زندگی سے خالص پن دھیرے دھیرے ختم ہوتا جارہا ہے۔ پینے کے پانی سے لے کر ہوائوں اور فضائوں تک، ہرجگہ ملاوٹ ہی ملاوٹ ہے۔ موسیقی سے لے کر فنون لطیفہ کی دوسری ساری جہتوں تک، نظریات سے لے کر خیالات تک، دال سبزی، چائے کی پتی، اچار چٹنیوں سے لے کر اعلیٰ اور قیمتی کھانوں تک شاید کچھ بھی ہمارے ہاں خالص نہیں رہا۔ ثقافتی یلغار سے لے کر مذہب کے کاروبار تک ہرشے میں ملاوٹ ہے۔ انسان کی اپنی ذات اس ملاوٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ کلوننگ سے بنے ہوئے انسان میں اصل کی پہچان اب کیسے ہوگی؟ ہر سچ میں جھوٹ کی آمیزش ہے۔ پورا سچ شاید کہیں سنائی نہیں دیتا۔ ابھی پچھلے دنوں ایک سابق سیکرٹری خارجہ نے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا کہ وزارت خارجہ میں رہ کر پورا سچ بولنا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ حقائق، جھوٹ کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کیے جاتے ہیں۔ اس پر احمد شمیم کا ایک خوب صورت شعر بے اختیار یادآیا ہے۔ ؎ مجھے بلایا گیا جھوٹ بولنے کے لیے وہی سزا بھی مری ہے جو میرا پیشہ ہے یہ وہی احمد شمیم ہیں جن کی لطیف جذبوں سے گندھی نظم ’’کبھی ہم بھی خوب صورت تھے ‘‘ نیرہ نور نے گاکر لازوال کردی۔ احمد شمیم آزادکشمیر میں انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں کلیدی عہدے پر فائز تھے جب انہوں نے یہ ’’اعترافی‘‘ شعر کہا کہ جھوٹ بولنا۔ سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ کرنا میرا پیشہ ہے اور سچی نظمیں کہنے والے کے لیے یقینا یہ کسی سزاسے کم نہیں تھا۔ زندگی کے کسی بھی شعبے پر نگاہ ڈالیں، ملاوٹ کا کاروبار سجا ہے ۔ جھوٹ کو سچ کے سانچوں میں رکھ کر بیچا جارہا ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح صحافت کا شعبہ بھی ایسی ہی ملاوٹ سے دوچار ہے ۔ کہیں مصلحت کے تحت اور کہیں کئی اور طرح کے مفادات کے پیش نظر، بہت سے تلخ سچ لفظوں کے پیراہن میں ڈھل نہیں پاتے۔ ملاوٹ اور ناخالص پن ہمارے سماج کا ایک المیہ ہے اور اسی المیے پر دانشور شاعر نجیب احمد نے بڑی خوبصورت ایک نظم کہی جس کے مصرعے اگرچہ ذہن کی سلیٹ پر کچھ دھندلے سے ہیں مگر اس کا مفہوم ضرور قارئین تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ جوکچھ یوں ہے کہ تھوڑا تھوڑا جھوٹ اپنی سچی باتوں میں ملائو کیونکہ سونے میں کھوٹ شامل ہوتو، تب ہی وہ نئے گہنوں میں ڈھلتا ہے۔ ایسالگتا ہے کہ معاشرے کا ہرفرد، خواہ وہ حکمران ہو یا، سڑکیں صاف کرنے والا خاکروب ، اپنی اپنی جگہ پر کھوٹ ملانے میں مصروف ہیں، نظریات اور خیالات میں ملاوٹ بھی اتنی ہی نقصان دہ ہے جتنی بچوں کے ڈبے والے دودھ میں یوریا کھاد کی ملاوٹ۔ دونوں سے نسلیں بیمار ہوتی ہیں، ایک سے ذہنی طورپر ناکارہ اور دوسرے سے جسمانی طورپر لاغر! کھانے پینے کی اشیاء میں جتنی ملاوٹ ہمارے ہاں ہورہی ہے شاید ہی کہیں ہو، اس لیے کہ موت اور بیماری کے اس کاروبار کو طاقتوروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ ایسا نہ ہوتو کیا ممکن ہے کہ بڑے بڑے کارخانوں، فیکٹریوں، میں مضر صحت اشیا تیار ہوتیں، جبکہ ان جرائم پر قابو پانے کے لیے ایک الگ محکمہ بھی قائم ہے۔ فوڈانسپکٹرز بظاہر اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے نظرآتے ہیں، چھاپے مارے جاتے ہیں، اخبارات میں خبریں چھپتی ہیں، بہت ہوا تو ایسی جگہوں کو سیل کرکے جرمانہ کردیا۔ پھر کیا ہوتا ہے، ایسے گھنائونے کاروبار میں ملوث مجرم، پیسے کی چمک سے اپنے جرم کی سیاہی دھو ڈالتے ہیں اور پھر سے وہی کچھ ہونے لگتا ہے۔ سرکاری اداروں کی چھتری کے نیچے، کارخانوں میں ایسا گھی تیار کیا جاتا ہے جس میں مردہ جانوروں کی ہڈیوں کو پیس کر ملایا جاتا ہے،اسی گھی سے بازاروںمیںبکنے والی مٹھائیاں، پکوڑے، سموسے اور دیگر اشیا تیار ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے پوش ہوٹلوں سے لے کر کھانے کے چھوٹے ڈھابوں اور ٹھیلوں پر جو مرغ کڑاہی اور باربی کیو تیار ہوتا ہے، اس میں مردہ جانوروں کا گوشت استعمال کیا جارہا ہے۔ چند روز پہلے یہ خوفناک انکشاف دنیا ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام حسب حال ہی میں میزبان جنید سلیم نے کیا کہ اس شہر لاہور میں، منوں کے حساب سے مردہ گوشت بھی فروخت ہورہا ہے۔ اور مردہ مرغیوں کے لیے باقاعدہ ’’ٹھنڈی مرغی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ایک لمحے کو سوچیے کہ آپ نے باہر کھانا کھایا ،اچھے ہوٹلوں میں بیٹھ کر کھانے کے ذائقے سے لطف اندوز ہوئے مگر مردہ گوشت کے تصور سے ہی آپ کو ضرور ابکائی آجائے گی۔ دل ہی میں آپ یہ عہد بھی کریں گے کہ اب باہر کا کھانا نہیں کھانا ،مگر آپ چند روز کے بعد ہی ملاوٹ اورکھوٹ کے اس مجرمانہ کاروبار کو بھول کر پھر کسی اچھے ہوٹل میں بیٹھ کر گرم گرم باربی کیو سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے۔ بالکل ایسے ہی جیسے، ہم لاکھ سچ بولنے اور سچ سننے کا خود سے عہد کریں مگر پھر کوئی مصلحت، کوئی مفاد، کوئی غرض ، غیرمحسوس طریقے سے ہمارے سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ کرنے لگتی ہے۔ اور ہمیں اس کھوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا ہمارے جیسے لوگ ہی ان نظریات پر یقین رکھتے ہیں کہ اتنا جھوٹ بولو، کہ سچ لگنے لگے۔ شاید اسی لیے، ہمارے احتجاج اور ہمارے الفاظ ہرفورم پر بے معنی ہیں۔ ہماری آواز، آواز ہی نہیں ہے۔ ؎ ایک شہر خاموش ہے کہ جس میں سچ زندہ درگور ہو چکا ہے ! آپ شاید یہ سوچ رہے ہوں کہ ملاوٹ اور جھوٹ کے اس تذکرے میں، میں نے سیاست کا ذکر نہیں کیا۔ اس لیے کہ بدقسمتی سے کار سیاست ہمارے ہاں سب جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ دعا ہے کہ اس جھوٹ میں بھی کچھ سچ کی ملاوٹ ہوجائے !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved