امپورٹڈ حکومت کو مزید برداشت
نہیں کیا جا سکتا: شبلی فراز
سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''امپورٹڈ حکومت کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا‘‘ کیونکہ کسی اپوزیشن کا حکومت کو برداشت نہ کرنا ہی سیاست اور جمہوریت کا حسن ہے کیونکہ اگر اپوزیشن ایسا نہ کرے تو آرام سے گھر بیٹھ جائے جبکہ ویسے بھی کسی حکومت پر امپورٹڈ کا الزام لگتا ہے اور کسی پر سلیکٹیڈ کا۔ اور اگر اپوزیشن حکومت کو تسلیم یا برداشت کر لے تو ایک غلط رواج پڑ جائے گا اور جمہوریت کی گاڑی اپنی صحیح رفتار سے نہیں چل سکے گی اور ہم جمہوریت کو صحیح رفتار سے چلانے کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔
ملک کو تماشا بنا دیا گیا، تینوں
جج صاحبان کو سلام: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ملک کو تماشا بنا دیا گیا، تینوں جج صاحبان کو سلام‘‘ اور سب جانتے ہیں کہ یہ سلام ایسا ہے کہ جس کے بعد وعلیکم السلام کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی؛ تاہم میں خود بھی سلام کا مستحق ہوں بلکہ السلام علیکم کے بعد رحمۃ اللہ کا بھی حقدار ہوں کیونکہ میں نے کوئی بھید بھائو نہیں رکھا اور بیماری کا بہانہ بنا کر وہاں سے آ گیا ہوں، اور وعدے اور ضمانت کے باوجود واپس جانے کا نام تک نہیں لے رہا جبکہ برادر عزیز شہباز شریف بھی سلام کے حقدار ہیں کہ انہوں نے میری واپسی کی ضمانت دی تھی اور کوئی بھی انہیں نہیں پوچھ رہا۔ آپ اگلے روز لندن سے ٹویٹر پر ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
ہاتھی 50سال سے کمرے میں ہے
آج نہیں گھسا:صدر عارف علوی
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ''ہاتھی 50سال سے کمرے میں ہے، آج نہیں گھسا‘‘ کیونکہ ہاتھی کمرے میں گھس ہی نہیں سکتا، چنانچہ جب کمرہ بنایا گیا تھا تو ہاتھی کو کمرے میں رکھ کر بنایا گیا تھا، اس لیے وہ کمرے سے نکل سکتا ہے نہ دوبارہ اس میں گھس سکتا ہے، اس لیے کہتے ہیں کہ ہاتھی پھرے گاؤں گاؤں، جس کا ہاتھی اس کا نائوں، اس لیے ہاتھی کے بارے میں خواہ مخواہ غلط فہمیاں پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ ہاتھی اپنا پتابھی نہیں چلنے دیتا کہ وہ کمرے کے اندر ہے یا باہر کیونکہ اس کے کھانے کے دانت اور ہوتے ہیں‘ دکھانے کے اور۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عدلیہ کے اختیارات محدود کر
دیے جائیں: فرحت اللہ بابر
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ ''عدلیہ کے اختیارات محدود کر دیے جائیں‘‘ تاکہ حکومتوں اور سیاسی رہنماؤں کی راہ میں حائل سبھی رکاوٹیں پوری طرح سے دور ہو سکیں اور وہ بھرپور طریقے سے عوامی خدمت کے کام کر سکیں۔ ان اختیارات کی وجہ سے ایک دھڑکا مسلسل لگا رہتا ہے اور کئی حکومتیں بھی تہ و بالا ہو چکی ہیں جبکہ نواز شریف کو آج تک اپنی ایوانِ حکومت سے رخصتی کی سمجھ نہیں آ سکی اور ایسا کرنے کی وجہ بھی نہیں بتائی گئی حالانکہ وہ سڑکوں پر دہائی دیتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا لیکن انہیں آج تک اس کا جواب نہیں ملا، اور اسی طرح حمزہ شہباز کو بھی جواب نہیں ملے گا بیشک وہ بھی پوچھتے رہ جائیں حالانکہ ان دونوں کے سوالوں کا پورا پورا جواب فیصلوں میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ آپ اگلے روز ٹویٹ کے ذریعے پی ڈی ایم کو تجویز پیش کر رہے تھے۔
گوپی چند نارنگ پاکستانی ادیبوں کی نظر میں
نامور نقاد اور نظریہ ساز گوپی چند نارنگ کے حوالے سے یہ کتاب عمر فرحت نے مرتب کی ہے جس میں نارنگ کے بارے میں لکھے گئے پاکستانی ادیبوں کے مضامین کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ اسے لاہور سے شائع کیا گیا ہے۔ جن ادبا کے مضامین اس میں شامل کیے گئے ہیں ان میں تسلیم احمد، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر جمیل جالبی، انتظار حسین، خامہ بگوش، مظفر علی سید، منیر احمد شیخ، پروفیسر نظیر صدیقی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر فہیم اعظمی اور قمر جمیل جبکہ دوسرے حصے میں مولانا کوثر نیازی‘ ساقی فاروقی، آصف فرخی، اختر رحمن، عطاء الحق قاسمی اور تیسرے حصے میں افتخار عارف، انور سین رائے، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر قاضی عابد، ضیاء الحسن، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، سید عامر سہیل، یہ خاکسار اور دیگران شامل ہیں۔ انتساب اپنے اساتذہ کرام محترم جناب گوپی چند نارنگ، محترم جناب نظیر صدیقی، محترم جناب کرشن کمار طور اور محترم جناب فاروق مضطر کے نام ہے۔ سرورق پر گوپی چند نارنگ کی تصویر ہے اور عمدہ گیٹ اَپ۔
اور‘ اب سدرہ سحر عمران کی شاعری:
تمہارا عکس بھی چبھنے لگا ہے آنکھوں میں
کہ جیسے کانچ کا ٹکڑا پڑا ہے آنکھوں میں
بجھا رہی ہے چراغوں کو کتنی وحشت سے
کہ تیرے شہر کے جیسی ہوا ہے آنکھوں میں
اسی لیے ہیں میرے خواب زرد رنگت کے
کہ ایک عمر سے پت جھڑ رہا ہے آنکھوں میں
ہماری نیند پہ پہرے بٹھا دیے اُس نے
جو تیرے خواب کا اک سلسلہ ہے آنکھوں میں
تمہارے نام کے سکّے، اُداسی، پھول، چراغ
کوئی تو شہر پرانا دبا ہے آنکھوں میں
٭......٭......٭
اپنی تصویر وہ لے گیا ہے مگر
اُس کا ہر نقش باقی ہے دیوار میں
سرد ہونٹوں پہ آواز جمنے لگی
اور وحشت اتر آئی گھر بار میں
٭......٭......٭
وہ میرے اشکوں سے الجھا تو یاد آیا مجھے
میں بارشوں کی کہانی سنا رہی تھی اُسے
اُسی حویلی کے البم میں قید خانہ تھا
میں جس کی کھڑکی سے رستا بتا رہی تھی اُسے
آج کا مطلع
خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا
کہ دھیان ہی نہ رہا غم کی بے لباسی کا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved