتِ حال مزید نازک ہوتی ہے۔ ایک ایک فیصلے سے ملک اور قوم کا مقدر وابستہ ہوتا ہے۔ عدالت کا ایک فیصلہ تاریخ کا رخ موڑ سکتا ہے۔ بھٹو صاحب کے بارے میں جب معزز جج حضرات فیصلہ لکھ رہے تھے تو وہ ایک فرد کا نہیں‘ دراصل ایک ملک کا مقدر لکھ رہے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ انسانی تاریخ کی سب بڑی ناانصافیاں عدالتوں میں ہوئی ہیں۔ انگریز عدالت میں ان کا یہ بیان پڑھنے کے لائق ہے۔ وہ ایک غاصب قوت کی عدالت تھی اور اس میں پیش ہونے والا ایک محکوم قوم کا فرد تھا۔ آج مگر منصف اور مدعی سب ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا نفع ایک ہے اور نقصان بھی۔
یہ تاریخ کا جبر ہے یا اہلِ سیاست کی نااہلی‘ اس سے قطع نظر‘ امرِ واقعہ یہ ہے کہ آج اہم سیاسی فیصلے عدالتوں میں ہونے لگے ہیں۔ کل یہ فیصلہ اسمبلی کرتی تھی کہ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ کون ہوگا۔ آج عدالت فیصلہ کر رہی ہے۔ سیاسی جماعت کے قائد کا کیا کردار ہے‘ آج اس کا تعین بھی عدالت کر رہی ہے۔ اہلِ سیاست ایسے معاملات میں فیصلوں کے لیے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کر رہے ہیں۔ کاش ان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ سیاسی امور کو باہمی مشاورت سے طے کر سکتے۔ اس کا وقت لیکن گزر گیا۔ اب جو ہو گا عدالتوں ہی میں ہوگا۔سیاسی استحکام کا تمام تر انحصار اب عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر ہے۔ وقت نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے معزز جج صاحبان کو تاریخ کی عدالت میں لا کھڑا کیا ہے۔ ملک کے سیاسی مستقبل کے بارے میں‘ وہ جو فیصلہ دیں گے‘ تاریخ کا قاضی اس کی روشنی میں ان کے بارے میں فیصلہ دے گا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا‘ ایک دفعہ پھر ہو رہا ہے۔ عدالت کا ہر فیصلہ لازم نہیں کہ تاریخ پر اثر انداز ہو۔ یہ فیصلہ لیکن تاریخ ساز ہوگا۔
عدالت کے فیصلے سے‘ یہ ممکن نہیں کہ سب خوش ہوں۔ عدالت سے اس کی توقع بھی نہیں ہوتی۔ فیصلوں پر تنقید ہوتی ہے اور یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ فیصلہ جو بھی ہو‘ سوال یہ ہے کہ عدالت کا بھرم کیا قائم ہے؟ اس کے لیے حجاب کا باقی رہنا ضروری ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے لیکن وہ کوشش کرتا ہے کہ اس کی انسانیت کا بھرم ہر صورت میں باقی رہے۔ وہ حکمران ہے تو حکومت کا بھرم باقی رہے۔ منصف ہے تو عدالت کا بھرم باقی رہے۔ انسان قادرِ مطلق نہیں مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس کی عزت اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جو اس بارے میں حساس رہتے ہیں‘ ان کے دم سے انسانیت کا بھرم قائم رہتا ہے۔
مجھے جو آج کہنا تھا‘ میں نے کوشش کی کہ حجاب میں کہوں اور ایک لکھاری کا بھرم باقی رہے۔ اگر یہ حجاب اٹھ جاتا تو کالم ناقابلِ اشاعت ہو جاتا۔ آج مگرحجاب اٹھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سب کا بھرم خطرے میں ہے۔ دعا کرنی چاہیے کہ اداروں کا حجاب باقی رہے کہ ریاست کا وجود ان کے دم سے ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved