میرا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔ نجانے میں کون سی خبر سننے والا تھا۔ اس کیفیت کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو پی ایچ ڈی کے ڈیفنس کے اس تجربے سے گزرے ہوں۔ میں اپنے سپروائزر Keith کو کمرے سے نکلتے دیکھ کر ہڑبڑا کر کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس وقت میرا چہرہ ایک سوالیہ نشان تھا۔ کیتھ کے ہونٹوں پر ہمیشہ کی طرح دبی دبی مسکراہٹ تھی۔ اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا: Congratulations Dr. Siddiqui۔ اس لمحے کی مسرت کا احوال لفظوں میں ممکن نہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا وہ موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا‘ میں نے وہیں یونیورسٹی کے ایک ڈیسک سے اسما کو فون کرکے کامیابی کی خبر دی۔ میرا پی ایچ ڈی کا Defenceیونیورسٹی آف ٹورونٹو کی ایک اور عمارت میں ہوا تھا۔ اب مجھے یہاں سے OISE میں اپنے ڈیپارٹمنٹ جانا تھا جہاں میرے دوست انتظار کر رہے ہوں گے۔ OISEایک چودہ منزلہ عمارت تھی جس کے ہر فلور پر ایک ڈیپارٹمنٹ تھا۔ میں نے Elevatorکا بٹن دبایا اور دسویں فلور پر اپنے ڈیپارٹمنٹ آ گیا۔ اس فلور کے محرابی صدر دروازے پر بیضوی شکل میں Congratulations Dr. Siddiqui لکھا تھا اور پھر کانفرنس روم میں ایک لمبی میز پر چائے کے تمام لوازمات سجے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ یہ سارا اہتمام میرے سپر وائزر Keith کی بیوی Paula نے کیا تھا۔Paula بھی OISE میں زیرِ تعلیم تھی۔ میرے دوست نصیر‘ ہارون اور فاروق بھی آگئے تھے۔ میری ہم جماعت جیمی(Jamie) نے مجھے بتایا کہ Defence میں شامل ہماری استاد Esther Gerva نے واپس آکر بتایا کہ یہ اس کی زندگی کا ایک بہترین ڈیفنس تھا۔ سب مجھے اور کیتھ کو مبارک باد دے رہے تھے۔ ابھی چائے شروع ہونے میں کچھ دیر تھی‘ اسما نے مجھے کہا تھا کہ اس نے گھر میں قیمے والے سموسے اور شامی کباب بنائے ہیں۔ نصیر اور ہارون بھاگ کر گھر سے سموسے اور شامی کباب لے آئے‘ یہ ایک یادگار Celebrationتھی۔ یہ میری پی ایچ ڈی کے سفر کا نقطۂ اختتام تھا۔ اس بات کو تیس برس کا عرصہ گزر گیا مگر اس دن کی یادیں آج بھی میرے دل کے آئینے میں روشن ہیں۔ وہ دن اس لیے بھی یادگار تھا کہ اس روز عید تھی اور ہم نے چند فیملیز کو ڈنر پر بلایا ہوا تھا۔ رات میں 35-Charles Street پر ہمارے اپارٹمنٹ میں خوب رونق تھی۔ اچانک میرے تصور کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور میں حال کی دنیا میں آجاتا ہوں۔ وہی OISE کی عمارت ہے لیکن وہ مانوس چہرے اب یہاں نہیں ہیں۔ کوئی خاموشی سی خاموشی ہے۔ شعیب کہنے لگا: مجھے ایک کام ہے‘ آپ سے کچھ دیر میں ملاقات ہوگی۔ میں Elevator کا بٹن دبا کر OISE کے گرائونڈ فلور پر آجاتا ہوں جہاں لائبریری ہے‘ اس گلاس وال سے Bloor سٹریٹ کا منظر صاف نظر آتا ہے‘ تب ہماری لائبریری میں انڈیا سے تعلق رکھنے والی لائبریرین ہوتی تھی شاید اس کا نام گیتا تھا۔ میرا زیادہ وقت لائبریری میں گزرتا تھا۔ آج میں لائبریری میں گیا تو گیتا کی جگہ لائبریرین کی سیٹ پر کوئی دوسری عورت بیٹھی تھی۔ لائبریری میں کچھ طالب علم بیٹھے تھے اور اردگرد سے بے نیاز کتابوں کی دنیا میں گم تھے۔ میں گلاس وال کے قریب ایک میز پر بیٹھ گیا اور گلاس وال سے باہر بلور سٹریٹ کا منظر دیکھنے لگا۔
میرا دل چاہا کہ اپنے سپر وائزر Keith سے ملوں۔ ایک عرصے سے اس سے رابطہ نہیں ہوا تھا۔ مجھے پتہ چلاتھا کہ وہ OISE سے ریٹائر ہو کر اب پروفیسر ایمریٹس بن گیا ہے۔ میں نے اپنے فون سے کیتھ کو Email کیا جس میں بتایا کہ میں آج کل ٹورونٹو میں ہوں اور چاہتا ہوں اس سے ملاقات ہو۔ ہمیشہ کی طرح کیتھ کا فوری جواب آگیا۔ اس نے ای میل میں لکھا تھا کہ اب وہ ٹورونٹو میں نہیں رہتا بلکہ امریکہ کی Oregan سٹیٹ منتقل ہو گیا ہے جہاں اس کی بیوی Paula اب Portland University میں پڑھاتی ہے۔ میں نے کیتھ کے پروجیکٹ میں کام کرنے والی اپنی ہم جماعت Jamie Metsalaکو ای میل کیا‘ اس کا بھی فورا ًجواب آیا۔ اس نے میری ای میل پر اپنی مسرت کا اظہار کیا اور بتایا کہ وہ ٹورونٹو سے دورNova Scotia میں پڑھا رہی ہے۔ میں لائبریری میں بیٹھا تھا کہ شعیب کا موبائل پر پیغام ملا کہ وہ OISE کے ہمسائے میں واقع کافی شاپ Tim Hortons میں میرا انتظار کر رہا ہے‘ میں بوجھل دل سے اُٹھا اور OISE کی لائبریری پر الوداعی نظر ڈالتا ہوا عمارت سے باہر آ گیا اور پھر وہ تین سیڑھیاں جن سے اتر کرBloor سٹریٹ آتی تھی۔ بلور سٹریٹ پر چلتے ہوئے کچھ فاصلے پر Tim Hortons کافی شاپ تھی۔
کافی پیتے ہوئے وہ سب چہرے میرے سامنے آنے لگے جو OISE کے برآمدوں میں مجھے ملتے تھے۔ ان میں سے ایک نصیر تھا۔ نصیر پاکستان میں ڈی آئی خان کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا اور سکالرشپ پر یہاں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے آیا ہوا تھا اور OISE میں سپیشل ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ وہ OISE کے قریب یونیورسٹی آف ٹورونٹو میں ایک ہوسٹل میں آنے سے پہلےOssignton Avenue میں رہتا تھا جہاں اس کے ہمراہ ایک اور پاکستانی رہتا تھا جس کا نام خالد تھا۔ نصیر کے ساتھ میری خوب گپ شپ رہتی۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد نصیر پاکستان چلا گیا اور گومل یونیورسٹی سے پنجاب یونیورسٹی آگیا۔ یہی بلور سٹریٹ تھی جہاں میں اور نصیر کتنی ہی بار لمبی واک پر نکلتے تھے۔ پھر میرے سامنے ہارون کا چہرہ آگیا‘ وہ یونیورسٹی آف ٹورونٹو میں پڑھنے آیا تھا‘ اس کے والد شیخ اکرام صاحب ایک اردو معاصر میں سینئر جرنلسٹ تھے۔ اسی دوران راولپنڈی ہی سے فاروق بھی ٹورونٹو آ گیا تھا۔ فاروق علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں ہماری کولیگ مسز شمیم عباس کا بھتیجا تھا‘ کچھ دنوں بعد کراچی سے ایک اور نوجوان احمد بھی آگیا۔ ہارون‘ فاروق اور احمد نوجوان تھے اور اسی ہاسٹل میں تھے جہاں میرا دوست نصیر Avenue Ossington میں اپنی رہائش چھوڑ کر آگیا تھا۔ اب یہ چاروںہمارے پاس 35 چارلس سٹریٹ آجاتے جہاں میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا تھا۔ اسما پاکستانی کھانے بناتی اور ہم سب خوب گپ شپ لگاتے۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک روز میں ٹورونٹو کی انڈر گرائونڈ سب وے میں سفر کر رہا تھا کہ پرانا دوست امین مل گیا۔ امین اور میں مانچسٹر میں اکٹھے ہوتے تھے۔ ایک روز امین کے ہمراہ پاکستان کے معروف پینٹر اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے استاد ظہور اخلاق صاحب ہمارے گھر آئے۔ ان کے ہمراہ ان کی بیگم اور پاکستان کی ممتاز Potter شہرزاد تھیں‘ وہ اب اپنی دو بیٹیوں جہاں آرا اور نور جہاں کے ساتھ ٹورونٹو منتقل ہو گئے تھے۔
بلور سٹریٹ پر Tim Hortonsکافی شاپ میں بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا‘ وقت کیسے سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ ظہور اخلاق اور ان کی جوان سال بیٹی جہاں آرا کو لاہور میں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا۔ شہرزاد حال ہی میں دنیا سے رخصت ہو گئی۔ میرا دوست نصیر بھی ہم دوستوں کو چھوڑ کر وادیٔ اجل میں اتر گیا۔ سنا ہے فاروق آج کل ترکی کے شہر استنبول میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ہمراہ رہ رہا ہے۔ ہارون پاکستان میں غمِ روزگار میں الجھا ہوا ہے۔ احمد ٹورونٹو ہی میں کہیں رہتا ہے لیکن میرے پاس اس کا فون نمبر نہیں۔ میں سوچتا ہوں دیکھتے ہی دیکھتے وہ دل رُبا منظر کیسے بدل گئے۔ Tim Hortons کی گلاس وال سے باہر پھر سے بارش کی پھوار اترنا شرو ع ہو گئی ہے اور میں کافی شاپ میں بیٹھا خالی نظروں سے بلور سٹریٹ پر آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved