وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا عمل صوبائی اسمبلی سے زیادہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ بحث رہا، لیکن ہم اس حوالے سے عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت رہنے والے کیسز کے آئینی و قانونی پہلوئوں اور میرٹس پر ہرگز بات نہیں کریں گے کیونکہ ایک تو ملک کی سب سے بڑی عدالت اس حوالے سے اپنا فیصلہ صادر کر چکی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں قانونی پیچیدگیوں کی زیادہ سمجھ نہیں‘ اس لیے آج کالم میں صرف سیاسی بات ہو گی۔ آئین، جمہوریت اور اداروں کے تقدس کی بات کی جائے گی۔ مرکز میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئی وفاقی حکومت کی تشکیل میں تو زیادہ رکاوٹیں حائل نہ ہوئیں اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اتحادی جماعتوں کے تعاون سے وزیراعظم پاکستان بن گئے دوسری جانب ملک کے سب سے بڑے صوبے‘ پنجاب میں وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار مستعفی ہوئے اور نئے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کی باری آئی تو ہماری قومی سیاست میں اصل ہلچل شروع ہوئی۔ سب سے پہلے مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کی اتحادی جماعتوں نے پی ٹی آئی کا زور توڑنے کے لیے چودھری پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلیٰ کی پیشکش کی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ چودھری صاحب نے یہ پیشکش قبول بھی کر لی تھی۔ ایک دوسرے کو اس پر مبارکبادیں دی گئیں اور مٹھائی بھی کھلائی گئی لیکن اگلے ہی روز پرویزالٰہی صاحب اور ان کے صاحبزادے مونس الٰہی نے اپنا سیاسی وزن عمران خان کے پلڑے میں ڈال دیا جس پر پی ڈی ایم نے حمزہ شہباز شریف کو اپنا امیدوار نامزد کر دیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوئی تو پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) نے اس کا بائیکاٹ کر دیا جبکہ پی ٹی آئی کے پچیس منحرف اراکینِ صوبائی اسمبلی نے حمزہ شہبازشریف کو ووٹ دے دیا جس پر حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر وزیراعلیٰ بن گئے، لیکن بعد ازاں پی ٹی آئی نے منحرف ایم پی ایزکے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کر دیا اور الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے کے تشریحی فیصلے کی روشنی میں منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کر دیا۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہو گا‘ اس پر پی ٹی آئی نے دوبارہ عدلیہ سے رجوع کیا جہاں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے متفقہ طور پر منحرف اراکین اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی الیکشن کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب پر آمادگی ظاہر کی۔ اس بار پھر مقابلہ چودھری پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز کے مابین ہی تھا۔ 17 جولائی کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے واضح اکثریت حاصل کی۔ اب 22 جولائی کو دوبارہ انتخاب ہوا تو پرویز الٰہی کو پی ٹی آئی اور (ق) لیگ کے اراکین کے 186 جبکہ حمزہ شہباز کو (ن) لیگ اور اتحادیوں کے 179 ووٹ ملے؛ تاہم ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کے ایک خط کی بنیاد پر (ق) لیگ کے 10 ووٹ مسترد کرکے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب قرار دینے کی رولنگ دی جسے چودھری پرویز الٰہی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ حکمران اتحاد نے فل کورٹ کی استدعا کی جو مسترد ہو گئی اور پھر اسی بینچ نے چودھری پرویزالٰہی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا۔ عدالت نے (ق) لیگ کے دس ووٹ بحال کر کے چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب قرار دے دیا۔
گزشتہ تین ماہ سے پنجاب میں چل رہے سیاسی بحران کا یہ مختصر خلاصہ ہے۔ اس دوران مقابل گروہوں کی جانب سے عدلیہ سمیت قومی اداروں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔ ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے مرضی کے خلاف فیصلہ آنے پر عدالتوں پر تنقید کی گئی۔ چوبیس گھنٹے وطن عزیز کی اندرونی و بیرونی حفاظت پر مامور پاک فوج کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا، پارلیمنٹ اور سیاستدان تو سب سے آسان ٹارگٹ سمجھے جاتے ہیں لیکن جب سے سوشل میڈیا نے پاکستان میں اپنے قدم جمائے ہیں‘ یہ روایت کچھ زیادہ ہی پختہ ہو گئی ہے۔ پہلے تنقید میں کسی بودی یا کمزور دلیل سے کام لیا جاتا تھا، کچھ تہذیب کے دائرے میں رہ کر اختلاف کرتے تھے، اداروں کے تقدس کو قومی غیرت اورحرمت سے جوڑا جاتا تھا اور تنقید کرنے والے الفاظ کا چنائو کرتے وقت اپنی شخصیت کا بھی خیال رکھتے تھے، لیکن اب کون سا لحاظ اور کون سی شخصیت؟ سوشل میڈیا کی تیزی‘ خصوصاً 2017ء کے بعد سے ہر کسی نے اداروں پر چڑھائی کو سستی شہرت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ جسے آئین و قانون سے واجبی سی بھی واقفیت نہیں‘ وہ بھی پاک فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ اور دیگر اہم قومی اداروں پر حملے کر رہا ہے۔ تہذیب کا خیال یا الفاظ کا چنائو تو بہت دور کی بات‘ اب تو ایسی ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے کہ پڑھنے والے بھی شرما جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جعلی اکائونٹس ایسے کاموں کیلئے زیادہ استعمال ہوتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان بھی اب کسی سے پیچھے نہیں۔ اگر تمام قومی ادارے آئین اور قانون کے مطابق اپنی اپنی حدود اور اپنے دائرۂ کار میں رہیں تو کبھی ٹکرائو کی کیفیت پیدا ہی نہ ہو، لیکن ہر طرف سے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہو جاتا ہے جو دوسروں کے لیے اشتعال کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے سیاستدان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ادارے ان کے اختیارات میں مداخلت کرتے ہیں، پہلے یہ الزام مقتدرہ پر زیادہ لگتا تھا لیکن ماضی قریب کے تجربات نے ثابت کیا کہ مقتدرہ نیوٹرل ہے۔ یہاں یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ملک اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے اور تمام اداروں پر پہلے سے زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ملک میں معاشی عدم استحکام کے ساتھ سیاسی بحران بھی عروج پر ہے اور سیاستدان خود ہی ہر معاملے کو عدلیہ کے پاس لے کر جاتے ہیں اور جب فیصلہ مرضی کا نہ ہو تو عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ ہم نے پہلے کہا کہ ہم وزیراعلیٰ پنجاب والے کیس پر بات نہیں کریں گے کیونکہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آ چکا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی ہو چکا ہے، ہم اس اہم ترین ادارے پر ہونے والی تنقید پر بات کرتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر نے فیصلہ آنے پر سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز دی ہے۔ ٹویٹر پر انہوں نے لکھا کہ ارکان پارلیمنٹ اور پی ڈی ایم اگر واقعی اختیارات کے توازن کو بحال کرنے کی فکر کرتے ہیں تو آرٹیکل 191 کو پڑھیں اور فیصلہ کن عمل کریں، یا شکایات کرنا بند کریں۔ ایک نیا سیاسی بیانیہ بنایا جا رہا ہے، پارلیمنٹ نہیں آئین سپریم ہے حالانکہ آئین کی تشریح وہی ہے جو عدالتِ عظمیٰ کرتی ہے۔ جو سپریم کورٹ آف پاکستان کہتی ہے۔ طاقت کو منتخب لوگوں سے لے کر غیر منتخب عناصر کی جانب منتقل کیا جا رہا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ اس سے متعلق سوچیں اور جاگ جائیں۔ اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف نے بھی ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس میں فیصلہ سنائے جانے سے کچھ دیر قبل ایک ٹویٹ کرتے ہوئے حکومت کو ڈٹ جانے کا مشورہ دیا۔ ان کا کہناتھا کہ حکومت کو چاہیے کہ سخت موقف اختیار کرے اور ڈٹ جائے۔ لیڈر تب بنتا ہے جب وہ مشکل حالات کا سامنا کرتا ہے۔ لیگی رہنما جاوید لطیف نے بینچ کی تشکیل پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ ہم پر الزام تھا کہ ہم نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا‘ پی ٹی آئی والے رات میں سپریم کورٹ (کی لاہور رجسٹری) کی دیواریں پھلانگیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ ان کے جذبات ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالتیں ہمیشہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں جو ہمیشہ ایک فریق کے حق میں اور دوسرے کے مخالف ہوتا ہے۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ایک فیصلہ فریقین کیلئے ایک جیسا ہو، اس لیے سیاستدانوں کو چاہئے کہ عدلیہ سمیت قومی اداروں کا احترام ملحوظِ خاطر رکھیں اور تنقید کرتے وقت کسی ادارے کا تقدس پامال نہ کریں۔ اگر انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ سمیت تمام ادارے ایک دوسرے کا احترام کریں تو اسی میں ملک و قوم کی بہتری ہے اور یہی تمام بحرانوں سے نکلنے کا راستہ بھی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved