تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     23-08-2013

پاکستان کی ساس‘ صدارت کی راہ پر

ہلیری راڈم کلنٹن 21اکتوبر 2011ء کو بطور امریکی وزیر خارجہ اسلام آباد میں تھیں۔ خواتین کے ایوان تجارت ’خیبر پختونخوا ‘ کی نمائندگی کرتے ہوئے شمامہ نے کہا: ’’ہم سب جانتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے سارے پاکستان کو اس کے نتائج کا سامنا ہے پھر بھی ہم امریکہ کے ساتھ تعاون کی کوشش کر رہے ہیں اور امریکہ اس ساس کی مانند ہے جو ہم سے مطمئن نہیں ہے ۔ ہم آپ کو خوش کرنے کی کوشش میں ہیں مگر آپ لوگ جب بھی آتے ہیں آپ کے پاس ایک نیا خیال ہوتا ہے اور آپ ہمیں بتاتے ہیں تم کافی کام کر رہے ہو مگر اس سے زیادہ محنت کی ضرورت ہے‘‘۔ اس پر طویل قہقہہ پڑا۔ مسز کلنٹن ہنستے ہنستے بے حال ہو رہی تھیں۔ وہ بولیں‘ میں چونکہ ساس ہوں اس لئے خاتون کے تناظر سے وابستہ ہو سکتی ہوں ۔ایک سال پہلے ہلیری اور سابق صدر بل کلنٹن کی واحد اولاد چیلسی کی شادی ہو گئی تھی ۔ امریکی وزیر خارجہ نے شمامہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’اب جب کہ میں خود ساس ہوں میں آپ کی بات اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آئندہ خلوت اور جلوت میں بہتر کام کروں گی ۔میں ذاتی طور پر باور کرتی ہوں کہ یہ رشتہ نازک اہمیت کا حامل ہے ’ ہم دونوں کے لئے اہم ہے اس لئے ہم اسے ترک نہیں کر سکتے‘‘۔ سب آثار بتاتے ہیں کہ مسز کلنٹن جنہوں نے صدارتی انتخاب کے لئے ڈیمو کریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے حصول کے لئے بارک حسین اوباما کو زور دار مگر ناکام چیلنج کیا تھا‘ 2016ء میں یہ ٹکٹ پا لیں گی اور امریکی رائے دہندگان ایک سیاہ فام کو صدر چننے کے بعد اپنے ووٹ ایک عورت کی جھولی میں ڈال دیں گے ۔اب تو سابق ریپبلیکن صدر بش کی صاحبزادی جینا نے بھی ان کی حمایت کردی ہے ۔ملک کی صدارت کے لئے ایک کالے کے بعد ایک گوری عورت کے انتخاب میں امریکہ پہل کرے گا مگر اسے اولیت حاصل نہ ہوگی کیونکہ ایشیا میں عورتوں کی حکمرانی کا رواج عرصہ پہلے شروع ہو چکا ہے؛ تاہم پاکستان میں بے نظیر بھٹو اور سری لنکا میں مسز بندرا نائیکے تقریباً ناکام ہی رہیں۔ محترمہ بھٹو ‘ وزیر اعظم کے مکمل اختیار کے انتظار میں قتل ہوئیں اور مسز بندرا نائیکے خانہ جنگی سے نبٹنے سے قاصر‘ دیکھنا یہ ہے کہ مسز کلنٹن ’’دنیا کو بچانے‘‘ کا خواب جو کالم نویس کیتھلین پارکر نے دیکھا ہے پورا کر سکیں گی ؟ مسز کلنٹن کی خوش نصیبی سے ڈیمو کریٹک پارٹی کے پاس ان کے سوا کوئی صدارتی امیدوار نہیں اور بیشتر اخبارات ان کی حمایت کر رہے ہیں ۔نائب صدر جو بائڈن جو پارٹی ٹکٹ کے لئے ان کے مد مقابل ہو سکتے ہیں تین سال بعد 73 کے پیٹے میں ہونگے جب کہ مسز کلنٹن کی عمر صرف 68 سال ہو گی جو امریکی معیاروں کے مطابق fitیا پختہ کار ہونے کی علامت ہے ۔ ابھی سے وہ ایک صدارتی امیدوار کی طرح بولتی اور چلتی ہیں ۔ امریکی معاشرے میں قانون کے کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے حق رائے دہی کے قانون کا بھرپور دفاع کیا اور کہا کہ کچھ ریاستیں بے جا تفریق و امتیاز کے گڑے مردے اکھاڑ رہی ہیں ۔غالباً فلوریڈا میں ایک کالے لڑکے کی ہلاکت کا اعتراف کرنے والے ایک گورے نوجوان کی بریت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔ ’’کوئی بھی جو یہ کہتا ہے کہ نسلی تفریق و امتیاز اب امریکی انتخا بات کا مسئلہ نہیں رہا‘ لازمی طور پر (حقائق سے ) بے خبر ہے‘‘۔ یاد رہے کہ مسٹر اوباما زیادہ تر سیاہ فام اور لاطینو ووٹروں کی حما یت سے صدر ہوئے تھے۔ مسز کلنٹن کو ان کے ساتھ بھاری تعداد میں سفید فام ووٹ ملنے کی بھی امید ہے۔ ابھی تک کوئی ری پبلکن امیدوار‘ میدان صدارت میں نہیں آیا ۔ پاکستانی والدہ اور ہندوستانی والد کی اولاد ہما محمود عابدین کا‘ جو ہلیری کلنٹن کی معاون ہیں‘ المیہ بھی کلنٹن کے لئے ہمدردی کی نئی لہر کا ضامن ہو گا ۔پاکستان کے دورے میں ہما بطور ایڈ ان کے ہم رکاب تھیں ۔ہما کے والدین پی ایچ ڈی اساتذہ تھے ۔ وہ کلامازو مزوری میں پیدا ہوئی تھیں۔2010ء میں ٹائم میگزین نے ہما کو ابھرتے ہوئے چالیس سیاسی لیڈروں کی فہرست میں رکھا ۔ اسی سال دس جولائی کوانہوں نے انطنی وینر سے شادی کی جونیو یارک سے امریکی ایوان نمائندگان کے رکن تھے ۔ بل کلنٹن نے ایجاب و قبول کی تقریب کی صدارت کی۔ گزشتہ سال جب ایسے انکشافات منظر عام پر آئے کہ وینر نے انٹر نیٹ کے ذریعے اپنی قابل اعتراض تصویر یں ایک عورت کو ارسال کی تھیں تو وہ ایوان کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے مگر ہما نے جو اب ایک بچے کی ماں بن چکی تھیں شوہر کو طلاق نہ دینے کا فیصلہ کیا اسی طرح جیسے مونیکا لیونسکی سے صدر کلنٹن کے تعلقات طشت از بام ہونے کے باوجود ہلیری نے ان سے اپنی شادی بر قرار رکھی تھی۔ مسز کلنٹن نے ریاست نیو یارک سے سینٹ کا الیکشن لڑا اور کامیاب رہیں۔ اگلے روز جب وینر‘ نیو یارک کی میئر شپ کے لئے اپنی انتخابی مہم کو بڑھاوا دینے کے لئے ایک پریس کانفرنس میں آئے تو ہما ان کے ساتھ تھیں اور اخبار نویسوں کے سوالوں کے دباؤ میں جب وینرنے یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنی کچھ تصویریں بعض دوسری عورتوں کو بھی بھیجی تھیں تووہ بُری طرح خفیف ہوئیں اور وینر کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آنے لگا۔ مسز کلنٹن کی مقبولیت کا گراف اوپر جا رہا ہے۔ امریکہ میں الیکشن پیسے کا کھیل ہے ۔ہلیری کلنٹن کے مدا حوں اور دوستوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ وہ جب چاہیں گی ایک ملین ڈالر ان کے قدموں میں ڈال دیا جائے گا۔ ایک انتخابی تنظیمReady for Hillary ان کے لئے چندہ جمع بھی کر چکی ہے۔ عورتوں کے انتخاب کو فروغ دینے والی جماعت Emily‘List عملاً ان کی حمایت کا اعلان کر چکی ہے ۔وہ پہلی امریکی عورت ہیں جنہیں لا سکول سے فارغ ہونے پر جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرنے کا اعزاز دیا گیا ۔بل کلنٹن ان کے کلاس فیلو تھے۔ بارک اوباما انہیں شکست دینے کے بعد جب صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے سینیٹر ہلیری کلنٹن کو اپنا سیکرٹری آف سٹیٹ (وزیر خارجہ) مقر رکیا اور خاتون نے اس حیثیت میں نو لاکھ 56 ہزار 733 میل سفر کیا ۔یہ دنیا کے گرد 38 بار چکر لگانے کے برابر تھا ۔ فلسطینی اور اسرائیلی مذاکرات کی میز پر واپس آگئے ہیں جو ہلیری کلنٹن کے جانشین جان کیری کی بھاگ دوڑ کا ثمر سمجھا گیا ہے ۔اگر ان مذاکرات کے نتیجے میں کوئی سمجھوتہ ہوا تو اسے اوباما حکومت کے دوسرے دور کا کار نامہ تصور کیا جائے گا اور ان کی حکومت کے پہلے دور میں جو کوشش مس کلنٹن نے کی وہ رائگاں جائے گی ۔مسٹر کیری بھارت اور پاکستان پر بھی مذاکرات کے ذریعے باہمی اختلافات دور کرنے اور اپنے عوام کی حالت کو پہتر بنانے پر زور دے چکے ہیں ۔ ا گر نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران نواز شریف اور من موہن سنگھ کی ملاقات ہوتی ہے اور پاکستان اور بھارت کے مابین حالات کو معمول پر لانے پر اتفاق ہو جاتا ہے تو اسے بھی کیری ڈپلومیسی کا پھل تصور کیا جائے گا ۔اگر ہلیری کلنٹن امریکہ کی صدر بنتی ہیں تو نواز شریف بدستور پاکستان کے وزیر اعظم ہونگے اور امریکہ کو پاکستان کی جھگڑالوُ ساس ہونے کے تصور سے نجات دلانے کا وعدہ پورا کرنا کلیتاً خاتون کے ہاتھ میں ہو گا ۔سر دست ہلیری کلنٹن کو اپنے پیغام کو صیقل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کے لئے محض کلنٹن اور عورت ہونا کافی نہیں ہو گا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved