تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-07-2022

اصل چھٹی حس

انسان کو اللہ تعالیٰ نے حواسِ خمسہ یعنی پانچ حسوں سے نوازا ہے۔ یہ پانچ حسیں ہیں دیکھنا، سننا، سونگھنا، چھونا اور چکھنا۔ ہم تک اِس دنیا کی جتنی بھی معلومات پہنچتی ہیں اُنہیں پہنچانے والی اور پہچاننے میں ہماری مدد کرنے والی یہ پانچ حسیں ہیں۔ کسی بھی بات کا علم ہمیں یا تو سن کر ہوتا ہے یا پھر دیکھنے سے ہوتا ہے۔ یا پھر ہم کسی چیز کو سونگھ کر اُس کے بارے میں کچھ جان پاتے ہیں۔ اگر یہ تین راستے بند ہوں تو ہم لمس یا پھر ذائقے کے ذریعے کسی چیز کا اندازہ لگاتے ہیں۔ انسان حواسِ خمسہ کے ذریعے جتنی بھی معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اُن کے تجزیے ہی کی بنیاد پر زندگی کا معیار بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ذہن کا بنیادی کام معلومات کا تجزیہ کرکے کسی رائے تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس رائے کی بنیاد پر یہ طے ہوتا ہے کہ دستیاب معلومات کام کی ہیں یا نہیں اور یہ کہ آئندہ اس نوعیت کی معلومات حاصل کرنی چاہئیں یا نہیں۔ ذہن اگر یہ کام ڈھنگ سے کرے تو زندگی ڈھنگ سے گزرتی ہے۔ ذہن کو ڈھنگ سے کام کرنے کا موقع دینے کے لیے لازم ہے کہ اُس تک معلومات حساب کتاب سے پہنچائی جائیں۔ اگر ہم دن رات حواسِ خمسہ کو زحمتِ کار دیتے رہیں تو ذہن پر بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ذہن معلومات کا تجزیہ کرتے وقت زیادہ دشواری اُس وقت محسوس کرتا ہے جب متعلقہ فرد نئی معلومات کے حصول کا سلسلہ جاری رکھے اور فضول معاملات کو بھی ذہن کی طرف دھکیلتا رہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ہمارے کام کا نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہمارے کام کا نہیں اُس میں ذہن کو الجھانا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اگر کوئی شخص دن رات معلومات کے حصول میں مگن رہے تو اُسے اپنے ذہن کا دشمن ہی قرار دیا جائے گا۔ ذہن معلومات کے تجزیے سے فارغ ہی نہ ہو پائے اور تواتر سے آنے والی معلومات میں الجھ کر رہ جائے تو سوچنے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ جب ذہن سوچ ہی نہیں پاتا تو عقل کا معیار گرتا ہے۔ ایسے میں عمومی عقل بھی بروئے کار نہیں لائی جاسکتی۔ پھر عقلِ سلیم کو بھول ہی جائیے۔ ذہن تک پہنچنے والی معلومات کے جامع اور بے داغ تجزیے کی بدولت ہمیں عقلِ سلیم عطا ہوتی ہے۔ عقلِ سلیم یا دانش ہر انسان کا معاملہ نہیں۔ یہ سوچنے اور اُس سے بھی بہت پہلے حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کے تجزیے کا نام ہے۔ اس منزل تک پہنچنے والے کم ہوتے ہیں۔ عام طور پر لوگ حواسِ خمسہ کے ذریعے معلومات کے حصول کی منزل ہی میں اٹک کر زندگی گزار دیتے ہیں۔ معلومات ہمارے لیے کسی کام کی نہیں اگر اُن کا بھرپور تجزیہ کرنے کے بعد اُن سے مطابقت رکھنے والی سوچ کو پروان چڑھاکر منصوبہ سازی نہ کی جائے۔ کسی بھی انسان کے لیے کسی بھی طرح کی معلومات اُسی وقت کام کی ثابت ہوتی ہیں جب اُن کی مدد سے زندگی کا معیار بلند کرنے میں مدد ملے۔ حواسِ خمسہ کے ذریعے معلومات حاصل کرتے رہنے کے عمل کو ذہنی لیاقت کے ماہرین کسی بھی حال میں پسندیدہ قرار نہیں دیتے۔ حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کے تجزیے کی بنیاد پر ہم بہت سے معاملات کو بھانپ لیتے ہیں، کوئی رائے قائم کرتے ہیں اور فیصلے کی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل شدہ معلومات کے تجزیے کی بنیاد پر جو کچھ بھی ہمارے ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے اُسی کو ہم کبھی کبھی چھٹی حِس قرار دے لیتے ہیں۔ چھٹی حِس اگر ہوتی ہے تو بھی اسے پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ حواسِ خمسہ کی مدد سے ملنے والی معلومات کا تجزیہ ہمیں کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے تو ہم کچھ سوچنے کے قابل ہو پاتے ہیں اور کسی معاملے کی تہہ تک پہنچ کر وہ سب کچھ جاننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو ہمارے لیے ضروری ہو۔ اگر ہم مختلف حواس سے ملنے والی معلومات کا فوری تجزیہ کرکے بالکل درست نتیجے تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں تو اِسے چھٹی حس کہا جاتا ہے۔
چھٹی حِس کی تعریف میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے ماحول کو سمجھنے میں کامیاب ہو جائے تو اُسے چھٹی حِس کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو دستیاب معلومات کے برمحل تجزیے کی بنیاد پر کسی بھی ممکنہ صورتِ حال کو بھانپنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ یہ بڑا وصف ہے۔ جو بھی اس وصف کو اپنے اندر پیدا کرنے اور پروان چڑھانے میں کامیاب ہو جائے وہ تیزی سے کامیابی کی طرف بڑھتا ہے۔ کیا ہم صرف چھٹی حِس کی بنیاد پر آگے بڑھ سکتے ہیں؟ کیا ماحول کو سمجھ لینا ہی کافی ہوتا ہے؟ حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ ہی انسان کو کسی قابل بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے؟ اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ حواسِ خمسہ کے ذریعے ملنے والی معلومات کے تجزیے سے اپنے مطلب کی یا کام کی کوئی چیز نکالنا ہمارے ذہن کا انتہائی بنیادی کام ہے مگر تمام معاملات اس منزل تک پہنچ کر ختم نہیں ہو جاتے۔ ماحول میں بھی ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو انسان کے وجود کو مضبوط تر بنانے میں خاصا اہم اور کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بہت سے حالات انسان کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ اگر انسان عقلِ سلیم کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہو جائے تو ماحول کو سمجھنے اور اُس کے مطابق چلتے ہوئے کامیابی کی منزل تک تیزی سے پہنچنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔
ماحول میں ہماری معاونت کرنے والے کئی عوامل ہوتے ہیں مگر عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ اُن کے بارے میں غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور ہر مشکل صورتِ حال کو اپنے لیے محض عذاب سمجھتے ہیں۔ در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ بہت سے مشکل حالات ہمارے لیے مہمیز یا تحریک کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جو لوگ مشکلات کو مثبت سوچ کے ساتھ قبول کرتے ہیں وہ اپنے معاملات کو درست کرنے کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں۔ ہر دور میں کامیاب وہی ہوئے ہیں جنہوں نے کسی بھی مسئلے کو حواس پر سوار کرنے کے بجائے اُسے چیلنج کے طور پر قبول کیا ہے اور اُس سے بطریقِ احسن نپٹنے پر توجہ دی ہے۔ جرمن کہاوت ہے کہ افلاس کو چھٹی حِس کا درجہ حاصل ہے۔ افلاس یعنی مشکل وقت۔ زندگی کے سفر میں انسان کو بہت کچھ سمجھنے کا موقع اُس وقت ملتا ہے جب وہ مالی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ معاشی الجھنیں اُسے شدید ذہنی انتشار سے دوچار کردیتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی معاشی الجھن یا مالیاتی پریشانی کا منفی سوچ کے ساتھ سامنا کرتا ہے۔ جب کسی معاملے کو ایک بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اُس کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے جائیں تو کسی بھی نوع کی پیش رفت کی راہ کیونکر ہموار ہوسکتی ہے؟
کیا مشکلات سے بچنا ممکن ہے؟ ایک بھی انسان ایسا نہیں جسے تقدیر اُس کے حصے کی مشکلات سے نوازتی نہ ہو۔ اور کیوں نہ نوازے؟ یہ مشکلات ہی تو ہیں جن کی بدولت انسان میں کچھ نیا کرنے کا جذبہ بیدار یا پیدا ہوتا ہے۔ اگر کسی کی تربیت منفی خطوط پر ہوئی ہو تو وہ کسی بھی مشکل صورتِ حال کو اپنے لیے عذاب سمجھتا ہے اور یہ اندازہ قائم کرلیتا ہے کہ اُس مشکل صورتِ حال کے بطن سے کوئی بھی اچھی بات برآمد ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ انتہائی نوعیت کی سوچ ہے۔ افلاس اگر انسان کا اپنا پیدا کردہ نہ ہو یعنی حالات کی پیدا کردہ مشکلات اُسے آزما رہی ہوں تو کبھی کبھی بہت کچھ کرنے کی راہ سوجھتی ہے۔ ہم عمومی سطح پر ہر مشکل کو صرف مشکل سمجھتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ وہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ کوئی موقع بھی ہوسکتی ہے۔ قدرت جب کسی کو مشکلات سے دوچار کرتی ہے تو اُس کے ذہن کو متبادل راستوں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور بتاتی ہے۔
افلاس کو ہم چھٹی حِس سمجھیں تو کامیابی کی طرف بڑھنے کی راہ ملتی ہے۔ افلاس یعنی تنگی۔ تنگی ہی ہمیں فراخی کی طرف جانے کی تحریک دیتی ہے۔ راستے میں کانٹے بکھرے ہوں اور اُسی راستے سے گزرنا ہو تو؟ ہم کانٹے ہٹاتے ہیں۔ افلاس کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ اُس سے کتراکر، گھوم پھر کر گزرنا ہمیں مزید مشکلات سے دوچار کرتا ہے۔ تنگی کو کچھ کرنے کی تحریک میں تبدیل کیجیے اور پھر دیکھیے کہ زندگی میں کیسی حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved