پاکستان آئینی طور پر ایک پارلیمانی جمہوریت ہے۔ ملک میں کثیر جماعتی پارلیمانی نظام ہے‘ جس کی بہت سی روایات برطانیہ کے ویسٹ منسٹر پارلیمانی نظام سے مستعار لی گئی ہیں۔ آزاد اور خود مختار عدلیہ کا تصور اور نظام بھی بنیادی طور پر برطانیہ ہی سے آیا ہے۔ آزاد عدلیہ کا تصور کوئی نیا تصور نہیں ہے۔ دنیا میں یہ ضرورت اور مطالبہ صدیوں سے موجود ہے۔ آزاد عدلیہ کی اس طویل کہانی کا آغاز تقریباً تین سو سال پہلے ہوتا ہے۔ تین سو سال قبل برطانیہ میں ایک ایسا مقدمہ سامنے آیا جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ تاریخ کا یہ دھارا ان ممالک کے لیے بھی بدل گیا جنہوں نے برطانوی پارلیمانی نظام کو اپنے نظام حکومت کے طور پر اپنایا۔
1692ء کا یہ مقدمہ' نولز ٹرائل‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ برطانوی ہاؤس آف لارڈز نے اس مقدمے کے دو جج حضرات چیف جسٹس ہالٹ اور جسٹس ایری کو ہاؤس آف لارڈز کی ایک کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنے فیصلے کی وضاحت کرنے کا حکم دیا۔ دونوں جج حضرات کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے؛ تاہم انہوں نے اپنے فیصلے کی مزید وضاحت کرنے یا اس کی وجہ بتانے سے انکار کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے آج تک نہیں سنا کہ کسی جج سے یہ کہا گیا ہو کہ وہ اپنے دیے گئے فیصلے کی وجہ بتائے۔ میں قانونی طور پر ہاؤس آف لارڈز کی اس کمیٹی کے اس مطالبے کا پابند نہیں ہوں۔ جج نے یہ مؤقف اپنی خصوصی حیثیت یا بطور جج خود کو حاصل شدہ استثنا کے تحت نہیں اختیار کیا بلکہ انہوں نے اپنے ایک ایسے فیصلے کی وضاحت یا صفائی پیش کرنے سے انکار کر دیا جو حاکمِ وقت کو پسند نہیں تھا۔ دوسرے الفاظ میں جج نے حکمرانوں کے سامنے اپنی آزاد حیثیت اور اختیارات کو سرنڈر کرنے سے انکار کر دیا۔ ان دو جج حضرات نے یہ کام ایک ایسے دور میں کیا‘ جب بادشاہ سے اختلاف رکھنے والوں کو لندن ٹاور میں قید کیا جاتا تھا یا ان کا سر قلم کیا جاتا تھا۔ ان جج حضرات نے محسوس کیا کہ اگر انہوں نے انکوائری ٹریبونل کو وضاحت پیش کی تو ان کی اپنی آزادی اور آنے والے ججوں کی آزادی ختم ہو جائے گی۔ ان ججوں کے حرفِ انکار سے عدالتی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس انکار کے نتیجے میں آگے چل کر 1701ء کا ایکٹ پاس ہوا۔ اس ایکٹ کے تحت برطانوی ججوں کی خود مختاری اور آزادانہ حیثیت کو باقاعدہ قانون کا حصہ بنایا گیا۔ اس وقت تک برطانیہ میں ججوں کی تقرری اور خدمات جاری رکھنے کا انحصار بادشاہ کی مرضی اور خوشنودی پر تھا۔ اس ایکٹ کے تحت ججوں کی تقرری‘ تنخواہ اور ان کی ملازمتوں کے تحفظ کی قانونی ضمانت فراہم کی گئی۔ اگلی تین دہائیوں کے دوران آزاد عدلیہ کے تصور کا دائرہ کار شمالی امریکہ تک پھیلایا گیا اور شمالی امریکہ کی برطانوی نوآبادیوں میں بھی ججوں کی آزاد و خودمختار حیثیت کی قانونی ضمانت فراہم کی گئی۔ اسی اصول و قانون کے زیر اثر برطانیہ سے آزادی کے بعد امریکہ اور کینیڈا میں ججوں کو آزادی اور خود مختاری کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا۔
اس نئے ایکٹ کے تحت جو اصول تسلیم کیے گئے ان کے مطابق پہلی چیز مدتِ ملازمت کا تحفظ تھا۔ ایک دفعہ ایک جج کا تقرر ہو گیا تو حکومت کا اس بات پر کوئی اختیار نہیں رہتا کہ وہ جج کتنا عرصہ تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا۔ بیشتر ممالک میں ایک جج تقرری کے بعد ریٹائرمنٹ تک اپنے عہدے پر فائز رہ سکتا ہے۔ اگر کسی ناگزیر اور معقول وجہ سے کسی جج کو ہٹانا پڑ جائے تو اس جج کو ہٹانے کا باقاعدہ طریقہ کار بھی قانون میں درج ہوتا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت دوسرا اصول معاشی تحفظ کا تسلیم کیا گیا۔ کسی بھی سماج میں عدلیہ کی آزادی کے لیے ججوں کو معاشی سکیورٹی فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کامن لاء میں شامل بیشتر ملکوں میں ججوں کی تنخواہ اور مراعات کی جانچ پڑتال کے لیے خود مختار کمیشن بنائے جاتے ہیں۔ ججوں کے معاوضے اور ان کے معاشی تحفظ کے لیے ایسا ٹھوس اور پُرکشش بندوبست کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اچھے قانونی دماغ اور باکردار لوگ اس پیشے کی طرف آتے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کی کہانی کا سب سے اہم حصہ ججوں کی انتظامی اور فیصلہ کرنے کی آزادی ہے۔
آزاد عدلیہ کا مطلب یہ ہے کہ جج ہر قسم کے بیرونی دباؤ سے آزاد ہوں۔ خصوصی طور پر حکومت کی دوسری دو شاخوں یعنی انتظامیہ اور مقننہ کے دباؤ سے محفوظ ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ جج حضرات خود اپنے ادارے کے دباؤ اور نا جائز اثر سے بھی آزاد ہوں۔ عدالت کا انتظام و انصرام اور کام کرنے کا طریقہ کار اس طرح طے کیا جائے کہ اسے بیرونی اثر سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اگرچہ بیشتر ممالک میں حکومتیں نظامِ انصاف کو چلانے کے اخراجات ادا کرتی ہیں‘ لیکن ان کا اس بات پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا کہ جج کیسے کام کرتے ہیں یا کون سا جج کون سے کیس کی سماعت کرتا ہے اور سماعت کب ہوگی۔ اس سلسلے میں عدالت اپنی پالیسیوں اور طریقہ کار کا خود تعین کرتی ہے‘ سینئر جج پورے عدالتی عمل کو سپروائز کرنے کے باوجود فیصلے کے عمل کو متاثر نہیں کر سکتے‘ کیو نکہ دوسرے ساتھی ججز کے اثر و رسوخ سے آزاد ہونا بھی ایک آزاد عدلیہ کی بنیادی شرط ہے۔
انتظامی آزادی کا سوال آزاد عدلیہ کے باب میں اہم ترین سوال ہے۔ اس سوال پر کامن لاء کے بیشتر ممالک میں جو اصول طے ہیں ان میں پہلا یہ ہے کہ مقدمات کی سماعت کے لیے جج کا انتخاب‘ سماعت کا شیڈول‘ مقدمات کی فہرست جن کی سماعت کی جانی ہے‘ کورٹ روم الاٹ کرنا اور دوسرے تمام فریضے عدالت کے اپنے کنٹرول میں ہونے ضروری ہیں۔ آزاد عدلیہ کے لیے ضروری ہے کہ جج حضرات فیصلے کرنے میں آزاد ہوں اور ان پر کسی قسم کا اثر یا دباؤ نہ ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جج حضرات دباؤ ڈالنے والی تمام قوتوں یعنی حکومت‘ سیاستدانوں‘ لابی کرنے والے گروہوں‘ صاحبِ اختیار اداروں یا اشخاص‘ رشتہ داروں‘ ہمسایوں‘ مقد مے میں دلچسپی رکھنے والے فریقوں‘ دوسرے ساتھی ججوں‘ چیف جسٹس‘ جوڈیشل باڈیز‘ بار ایسوسی ایشنز اور وکلا تنظیموں سے آزاد ہوں۔ اس کے علاوہ ظاہر ہے جج حضرات کو کسی قسم کے سول یا فوجداری مقدمات سے بھی تحفظ حاصل ہونا ضروری ہے تاکہ ججوں کے اپنے فرائض کی انجام دہی کے نتیجے میں ان کے خلاف مقدمات نہ قائم ہوں۔ جب اس طرح کا معیار اور سہولتیں میسر ہوں تو ججز ہر قسم کے خوف‘ دباؤ‘ فکر و اندیشے سے آزاد ہو کر قانون اور ثبوت کی بنا پر فیصلے کرتے ہیں۔ ان کے فیصلوں کے خلاف اپیل ہو سکتی ہے‘ جو فیصلے میں غلطی کی درستی کا ایک مستند طریقہ کار ہے۔
پاکستان کا نظامِ انصاف فی الوقت اس طرح کی سہولتوں اور تحفظ سے بہت دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی شخصیات اور بااثر ادارے عدلیہ پر دباؤ ڈالنے یا اس کی آزادی پر اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ججز بھی تقرری کے طریقہ کار سے لے کر معاشی تحفظ‘ ملازمت کا تحفظ اور ریٹائرمنٹ کے بعد کی مراعات اور حاصل ہونے والے فوائد کے حوالے سے واضح پالیسیوں اور قوانین کی عدم موجودگی میں اپنی اور عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال پاکستان میں کے آئین اور قانون میں ایسی ترامیم کی متقاضی ہے جو ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ کے قیام کو یقینی بنا سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved