برخوردار ہارون ادریس مرحوم کا رمضان المبارک میں قرآن پاک سنانا مستقل معمول تھا۔ اُس سال کورونا کے باعث قرآن پاک اپنے گھر ہی پر سنایا۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تکلیف محسوس ہوئی، مگر اپنے مضبوط ارادے کی وجہ سے اس نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ میں لاہور سے فون کر کے بار بار کہتا رہا کہ بیٹا اب قرآن پاک سنانے کے بجائے ریسٹ کرو اور ڈاکٹر سے دوائی لو۔ اس کا یہی جواب ہوتا تھا: ''ابا جی! مجھے کوئی زیادہ مسئلہ نہیں۔ میں ان شاء اللہ قرآن مکمل کر لوں گا، تو پھر ریسٹ کرو ں گا۔‘‘ یقینا اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہی ہر کام وقوع پذیر ہوتا ہے۔ 29 رمضان المبارک کو قرآن پاک مکمل کیا اور اسی رات ایک پرائیویٹ ہسپتال‘ جس میں کورونا کا وارڈ تھا‘ لے جانا پڑا۔ کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا۔ علاج معالجہ شروع ہو گیا۔ ہسپتال سے دو ہفتے بعد گھر منتقل ہو گئے۔ گھر ہی میں آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ چند دنوں کے بعد دوبارہ پھیپھڑوں پرایک شدید حملہ ہوا تو فوری طور پر سرگودھا میں پاکستان ایئرفورس کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ یہ معیاری ہسپتال ہے، یہاں وینٹی لیٹر پر کم و بیش سوا مہینہ زیرِ علاج رہے۔
6 جولائی کو میں نے عصر سے مغرب کے بعد تک ڈھائی تین گھنٹے عزیزم ہارون ادریس کے ساتھ ہسپتال میں گزارے۔ گلے میں خوراک کی نالی لگی ہوئی تھی اس وجہ سے بات کرنا مشکل تھا؛ البتہ وینٹی لیٹر کے باوجود ہوش میں تھے اور ہر بات کا جواب لکھ کر دیتے تھے۔ جب میں نے اس کا ماتھا چوما اور کہا کہ آپ سے محبت کرنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو مقبولیت دی ہے وہ کم کم لوگوں کو ملتی ہے۔ یہ سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف بلند کیے، پھر اس کے لب ہلنے لگے جیسے تلاوت کر رہے ہوں یا تسبیح کر رہے ہوں۔
اگلے روز عصر کی نماز سے آدھ گھنٹہ قبل ہسپتال سے بیٹی کا ٹیلی فون آیا۔ ''دادا ابو! بابا کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے، آپ خصوصی دعائیں کریں‘‘۔ میں وضو کے لیے واش روم میں گیا تو واپسی پر اپنے ٹیلی فون پر مس کالز دیکھیں۔ جب ٹیلی فون کیا تو بیٹے ڈاکٹر عبداللہ فاروق نے بس اتنا کہا: انا للہ وانا الیہ راجعون! یوں نصف صدی سفر کرتے کرتے تھکاماندہ مسافر اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ چار بیٹیاں اور ایک بیٹا اس کے جانشین ہیں۔ دونوں بڑی بیٹیاں میڈیکل کالجوں میں زیرِ تعلیم ہیں، چھوٹی دونوں کالج اور سکول میں ہیں۔ (اب تیسری بیٹی بھی 2022ء میں اللہ کے فضل سے فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے) بیٹا عزیزم محمد عبداللہ سب سے چھوٹا ہے جس کی عمر آٹھ سال ہے‘ وہ دوسری کلاس میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس باغیچے کو اپنی رحمتوں کے سائے میں پھلنے پھولنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہارون دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن اور اس کے ماہانہ رسالہ ''ہم قدم‘‘ کا کئی سال ایڈیٹر رہا۔ وہ جہاں بھی گیا اس نے وسیع حلقۂ احباب اپنے گرد جمع کیا۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جماعت اسلامی کا رکن بن گیا۔ لاہور، اسلام آباد، سرگودھا‘ جہاں بھی رہا مقامی نظم میں بہت فعال کردار ادا کرتا رہا۔ وہ بہت اچھا مدرس اور مؤثر مربی تھا۔ میں اس کی خوبیوں کو جانتا تھا، مگر سچی بات یہ ہے کہ جتنا کچھ میرے ذہن میں اس کے بارے میں تصور تھا، اس کی بیماری کے دوران اس کے حلقۂ احباب اور خیرخواہوں بلکہ عقیدت مندوں کی تعداد دیکھ کر احساس ہوا کہ میرے تصورات سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ نے اسے مقبولیت دی ہے لیکن یہیں پر معاملہ ختم نہیں ہوا۔ اس کی وفات کے بعد اس تصور میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔
ہارون کی وفات پر سرگودھا میں گھر میںخواتین اور سرگودھا یونیورسٹی میں جنازے کے بعد وہاں مردوں نے مرحوم کی طرف سے تعلیمی اور سماجی میدان میں ان کی سرپرستی کے واقعات کا جس انداز میں روتے ہوئے تذکرہ کیا، اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ایک بچی نے تو گھر میں مجھے نڈھال کر دیا۔ میں سمجھا کہ میری اپنی پوتی رو رہی ہے۔ میں نے اسے تسلی دی، مگر دیکھا تو وہ کوئی اور لڑکی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ بابا جی! میں آج دوبارہ یتیم ہو گئی ہوں۔ سر نے مجھے پوری شفقت اور تعاون کے ساتھ فرمایا کہ محنت کرنا تمہارا کام ہے باقی معاملات اللہ تعالیٰ آسان فرما دے گا۔ انہوں نے میری تعلیم مکمل کرائی‘ میں ایم فل ہرگز نہ کر سکتی اگر ان کی سرپرستی مجھے حاصل نہ ہوتی۔ میری تعلیم میں مدد کے علاوہ مجھے اپنے شعبے میں ملازمت بھی دلوائی۔ آج میں دوبارہ یتیم ہو گئی ہوں......۔
لاہور میں جنازے اور تدفین کے بعد تعزیت کے لیے احباب بڑی تعدادمیں تشریف لاتے رہے اور ہمارے غم کو ہلکا کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔ اس دوران مرحوم کے ایک پرانے ساتھی ڈاکٹر سلمان سعید (ابواللیث) نے ایک واقعہ سنایا۔ کہنے لگے کہ ہم جرمنی میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ پانچ چھ پاکستانی ساتھیوں کا ایک حلقہ تھا۔ ایک روز ہارون بھائی نے کہا کہ سپین چلیں تاکہ وہاں مسلمانوں کے شاندار ماضی کی جھلک دیکھ سکیں۔ جب مسجد قرطبہ میں گئے، تو سکیورٹی گارڈز نے کہا کہ یہاں جوتے نہیں اتارنے۔ ہم نے کہا کہ یہ ہماری مسجد ہے، ہم یہاں جوتوں سمیت نہیں جائیں گے۔ وہ کافی دبائو ڈالتے رہے، لیکن ہم نے بات نہیں مانی۔
مسجد کے وسیع ہال کے مرکز میں کھڑے ہو کر ہارون بھائی نے کہا ہمیں یہاں کوئی یادگار کام کرناچاہیے اور وہ یہ ہے کہ ہم اذان پڑھیں۔ ہم ساتھیوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک دائرہ بنا لیا اور ہارون بھائی سنٹر میں کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے پُرسوز انداز میں اذان پڑھی۔ ہمارا خیال تھا کہ سکیورٹی گارڈ ہم پر جھپٹیں گے، مگر وہ حیران پریشان ہو کر اپنی جگہ کھڑے رہے۔ ہارون بھائی نے اذان مکمل کی تو ہم سب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میں نے کہا کہ ہارون بیٹے نے کبھی مجھ سے اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا۔ مجلس میں بیٹھے ان کے ایک دوست عبدالقوی بٹ صاحب نے کہا کہ ہم کئی مرتبہ ہارون بھائی کے ساتھ بیٹھتے تو اس واقعے کا تذکرہ ہوتا۔ وفات پر جو بھی اس کا ساتھی ملنے کے لیے آیا یا اندرون و بیرونِ ملک فون پر تعزیت کی تو کئی واقعات سنائے، مگر جانے والے مسافر نے اپنے انکسار کی وجہ سے بیشتر واقعات کا کبھی مجھ سے ذکر نہیں کیا تھا۔ مرحوم کی یادگار روایات میں سے ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ جب کبھی تھکا ہارا رات کے کسی حصے میں ہمارے پاس پہنچتا، تو ہمارے منع کرنے کے باوجود میرے اور اپنی والدہ کے پائوں دبائے بغیر کبھی نہ سوتا۔ اس رمضان میں قرآن پاک سنا رہا تھا۔ اپنی بیماری سے پہلے دوسرے عشرے میں ہمارے پاس آیا، تو میں نے کہا کہ آپ تو قرآن سنا رہے ہیں کیسے آنا ہوا؟ تو مسکراتے ہوئے کہا کہ حج و عمرے کا ارادہ تھا۔
مرحوم کا اشارہ اس حدیث کی طرف تھا جس میں ماں باپ کے چہرے کو محبت سے دیکھنا بہت بڑے اجر کا باعث بتایا گیا ہے۔ ہارون بیٹا عصر تک ہمارے پاس رہا۔ ہم سب گھر والوں نے کہا کہ افطار ہمارے ساتھ کیجیے، تو معذرت کی کہ میں اب نکل جائوں گا تاکہ تراویح میں میری منزل نہ رہ جائے۔ یادیں تو بہت زیادہ ہیں، مگر کیا کیا جائے کہ لکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمت دی تو پھر کبھی تفصیلاً مرحوم کا تذکرہ کریں گے۔
ہم سرگودھا میں بعداز نماز عشا، نمازِ جنازہ پڑھنے کے بعد تقریباً ڈیڑھ بجے رات لاہور پہنچے۔ گھر کے سامنے والی گلی میں دوست، احباب و عزیز و اقارب کی بڑی تعداد موجود تھی۔ سب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور زبانوں پر انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ میں سب سے ملتے ملاتے قلب حزیں کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔ کمرے اور صحن خواتین سے بھرے ہوئے تھے۔ سب رو رہی تھیں جبکہ بعض رشتہ دار خواتین کی رونے کے ساتھ غم زدہ آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ میرے دل کی کیا کیفیت تھی وہ میں ہی جانتا ہوں، مگر میں نے سب کو صبر کی تلقین کی۔ میری سب بہنیں، بیٹیاں، اہلیہ اور بھانجیاں بھتیجیاں میرے گلے لگ کر روئیں، تو میں نے ان کو بھی صبر کی تلقین کی۔ میرے پوتے طلحہ ادریس کی ننھی بیٹی ایلاف حاجرہ‘ جس کی عمر سوا سال ہے‘ مسکراتے ہوئے اپنے روایتی انداز میں ماں کی گود سے میری طرف بڑھی اور پکارنے لگی ''بابا جان! بابا جان! ‘‘ میں نے اسے چومتے ہوئے بے ساختہ کہا ؎
سدا مسکراتے رہو اے غنچۂ معصوم!
گلشن پہ کیا گزری تجھے نہیں معلوم!
بچھڑنے والا اپنی گونا گوں خوبیوں کی وجہ سے پورے گلشن میں منفرد تھا۔ آہ! جب وہ جوانی میں معصوم بچوں، جوان بیوی اور بوڑھے والدین کو الوداع کہہ گیا تو یہ موقع ایک قیامت سے کم نہیں تھا۔ باپ کی لاٹھی، ماں کا سہارا، جوان بیوی کا مان، معصوم بچوں کا سائبان چھن گیا۔ اللہ ہم سب کو صبر سے نوازے اور مرحوم کی اگلی منزلوں کو آسان فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے ہارون کے اہل و عیال اور ہمارے پورے خاندان کو صبر کی نعمت سے نوازا ہے۔ مرحوم کی وفات کے وقت سے آج تک کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب اس کی تعزیت کے لیے احباب کے پیغام اور دعائیں نہ ملی ہوں۔ بندۂ مومن کے لیے دعائیں ہی تو اس کا توشہ ہیں۔ اللہ سب دعائوں کو قبول فرمائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved