پنجاب میں لاکھوں لوگ کھانا کھائے
بغیر سوتے ہیں: راجہ پرویز اشرف
سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''پنجاب میں لاکھوں لوگ کھانا کھائے بغیر سوتے ہیں‘‘ اور یہ حفظانِ صحت کے لیے ضروری بھی ہے کیونکہ رات آرام کرنے کے لیے ہوتی ہے اور معدے کو بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے، نیز پیٹ بھر کر کھانا کھا کر سونے سے برے برے خواب بھی آتے ہیں، علاوہ ازیں اگر دوپہر کو کھانا بھرپور طریقے سے کھایا گیا ہو تو رات کو کھانا کھانے کی ویسے بھی ضرورت نہیں رہتی اور آدمی ہلکا پھلکا رہتا ہے بلکہ زیادہ تنومند اور چاق و چوبند رہنے کے لیے تو دوپہر کو بھی زیادہ کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے جبکہ بھوکا بٹیر ویسے بھی زیادہ لڑتا ہے، اس قول پر بھرپور طریقے سے عمل کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز ایس ڈی جیز کے زیر اہتمام منعقدہ کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اختلاف ایک طرف رکھ کر غریب کی
بھلائی کا سوچیں: چودھری شجاعت
سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''اختلاف ایک طرف رکھ کر غریب کی بھلائی کا سوچیں‘‘ کیونکہ میں نے بھی حمزہ شہباز کی مدد اسی لیے کی تھی کہ حکومت سے الگ ہو کر تو وہ بالکل بے اختیار ہو گئے تھے اور میں نے ویسے بھی کئی بار ان کی مدد کی تھی کیونکہ قدرت نے اگر آپ کو کچھ عطا کیا ہے تو اس میں سے دوسروں کی مدد کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے لیکن عاقبت نااندیش لوگوں نے ایک بار پھر انہیں حکومت سے الگ کر دیا ہے جس پر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے اور جسم میں خون کی مقدار بہت کم رہ گئی ہے جبکہ تقاضائے عمر کی وجہ سے میرے جسم میں خون کی پہلے ہی بے حد کمی ہو چکی ہے جس پر میں ہروقت فکرمند رہتا ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اگر نواز شریف کی سزا ختم نہیں کرا سکتے
تو یہ کیسی حکومت ہے: جاوید لطیف
وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نواز کے رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''اگر نواز شریف کی سزا ختم نہیں کرا سکتے تو یہ کیسی حکومت ہے؟‘‘ کیونکہ اس حکومت نے اپنے خلاف کئی مقدمات ختم کرائے ہیں‘ نواز شریف کی طرف اس کا دھیان نہ جانا افسوسناک ہی نہیں، شرمناک بھی ہے حالانکہ کئی اہم سیٹوں پر بندے بھی اپنی مرضی کے لگوا لیے گئے ہیں اور فائلیں غائب کرنا اور انہیں خاکستر کر دینا بھی بائیں ہاتھ کا کرتب ہے لیکن اس معاملے میں حکومت نے اپنے بائیں ہاتھ کو زحمت ہی نہیں دی جبکہ یہ کام وہ بڑی آسانی سے کر سکتی تھی اور یہ بھی نہیں سوچا کہ نواز شریف اس انتظار میں مزید بوڑھے ہو رہے ہیں، اگرچہ بزرگی میں اضافہ ان کے مزید برگزیدہ ہونے ہی کی نشانی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عہدوں کے لیے نہیں، میری سیاست
مخلوقِ خدا کی خدمت کے لیے ہے: حمزہ شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''عہدوں کے لیے نہیں، میری سیاست مخلوق خدا کی خدمت کے لیے ہے‘‘ اور یہ جذبہ مجھے ورثے میں ملا ہے جو تایا جان اور والد صاحب سے ہوتا ہوا مجھ تک پہنچا ہے جنہوں نے مخلوقِ خدا کی خدمت کے ایسے ابنار لگائے تھے کہ زرداری صاحب کے علاوہ اس کی پورے ملک میں مثال بھی نہیں ملتی؛ اگرچہ زرداری صاحب پوری خدمت کو سنبھال نہیں سکے لیکن ہم نے ابھی تک اپنی خدمت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی اور عوامی خدمات کا یہ باغ اُسی طرح مہک اور لہلہا رہا ہے کیونکہ اس باغ کی باغبانی جس طرح وہ خود کر سکتے ہیں، کسی ایرے غیرے کے بس کی بات نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ا پنی رہائش گاہ پر گورنر پنجاب سے ملاقات کر رہے تھے۔
نظم (پنجابی)
یہ گزشتہ سال جولائی تا ستمبر شائع ہونے والی پنجابی نظموں کا انتخاب ہے جو ماہنامہ ترنجن لاہور میں شائع ہوئی ہیں جو چیف ایڈیٹر ڈاکٹر صغرا صدف کی ادارت میں شائع ہوتا ہے اور جس کی مجلسِ مشاورت میں خاکسار کے علاوہ انور مسعود، مشتاق صوفی، پروین ملک، مسرت کلانچوی، ڈاکٹر جمیل احمدپال، ڈاکٹر نبیلہ رحمن، ڈاکٹر سید خاور بھٹہ اور اقبال قیصر شامل ہیں جبکہ ایڈیٹر خاقان حیدر اور معاون ایڈیٹر قاری عیاض احمد ہیں۔ نظم نگاروں میں چیدہ چیدہ نام یہ ہیں: غلام حسین ساجد، اقتدار جاوید، ڈاکٹر ناصر بلوچ، ڈاکٹر اختر شمار، فرحت عباس شاہ، نیلما ناہید درانی، انجم سلیمی، بشریٰ اعجاز، پروین سجل، افضل ساحر، انجم قریشی، عامر سہیل اور خاقان حیدر غازی۔ پیش لفظ ''مڈھلی گل‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر صغرا صدف نے لکھا ہے۔
اور‘ اب اسی جریدے میں شائع ہونے والی غلام حسین ساجد کی ایک پنجابی نظم:
پتھر
مینوں پیڑ نئیں ہوندی
بھانویں کوئی راہ پئے نوں گھر اپڑن نہ دیوے
بھانویں کوئی کولہو پیڑے نویں بہار دے بچڑے
بھانویں گاہلاں کڈّھے میرے پیو دادے نوں
بھانویں کوئی پھیتی پھیتی کر کے میرے تِھگڑے
اپنیاں جُتیاں چھنڈن پاروں ٹاکی پیا بناوے
بھانویں کوئی ہسدا آوے
مُڑ کے روندا جاوے
بھانویں کوئی کرماں آلی موت نوں گل پیا لاوے
کیوں جے جِتھے میں راہندا آں
نِت ایہو ورتارا
کُوڑی عِزت، کُوڑی غیرت
کُوڑا کُوڑ پسارا
جُوٹھے ہاسے دے بھرواسے
کر دے سُکھ دا چارا
ایہو جیہی وسّوں اندر کیوں کریے من گاہرا
مینوں پیڑ نئیں ہوندی
آج کا مقطع
ظفرؔ اس پر اثر تو کوئی ہوتا ہے نہ ہو گا
تو پھر یہ روز کا بننا سنورنا کس لیے ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved