تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     29-07-2022

بابائے قوم کو کیا معلوم تھا

آفرین ہے ان سیاسی رہنماؤں کی منطقوں اور مائنڈ سیٹ پر۔ فیصلہ موافق اور حق میں آجائے تو انصاف کا بول بالا۔عدالتوں پر واری واری جاتے اور خراجِ تحسین پیش کرتے نظر آتے ہیں اوراگر فیصلہ خلاف اور انصاف پر مبنی آجائے تو وہ کیچڑ اچھالتے ہیں کہ ہر طرف گند ہی گند کے علاوہ سارا ماحول اس کیچڑ کی لپیٹ میں آکر وہ تعفن پھیلاتا ہے کہ بس کچھ نہ پوچھئے۔ اپنی اپنی ضرورتوں اور خواہشات کے مارے حصولِ اقتدار کے لیے اس حد تک گرتے چلے جاتے ہیں کہ گراوٹ بھی پناہ مانگتی ہے کہ کوئی اس حد تک بھی گرسکتا ہے؟ تختِ پنجاب کے بارے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی حکومتی اتحاد نے عدالت عظمیٰ کے ججز صاحبان کو نشانے پر رکھ لیا تھا۔غیر موافق فیصلہ آنے پر عدالتی اصلاحات کے لیے شریف سرکار نے قومی اسمبلی میں قرار داد منظور کروا لی ہے نیب کے ساتھ ساتھ اصلاحات کے نام پر عدالتوں پر بھی ہاتھ صاف کرنے جارہے ہیں۔نیت بد ہوں یا اعمالِ بد سبھی بے نقاب اور بے لباس ہوہی جاتے ہیں؛ تاہم چیف جسٹس پاکستان کی معاملہ فہمی اور تدبر قابلِ تعریف ہے کہ انہوں نے اعصاب شکن ہرزہ سرائی کی پروا کیے بغیر ریاست کے حق میں فیصلہ دیا۔
چند روز قبل عدالت عظمیٰ نے حمزہ شہباز کو منتخب وزیراعلیٰ کے بجائے ''ٹرسٹی وزیراعلیٰ‘‘ قرار دے کر ان کے اختیارات بھی محدود کرڈالے تھے۔ لیکن شوقِ حکمرانی کے ماروں نے عدالت کے فیصلے کو عزت دینا تو درکنار الٹاردعمل دکھانے کے لیے وزیروں اور مشیروں پر مشتمل 60رکنی کابینہ تشکیل دے ڈالی جبکہ قانون اور اخلاقیات کا تقاضا یہ تھا کہ حتمی فیصلہ آنے تک عدالت کی طرف سے طے کردہ اختیارات اور کردار کا احترام ضرور کیاجاتا۔ بوئے سلطانی کے ماروں کے خوشامد سے لے کرالزامات اور ہرزہ سرائی سمیت بلیک میلنگ تک سبھی روپ عوام دیکھ چکے ہیں۔اعلیٰ عدالتیں ہوں یا دیگر قومی ادارے‘غیر موافق حالات میں ان سیاست دانوں نے کب کسے آڑے ہاتھوں نہیں لیا؟ سپریم کورٹ پر لشکر کشی سے لے کر جج صاحبان کی کردار کشی اور بلیک میلنگ جیسی گھٹیا حرکات جبکہ پاک فوج پر الزامات کی داستان اتنی طویل اور تکلیف دہ ہے کہ اس کے لیے قسط وار کالم درکار ہوں گے۔ مفادات کے ماروں نے اداروں کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری وسائل اور قومی خزانے کو اس طرح کھایا ہے کہ پورا پیندا ہی چاٹ گئے۔
بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ جس خطے اور وطن کی آزادی کے لیے وہ اتنی جدوجہد اور صعوبتیں برداشت کررہے ہیں‘آزادی کے بعدچند خاندانوں کے ہتھے اس طرح چڑھ جائے گا کہ عوام کو نسل در نسل انہیں بھگتنا پڑے گا۔مملکت خداداد کی عمر عزیز کی نصف مدت توایک ہی خاندان کی بھینٹ چڑھ گئی۔ بوئے سلطانی اور ہوسِ زر کے ماروں نے اس ملک کی جڑوں کو کب اور کیسے کھوکھلا نہیں کیا۔ بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ تقسیم ِہند کے وقت خاک اور خون کی دردناک داستان یہ سبھی اتنی آسانی سے فراموش کرکے بے حسی کا پہاڑ بنتے چلے جائیں گے؟ سفارش اور سازش کے تحت اقتدار میں آنے والوں کا میرٹ پر فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ بے نقاب اور بے لباس ہونا قدرت کا وہ نظارہ ہے جو کوئی احتسابی ادارہ نہ کرسکا۔ برطانیہ میں بیٹھ کرملکی سالمیت اور ملکی ادروں کے وقار کو نشانہ بنانے والے نام نہاد نیتا مکافاتِ عمل کی چکی کے پاٹوں کے درمیان آچکے ہیں۔ بابائے قوم کو کیا خبر تھی کہ پاکستان کی خالق سیاسی جماعت کا نام اس طرح ڈبو دیا جائے گا۔ پاکستان کی تخلیق سے لے کر بقا اور سالمیت کی علامت یہ جماعت ایسے ایسوں کے ہتھے چڑھ جائے گی جو حصولِ اقتدار سے کر طولِ اقتدار تک‘اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے سے لے کر وسائل کو بھنبھوڑنے تک‘ ملکی سلامتی دائو پر لگانے سے لے کربھارت کے مذموم عزائم کی تکمیل تک‘ سبھی کچھ اتنی ڈھٹائی اور آسانی سے کرسکتے ہیں کہ غیرتِ قومی کا جنازہ ہی نکل جائے۔
یہ کیسا خطہ ہے‘ اس میں بسنے والوں نے کیسا نصیب پایا ہے‘سالہا سال گزر جائیں‘کتنی ہی رُتیں بیت جائیں‘کتنے ہی موسم تبدیل ہو جائیں‘کتنے ہی حکمران بدل جائیں‘لیکن عوام کی مشکلات کسی صورت کم ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ روزِاول سے لمحہ موجود تک‘ سانحات اور صدمات قوم کا مقدر بنے چلے آرہے ہیں۔ حالات کا ماتم جوں کا توں ہے۔ عوام کی مت مارنے سے خواص کا ضمیر مارنے تک کیسی کیسی واردات صبح و شام‘ جا بجا اور ہر سو‘کس قدر ڈھٹائی سے کھلے عام جاری ہے۔ بوئے سلطانی کے مارے ہوئے سیاستدانوں کا سایہ اس ملک پر کسی آسیب سے کم ثابت نہیں ہوا۔یہ آسیب کیا کچھ نہیں کھا گیا‘نیت سے لے کر معیشت تک‘سماجی انصاف سے لے کر آئین اور قانون تک‘میرٹ سے لے کر گورننس تک‘ سبھی کچھ تو تہ و بالا ہوچکا ہے۔ دورِ ضیا الحق میں لگائی گئی یہ پنیریاں برق رفتاری سے خاردار بیل میں تبدیل ہوتے ہوتے سسٹم کو کس بے رحمی سے اپنی لپیٹ میں لیتی چلی گئیں‘کسی کو پتا ہی نہ چل سکا اور نہ ہی کسی کو کبھی ہوش آیا۔اب یہ عالم ہے کہ ماضی کی لوٹ مار اور مار دھاڑ کے سبھی طوق گلے سے اتارنے کے لیے نیب قوانین پر چھری چلانے کا دوسرا مرحلہ قومی اسمبلی میں شروع ہوچکا ہے جس کے تحت نیب پچاس کروڑ سے کم کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گاجس کا عام فہم مطلب یہ ہے کہ اربوں روپے کا ہاتھ مارنے کے بجائے پچاس کروڑ سے کم مالیت کی جتنی چاہے وارداتیں کی جاسکتی ہیں‘ کیونکہ انسدادِ رشوت ستانی کے محکموں کا تو بڑا سیدھا سا فارمولا ہے کہ پیسے لیتے پکڑے جائو تو پیسے دے کر چھوٹ جائو۔نوازے ہوئے اور پروردہ افسر کی کیا مجال۔ ویسے بھی مل کر کھانے والوں نے کب کسی کو کرپشن میں سزا ہونے دی ہے۔ چوروں کو تحفظ دینے والے چوروں نے کرپشن کو جرم کے بجائے رواج تو بنا ہی ڈالا ہے۔
کیا حزبِ اقتدار‘ کیا حزبِ اختلاف‘ کیا حریف‘ کیا حلیف سبھی کے دلوں میں نہ صرف لڈو پھوٹ رہے ہیں بلکہ یہ بغلیں بھی بجاتے پھرتے ہیں۔لاکھ اختلافات کے باوجود نیب قوانین کے دھڑن تختے پر سب شاداں اور مطمئن ہیں کہ ان کی لوٹ مار کو قانونی تحفظ مل رہا ہے۔ یوں تو مملکتِ خداداد کے سبھی حکمرانوں اور اشرافیہ کی بد اعمالیوں کی انگنت داستانیں منظر عام پر آچکی ہیں‘ لوٹ مار اور نفسانفسی کے اس گھمسان میں نہ کسی حکمران نے کوئی لحاظ کیا اور نہ ہی کسی منصب دار نے۔ ایسا اندھیر مچائے رکھا کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف نظر آرہا ہے۔ ٹریفک سگنل سے لے کر آئین اور قانون تک‘ بلند بانگ دعووں سے لے کر عہدوپیمان تک‘ ان لوگوں نے کیا کچھ نہیں توڑا۔ جس معاشرے میں قیادت کی دیانت پر سوالیہ نشان لگ جائے تو کیسی حکومتیں اور کیسی قیادتیں؟
دورِ حکومت نواز شریف کا ہو یا بینظیر کا‘ پرویز مشرف کا ہویا آصف علی زرداری اور عمران خان کا۔درآمدی وزرائے اعظم معین قریشی اور شوکت عزیزسے لے کر موجودہ حکمرانوں تک‘ کون کیا ہے‘ کہاں سے آیا ہے‘ کیسے آیا ہے اور کس مقصد سے آیا ہے‘ یہ حقیقتیں اب ظاہر ہو چکی ہیں‘ تو پھر کیسا میرٹ اور کہاں کی گورننس؟ باریاں لگی ہوئی ہیں‘ عوام دربدر اور زندہ درگور نظر آتے ہیں۔اس منظر کا پس منظر کون نہیں جانتا۔ کسے نہیں معلوم کہ اس بخت کی سیاہی بے کس اور لاچار عوام کے منہ پر کس نے ملی ہے؟ یہ تاریکیاں اور اندھیرے کئی دہائیوں سے عوام کا کیوں مقدر بنے چلے آرہے ہیں۔ احتسابی عمل سے خائف کیا حریف کیا حلیف‘ سبھی باہمی مفادات کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو کر نیب کے خلاف متحد نظر آتے ہیں۔موجاں ای موجاں!بلے بلے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved