وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ تحریک انصاف کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ پہلی سماعت میں ہی ان کے حق میں فیصلہ سنا دے گی‘ مگر حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے مقدمے کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا۔ قانونی ماہرین کا خیال تھا کہ اگر فل کورٹ سے انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہوں تو اس مطالبے کو پورا کیا جانا چاہیے تاکہ جو بھی فیصلہ آئے اس پر کسی فریق کو اعتراض نہ ہو؛ تاہم عدالتِ عظمیٰ نے فل کورٹ کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ تین رکنی بینچ ہی کیس کی سماعت کرے گا‘ کیس کو میرٹ پر سنا جائے گا۔
حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے ''تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق تحریک انصاف کے خلاف ویسی ہی جارحانہ پالیسی اپنا لی ہے جو تحریک انصاف نے گزشتہ چار برسوں کے دوران اپنا رکھی تھی۔ یہ صورتحال خطرے کی گھنٹی ہے‘ اس کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔ اتحادی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ اداروں نے چار سال تک عمران خان کو سپورٹ کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے‘ اتحادی جماعتوں کے اس مؤقف کو درست تسلیم کیا جائے تب بھی عمران خان نے اپنی خوبیوں کے بجائے دوسروں کی خامیوں پر سیاست کی ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی اندرونی خامیوں کے نتیجے میں عمران خان کو اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ان کا بیانیہ مقبول ہو رہا ہے۔ حکمران سیاسی جماعتوں اور ان کے حمایتی حلقوں کو اس پر تعجب ہے کہ چار سالہ مایوس کن کارکردگی کے باوجود عمران خان کا بیانیہ مقبول کیوں ہو رہا ہے؟ سیاسی جماعتوں کا تعجب اس بنیاد پر ہے کہ سیاست میں جس وضعداری کی وہ بات کرتی ہیں وہ تحریک انصاف میں اس طرح نہیں پائی جاتی‘ اس وجہ سے سیاسی جماعتوں کے اکابرین اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے غبارے میں ہوا بھری جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں پہلے مقتدرہ کو ذمہ دار قرار دیتی تھیں مگر پنجاب کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف مقتدرہ کی چھتری سے محروم تھی‘ اس کے باوجود تحریک انصاف کی مقبولیت کے گراف میں اضافہ ہوا اور اس نے پندرہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ بظاہر تحریک انصاف کی اس مقبولیت کی اصل وجہ اس جماعت کا وہ نوجوان ووٹر ہے جو گزشتہ تین سال کے درمیان رجسٹر ہوا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ایک کروڑ 90 لاکھ سے زائد نوجوانوں پر مشتمل نیا ووٹر رجسٹر ہوا ہے جن میں سے اکثریت عمران خان کے حامی ہے کیونکہ وہ نوجوانوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ عمران خان کے تمام نعرے نوجوانوں کی ترجمانی کرتے ہیں‘ اس کے برعکس دیگر سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ایسی شخصیت نہیں جو نوجوانوں کو راغب کر سکے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی ایک مخصوص حلقے میں پسند کیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ بلاول صاحب کو اپنے انداز سے کام کرنے دیتی۔ انہوں نے لندن میں قیام کے دوران اپنے آس پاس جو ماحول دیکھا اس کا گہرا اثر ان کی طبیعت پر اب بھی موجود ہے؛ تاہم ان کی سیاسی تربیت قدیم خطوط پر کی گئی ہے جس کی وجہ سے بلاول نوجوان ہونے کے باوجود طبیعت کے لحاظ سے سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں جس پر پیپلز پارٹی فخر کرتی ہے۔ انہیں کرنا بھی چاہیے لیکن نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے ضروری تھا کہ وہ اپنے خیالات کو پیش کرتے یا انہوں نے جو سیاسی تربیت محترمہ بے نظیر بھٹو سے حاصل کی تھی اس سے فائدہ اٹھاتے‘ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلاول اور نوجوانوں کی سمت بالکل جدا ہے۔ اس لیے پاکستان پیپلز پارٹی نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) میں مریم نواز کو بھرپور انداز سے لانچ کیا گیا۔ جن حالات میں مریم نواز کی سیاست میں باقاعدہ انٹری ہوئی انہیں مسلم لیگ (ن) کیلئے سازگار حالات قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نواز شریف کی خواہش تھی کہ جونہی ان کا تیسرا دورِ حکمرانی ختم ہو وہ مریم نواز کو سیاست میں اِن کر دیں۔ اس کا اظہار انہوں نے ترکی کے صدر طیب اردوان سے بھی کیا تھا کہ میرے بیٹوں کی سیاست میں دلچسپی نہیں ہے؛ البتہ بیٹی مریم کو سیاسی سمجھ بوجھ ہے یہی وجہ ہے کہ نواز شریف اہم اجلاسوں اور غیرملکی دوروں میں مریم نواز کو ساتھ رکھتے تھے‘ مگر انہیں وقت سے پہلے ہی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا‘ یوں ہنگامی طور پر مریم نواز کو سیاست میں لایا گیا۔ اگرچہ شریف فیملی میں سے شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی موجود تھے؛ تاہم نواز شریف صاحب کی خواہش تھی کہ ان کے اولاد میں سے بھی کوئی سیاست میں ہو۔ مریم نواز کی جب سیاست میں انٹری ہوئی تو وہ لندن میں اپنی ماں کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر آئی تھیں اور آتے ہی نواز شریف کو اور انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ یہ مرحلہ کافی کٹھن تھا لیکن مریم نواز نے حوصلہ مندی سے حالات کا مقابلہ کیا۔ ابتدائی طور پر مریم نواز کی جرأت مندی کی بہت تعریف کی گئی مگر دھیرے دھیرے ان پر بھی مروجہ سیاست کا رنگ غالب آنے لگا اور وہ بھی نوجوانوں کی آواز نہ بن سکیں۔
یوں دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کی قیادت پر مروجہ سیاست کا رنگ غالب ہے جسے نوجوان پسند نہیں کرتے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس نوجوانوں کو انگیج کرنے کیلئے کوئی پروگرام نہیں ہے۔سابق دور حکومت میں شہباز شریف حکومت نے نوجوانوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کرکے ان کی حمایت حاصل کی تھی مگر گزشتہ پانچ برسوں سے اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں پائے جانے والے خلا کو عمران خان نے بڑی مہارت سے پُر کیا ہے۔ یوں تحریک انصاف نوجوانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اب نوجوانوں کی سوچ یہ ہے کہ عمران خان جو کہتے ہیں وہ اس پر لبیک کہتے ہیں۔ نوجوانوں کو عمران خان کی کہی ہوئی ہر بات پر یقین ہوتا ہے۔ عمران خان حکومت خاتمے میں بیرونی مداخلت والے بیانے کو سپریم کورٹ کی طرف سے مسترد کیا جا چکا ہے مگر عمران خان کے چاہنے والے اب بھی نہ صرف یہ کہ اس بیانیے کو حقیقت مانتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عمران خان جب دوبارہ اقتدار میں آئیں گے تو بیرونی مداخلت کرنے والوں کے ساتھ حساب چکتا کر دیں گے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی موروثی سیاست اور خامیوں کے ردعمل میں لوگ عمران خان کو پسند کرنے لگے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے ایک بار پھر سیاسی حالات تبدیل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اتحادی جماعتوں نے اس دوران مہارت سے ایک بیانیہ تشکیل دے دیا ہے کہ عمران خان کو ریلیف دینے کیلئے لچک کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگر سپریم کورٹ حمزہ شہبازکو عہدے سے ہٹاتی ہے تو ماضی میں کیے گئے تین فیصلوں پر نظر ثانی کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ اس سے منحرف اراکین کے ووٹ شمار کرنے کا حالیہ فیصلہ بھی نظر انداز ہو گا۔ یوں دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ فریقین کیلئے بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ بظاہر اتحادی جماعتوں کا بیانیہ مقبول ہوتا دکھائی دیتا ہے‘ اتحادی جماعتیں اگر اسی بیانیے کے ساتھ الیکشن میں اترتی ہیں تو بیانیے کی جنگ میں انہیں سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved