چند روزہ بارشوں نے شہرِ قائد کو جس ابتری سے دوچار کیا ہے وہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔ ناقص حکمرانی کے ہاتھوں وہ خرابیاں پیدا ہوئی ہیں کہ کسی بھی خرابی کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔ کوئی خرابی سمجھ میں آئے تو اُسے دور کرنے کی کچھ سبیل بھی کی جائے۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ بہت دیکھنے پر بھی کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سمجھ میں آتا ہے ؎
لَوٹ کر پھر نظر نہیں آئی ... اُن پہ قربان ہو گئی ہو گی
کچھ نہیں کھلتا کہ کراچی کو مزید کس حال تک پہنچانے کی قسم کھائی گئی ہے۔ اربابِ بست و کشاد کے ارادے ہیں کہ طشت از بام ہونے کا نام نہیں لیتے۔ وفاق سے کچھ پوچھئے تو وہ صوبائی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ صوبائی حکومت کہتی ہے کہ مقامی اداروں نے اپنے حصے کا کام نہیں کیا۔ مقامی اداروں سے پوچھئے تو وہ کہتے ہیں ہمارے پاس فنڈز ہیں نہ اختیارات۔ احساسِ ذمہ داری گیند کے مانند ہے جس کے ذریعے حکمراں طبقہ پنگ پانگ کھیل رہا ہے۔ عوام یہ تماشا دیکھ کر پریشان ہیں کہ ع
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
معاملات خرابی سے شروع ہوتے ہیں اور گھوم پھر کر خرابی ہی کی طرف آتے ہیں۔ ایک منحوس دائرہ ہے جس میں تمام معاملات گھوم رہے ہیں۔ یہاں ذہن میں ایک اہم سوال یہ اُبھرتا ہے کہ صرف کراچی ہی کا رونا کیوں؟ اب تو پورے ملک کا بُرا حال ہے۔ کراچی کی ابتر صورتِ حال کے بارے میں کچھ زیادہ بات شاید اس لیے کی جاتی ہے کہ اِس شہرِ بے مثال و ناتواں کے کاندھوں پر معیشت کا سارا بوجھ آ پڑا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی کی بہتر کارکردگی قومی معیشت کی کارکردگی بہتر بنانے کی راہ ہموار کرتی ہے مگر پھر بھی یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ معیشت کا بوجھ کوئی ایک شہر برداشت نہیں کر سکتا۔ کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ دور کیوں جائیے، بھارت کو دیکھیے کہ جب ممبئی، دہلی، مدراس اور کولکتہ پر بوجھ بڑھ گیا تو کئی، نسبتاً چھوٹے شہروں کو ترقی دی گئی، اُنہیں مضبوط تر بنایا گیا تاکہ وہ روزگار کے ذرائع پیدا کرنے والے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ملک بھر میں معاشی سرگرمیوں کو متوازن رکھنا ریاستی مشینری کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ بہتر معاشی مواقع ملک کے ہر حصے میں یقینی بنائے جائیں۔ بہتر معاشی مواقع اُسی وقت پیدا کیے جا سکتے ہیں جب اس حوالے سے جامع اور بے داغ منصوبہ سازی کی گئی ہو۔ چھوٹے شہروں میں روزگار کے ذرائع اور مواقع کم ہوتے ہیں جس کے باعث وہاں کے لوگوں کو بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب کے بہت سے علاقوں کے لیے لاہور ایک اچھے معاشی مرکز کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شہر پر دباؤ بڑھتا رہا ہے۔ آبادی میں اضافے سے بنیادی ڈھانچے کی حالت ابتر ہوئی جاتی ہے۔ ٹاؤن پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی ہے۔ یہی حال دوسرے بہت سے شہروں کا بھی ہے۔ ملتان، راولپنڈی اور پنجاب کے دیگر شہروں پر روزگار کے مواقع کی تلاش کے حوالے سے غیرمعمولی دباؤ رہا ہے۔ ان شہروں میں مزید پنپنے کی اب گنجائش نہیں رہی۔ یہی سبب ہے کہ اِن شہروں سے اور اِن کے اطراف کے بہت سے علاقوں سے لوگ بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں کراچی کا رخ کرتے ہیں۔
کراچی قومی معیشت کی تمام بنیادی سرگرمیوں کا مرکز و محور ہے۔ مالیات، صنعت اور تجارت کے ساتھ ساتھ خدمات کے ادارے بھی اِس شہر میں خوب پھلے پُھولے ہیں۔ شہر میں پنپنے کی گنجائش اچھی خاصی رہی ہے اس لیے ملک بھر سے لوگ یہاں آتے رہے ہیں۔ اُن کی آمد سے یہاں معاشی سرگرمیوں کی رفتار بڑھانے میں بھی مدد ملی ہے۔ کراچی اگر پورے ملک کو پالتا ہے تو اِس میں سارا کمال مقامی لوگوں کا نہیں۔ ملک بھر سے لوگوں نے یہاں انفرادی حیثیت میں کروڑوں‘ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ کراچی میں جو بھرپور مالیاتی، صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں وہ تمام کی تمام مقامی لوگوں کی مرہونِ منت نہیں۔ شہرِ قائد میں ملک کے گوشے گوشے سے پیسہ لگایا گیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھیے تو شہر کو ترقی دینے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ملک بھر کے سرمایہ کار کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ وہ اپنے سرمائے کا تحفظ بھی چاہتے ہیں اور اُسے بارآور بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے باوجود اِتنے بڑے شہر کو یوں بے یار و مددگار چھوڑ دینا سمجھ میں نہیں آتا۔
کراچی کو ترقی دینے کی اہمیت سبھی جانتے ہیں۔ عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ کراچی کو مضبوط بنانے سے معیشت مضبوط ہوگی کیونکہ ایسا کرنے سے معاشی امکانات بڑھیں گے، روزگار کے بہتر اور زیادہ پُرکشش مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ یقینا پسندیدہ بات ہے مگر اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تو پسندیدہ بات ہے کہ تمام درمیانے اور چھوٹے شہروں کو بھی اس قدر ترقی دی جائے کہ وہاں کے لوگوں کو گھر کے نزدیک روزگار کے بہتر مواقع میسر ہوں۔ معاشی مواقع یا امکانات کے اعتبار سے ملک کے تمام حصوں کو متوازن ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی ایک شہر غیر معمولی وسعت سے ہم کنار نہ ہو۔ شہر اگر بہت پھیل جائے تو اُسے سنبھالنا اور چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ کراچی اِتنا پھیل چکا ہے کہ اِس میں درجنوں شہر سمائے ہوئے ہیں۔ کراچی سے ملحق حیدر آباد بھی پنپنے کی گنجائش پوری کرچکا ہے۔ سندھ کے دیگر شہروں میں اب بھی پنپنے کی گنجائش موجود ہے مگر صوبائی حکومت اُنہیں ترقی دینے پر متوجہ نہیں ہوتی۔ دیگر شہروں کو ترقی دے کر، بنیادی ڈھانچا بہتر بناکر وہاں کئی اہم شعبوں کو تیزی سے فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اگر ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل کیے جائیں اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام بہتر بنایا جائے تو بہت سے مقامی باشندے کراچی کے بجائے وہیں سرمایہ کاری میں دلچسپی لیں اور یوں مقامی محنت کشوں، ہنر مندوں کو گھروں کے نزدیک معقول آمدنی کے ذرائع میسر ہوں گے۔
سرمایہ کاری کے حوالے سے کراچی آج بھی بہت سوں کے لیے انتہائی پُرکشش ہے۔ سوال صرف سرمایہ کاری کا نہیں، ملک بھر سے آنے والوں کی آباد کاری کا بھی ہے۔ شہر کی تمام پرانی اور غریب بستیوں پر آبادی کا دباؤ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ شہر کا بنیادی ڈھانچہ جواب دے چکا ہے۔ پانی، بجلی اور گیس کی فراہمی کا جو حال ہے وہ کسی بھی سطح پر ڈھکا چھپا نہیں۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا نظام بھی اب کسی طور قابلِ اعتبار نہیں رہا۔ عمومی سطح پر گورننس کا حال یہ ہے کہ لوگ کسی بھی ناگہانی صورتِ حال میں متعلقہ اداروں کو ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔ فلاحی اداروں نے اپنے رضاکاروں کے ذریعے شہریوں کی خدمت کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ لوگ کم و بیش ہر چیز کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ پانی خریدنا پڑ رہا ہے۔ بجلی کے لیے جنریٹر یا پھر سولر پینل لگائے جارہے ہیں۔ گیس کی کمی سلنڈرز کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ بیمار پڑیے تو سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہوئے خوف آتا ہے۔ ایسے میں نجی ہسپتالوں اور کلینکس ہی کا آپشن رہ جاتا ہے۔ تعلیم کے لیے بھی نجی اداروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ سلامتی یقینی بنانے کے لیے نجی محافظ رکھنا پڑتے ہیں۔ ایسے میں لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب سبھی کچھ اپنے پیسوں سے حاصل کرنا پڑ رہا ہے تو پھر سرکاری ادارے کس مرض کی دوا ہیں اور ٹیکس کیوں ادا کیجیے۔
بہر کیف‘ کراچی کو اَپ گریڈ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں درمیانے اور چھوٹے شہروں کو بھی اَپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشی سرگرمیوں کا بوجھ محض ایک شہر پر نہ پڑے۔ کراچی وحشت انگیز حد تک پھیل چکا ہے۔ اتنے بڑے شہر کو کسی مہذب معاشرے میں تو چلایا جاسکتا ہے، ہمارے ہاں اب یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ کراچی جیسے شہر کو محض ایک میئر یا ایڈمنسٹریٹر ڈھنگ سے چلا سکے۔ کئی شہروں کے اس مجموعے کو انتظامی سطح پر چار پانچ یا اِس سے بھی زیادہ حصوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر حصے کو ڈھنگ سے چلانا ممکن ہو۔ کراچی کو کس طور چلایا جانا چاہیے یہ بحث پھر کبھی سہی۔ سرِدست یہ بات ذہن نشین رکھی جائے کہ ملک بھر میں شہری علاقوں کو مضبوط بنانے اور ترقی دینے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی سطح پر بہتر معاشی امکانات پیدا کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved