جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا‘ اسے پنجاب کے سب سے بڑے منصب تک پہنچا دیا۔ کیا عمران خان صاحب کی پچیس سالہ سعی و جہد اسی مقصد کے لیے تھی؟ کیا اسی کے لیے یومِ تشکر منایا جا رہا ہے؟ کیا اسی 'تبدیلی‘ کا وعدہ تھا؟
یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا؟
خان صاحب تو اپنی منزلِ مراد تک پہنچ گئے‘ نون لیگ کے ارادے کیا ہیں؟
منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی؟
دو کام اب ناگزیر ہو چکے‘ اگر نون لیگ کو اپنی سیاسی بقا سے کوئی دلچسپی ہے: پی ڈی ایم سے علیحدگی اور اپنے بیانیے کی طرف مراجعت۔ دونوں فیصلوں کے کچھ مضمرات ہوں گے لیکن ان کی سنگینی یقینا اس حکمتِ عملی کے نتائج سے کم ہے جو اس وقت اختیار کی گئی ہے۔ مفاہمت نون لیگ کے لیے گناہِ بے لذت ثابت ہوئی۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ خان صاحب کے چارسالہ عہدِ اقتدار کا بوجھ اس کے کندھے پر ہے اور وہ سبک دوش ہیں۔
سیاسی اتحاد کسی مشترکہ ہدف کے لیے بنتے ہیں۔ پی ڈی ایم کا ہدف کیا ہے؟ اگر یہ عمران خان صاحب کو اقتدار سے الگ کرنا تھا تو حاصل ہو چکا۔ اس کے بعد اگر کسی قومی حکومت کا قیام اس کا مقصد تھا جسے 2023ء کے وسط تک رہنا ہے تو یہ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ جنہوں نے اس منزل تک پہنچانے کے لیے ہم سفری کا وعدہ کیا تھا‘ وہ اب کسی اور سے عہد و پیمان کر رہے ہیں۔ خوش گمانی کی کوئی وجہ اب باقی نہیں‘ لہٰذا اتحاد کے باقی رہنے کا جواز بھی نہیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ صرف نون لیگ ہے جو پی ڈی ایم کی اس حکمتِ عملی کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ اس کا سیاسی اثاثہ (Potential) آہستہ آہستہ زائل ہو رہا ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ فائدے بھی سب سے زیادہ اس کی جھولی میں گرے۔ وزارتِ عظمیٰ‘ وزارتِ اعلیٰ اور وفاقی کابینہ میں سب سے زیادہ نمائندگی۔ میرے نزدیک یہ محض آنکھوں کا دھوکا ہے۔ ہر منصب‘ اِس مرحلے پر پھولوں کی سیج نہیں‘ کانٹوں کا بستر تھا۔ معیشت کی زبوں حالی سے لے کر بجلی کی لوڈ شیڈنگ تک‘ ہر بات کے لیے صرف نون لیگ کو جواب دہ ٹھہرایا گیا کہ وزارتِ عظمیٰ اور وزارتِ خزانہ و توانائی کی کنجیاں نون لیگ کے پاس تھیں۔ عوام بھی شکایت بھری نظروں سے اسی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
سب سے بڑھ کر وہ سیاسی امکانات معرضِ خطر میں ہیں جو نون لیگ کے منتظر ہیں۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن نے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ کوئی سیاسی جماعت محض چار دن کی خدائی کے لیے ان امکانات کو ضائع نہیں کر سکتی۔ اگر پی ڈی ایم کا ساتھ رہا تو اتحادیوں کا اصرار ہوگا کہ یہ سلسلہ دراز ہوتا جائے۔ چھوٹی جماعتوں کے لیے ایسے اتحاد بہرصورت فائدہ مند ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہاتھ تھامنے والے اب کسی دوسری سمت دیکھ رہے ہیں؛ تاہم یہ پیشِ نظر رہے کہ پی ڈی ایم سے الگ ہونے کا لازمی نتیجہ حکومت سے علیحدگی ہے۔ کیا نون لیگ اس کے لیے آمادہ ہے؟
حکومت میں رہنے کی صرف ایک صورت ہے۔ اسے اداروں کا تعاون میسر رہے تاکہ معاملہ اگلے سال تک چلتا رہے۔ آثار یہ ہیں کہ اب یہ تعاون میسر نہیں۔ اگر عدالتِ عظمیٰ کے حالیہ فیصلے کے بعد بھی‘ کوئی اس معاملے میں پُر امید ہے تو اس کی جگہ سیاست کے ایوان میں نہیں‘ کہیں اور ہے۔ گویا پی ڈی ایم کے ساتھ وابستگی کا جو ایک فائدہ ہو سکتا تھا‘ اس کا امکان بھی معدوم ہو چکا۔ اس کے بعد اس اتحاد میں رہنے کا کیا جوازہے؟
علیحدگی کا مطلب تلخی یا محاذ آرائی نہیں۔ اتحاد سے الگ ہوکر بھی تعاون کیا جا سکتا ہے؛ تاہم اس میں آپ دوسروں کا فیصلہ قبول کرنے پر مجبور نہیں ہوتے۔ بہتر یہ ہوگا کہ سب سیاسی جماعتیں نکتہ بہ نکتہ (issue to issue) تعاون کریں اور اپنی حکمتِ عملی آزادی کے ساتھ بنائیں۔ اگر نون لیگ مزاحمت اور پیپلز پارٹی مفاہمت کی پالیسی اپنانا چاہتی ہیں تو دونوں اس میں آزاد ہوں لیکن اس کے ساتھ‘ دونوں جماعتیں عام انتخابات کے انعقاد پر ہم خیال ہو سکتی ہیں۔ یہی معاملہ جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ تعاون کا بھی ہو سکتا ہے۔ سیاسی جماعتیں‘ کسی اتحاد کا حصہ ہوئے بغیر بھی خوش گوار تعلقات رکھ سکتی ہیں۔
ریاستی اداروں کو آئینی کردار تک محدود کرنے کے لیے نون لیگ اور پی ٹی آئی میں اتحاد ہو سکتا ہے۔ کوئی جماعت تنہا یہ لڑائی نہیں جیت پائے گی۔ عمران خان صاحب مگر اس اتحاد کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے۔ ان کا خیال ہے کہ 'چوروں‘ کے ساتھ بیٹھنے سے ان کا سیاسی تقویٰ متاثر ہوتا ہے۔ بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ یہ تقویٰ مخصوص 'چوروں‘ کی صحبت سے متاثر ہوتا ہے‘ ہر 'چور‘ کی مصاحبت سے نہیں۔ ضرورت پڑے تو 'ڈاکو‘ کی قربت بھی گوارا ہے۔ اس لیے سرِ دست توکسی ایسے سیاسی اتحاد کا امکان نہیں۔
آج نون لیگ کو بقا کی یہ لڑائی تنہا لڑنی ہے اور اس کے لیے اسے اپنے اصل بیانیے کی طرف لوٹنا ہوگا۔ نواز شریف صاحب نے جس دو ٹوک مؤقف کے ساتھ اپنے سفرکا آغاز کیا تھا‘ وہ عزیمت اور استقامت کا متقاضی تھا۔ انہوں نے ابتدا میں اس کا اہتمام کیا اور اپنی بیٹی کے ساتھ اس کی قیمت بھی ادا کی۔ اس میں شبہ نہیں کہ سیاست میں گفتگو کا راستہ بندکیا جاتا ہے اور نہ دیگر امکانات ہی کو دفن کیا جاتا ہے۔ دوسرے راستے کھلے رہنے چاہئیں مگر اصل مؤقف کی قیمت پر نہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں دیگر امکانات کو پوری طرح کھنگال لیا گیا۔ تجربے سے معلوم ہو گیا کہ اس کا حاصل کچھ نہیں۔ جن کے ہاتھ میں حقیقی اقتدار کی باگ ہے‘ وہ اسے چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں۔ یہ باگ ایک نہیں‘ اب دو ہاتھوں میں ہے۔ حسبِ روایت انہیں اہلِ سیاست کے ایک طبقے کا تعاون بھی حاصل ہے۔ اقتدار پر قبضے کی خواہش نے اداروں میں تقسیم کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یہ خواہش مگر بدستور بے لگام ہے۔ کسی کو فرصت نہیں کہ اس کے تباہ کن مضمرات پر غور کرے جو نوشتہ دیوار ہیں۔
پی ٹی آئی سے البتہ شفاف انتخابات کے لیے تعاون کی بات کی جا سکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اگر اس کے لیے اتفاقِ رائے پیدا ہو جائے تو یہ ایک مثبت پیش قدمی ہوگی۔ انتخابی کامیابی کے باب میں پی ٹی آئی اب ماضی کے مقابلے میں زیادہ پُر امید ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اداروں کی مداخلت کے بغیر‘ انتخابی عمل کو شفاف اور منصفانہ بنانے پر تعاون کے لیے تیار ہو جائے۔ اگر شفاف انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کامیاب ہوتی ہے تو ووٹ کی عزت کا تقاضا ہے کہ اسے کھلے دل کے ساتھ قبول کیا جائے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج پر نون لیگ کا ردِ عمل خوش آئند ہے۔ امید ہے کہ اس کی روح کو باقی رکھا جائے گا۔
نون لیگ کے پاس یہی راستہ باقی ہے کہ مزاحمتی بیانیے کی طرف لوٹے اور عوام کی حاکمیت کے موقف سے غیر متزلزل وابستگی کا مظاہرہ کرے۔ اگر کوئی اس سفر میں ہم قدم ہونے پر آمادہ ہے تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ ایک مشکل راستہ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہم اس کے نتیجے میں2014ء اور 2018ء کے دنوں کو پلٹتا ہوا دیکھیں۔ جیل کے دروازے جو مریم نواز اور نواز شریف پر‘ آج بھی پوری طرح بند نہیں ہوئے‘ دوبارہ کھل سکتے ہیں کہ صیاد کے عزائم میں کوئی تبدیلی نہیں۔ تاہم عوام سے براہِ راست رابطہ‘ ایک جارحانہ سیاسی حکمتِ عملی کے ساتھ‘ ان عزائم کو ناکام بنا سکتا ہے۔ نون لیگ کا ہدف اب اگلے انتخابات ہونے چاہئیں‘ وہ آج ہوتے ہیں یا کل۔
نون لیگ کا سیاسی اثاثہ پوری طرح ضائع نہیں ہوا۔ اسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved