پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت قائم ہو چکی ہے اگرچہ چودھری صاحب نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ عمران خان کے کہنے پر وہ فی الفور اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ گورنر پنجاب کو پہنچا دیں گے‘ اور کئی سیاسی مبصرین یہ کہہ رہے تھے کہ چودھری صاحب کی حکومت اگر قائم ہو گئی تو بہت مختصر دورانیے کی ہوگی‘ حمزہ شہباز کی حکومت سے شاید ہی لمبی عمر پا سکے کہ عمران خان اس کے خاتمے پر بضد نظر آتے تھے‘ ان کے تیور یہ بتا رہے تھے کہ وہ پنجاب حکومت کو چین سے بیٹھنے نہیں دیں گے‘ اور جلد سے جلد چلتا کرنے کا فرمان جاری کر دیں گے۔ لیکن اب معاملہ مختلف نظر آ رہا ہے۔ لگ رہا ہے کہ کپتان نے اس معاملے میں بھی ''یو ٹرن‘‘ لے لیا ہے۔ وہ پنجاب میں اپنے ادھورے پراجیکٹ مکمل کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ راوی کنارے نیا شہر بسانے کی آرزو کو ازسرِ نو زندہ کیا جا چکا ہے۔ ہفتے میں دو دن لاہور میںگزارنے کی نوید بھی سنائی جا رہی ہے‘ سن گن یہ ہے کہ چودھری اور خان مل کر پنجاب کا قلعہ مضبوط کریں گے۔ اپنے ارکانِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز فراہم کرکے ان کا ''کلہ‘‘ گاڑیں گے‘ اور گزشتہ غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرکے دکھائیں گے۔ نتیجتاً وفاقی حکومت کو بھی اطمینان کا سانس نصیب ہوگا‘ اور وہ بھی اپنے جوہر آزما سکے گی۔ راوی چین لکھ رہا ہے کہ آنے والے چند ماہ میں صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان کسی بڑے تصادم کا خدشہ نہیں ہے۔
برادرم فواد چودھری یہ خبر دے رہے تھے کہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے پنجاب میں داخلے پر پابندی لگا دی جائے گی۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کارکنوں کے ''مطلوب‘‘ پولیس افسروںکا مکو ٹھپ دیا جائے گا‘ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے گریبانوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا‘ گویا جنگ و جدل کا ماحول برپا ہوگا‘ اور ایک ایک سے گن گن کر بدلے لیے جائیں گے۔ اس پر رانا ثناء اللہ بھی خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے‘ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ کچھ ہوا‘ جس کا دعویٰ (یا وعدہ) کیا جا رہا ہے تو پھر گورنر راج نافذ ہوگا۔ وفاقی حکومت براہِ راست پنجاب کی ذمہ داریاں سنبھال لے گی‘ اور یہاں وہ کچھ کر گزرے گی‘ جو نہیں کیا جانا چاہیے۔ منظر کچھ بدلا ہے تو لگ رہا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اپنی چودھراہٹ پر پہرا دیں گے‘ اپنے مزاج اور اپنی روایات کے مطابق کام کریں گے۔ جو گڑ سے مر سکتا ہو اس پر زہر ضائع نہیں کریں گے‘ ہنستے مسکراتے راستہ بناتے چلے جائیں گے۔ جواں سال مونس الٰہی ان کی طاقت بنے ہوئے ہیں کہ انہی نے اپنے والد کو اس راستے پر ڈالا‘ جس کا نتیجہ عمران خان کی قربت +وزارتِ اعلیٰ کی صورت میں برآمد ہوا۔ چودھری صاحب اگر چودھری شجاعت کے راستے پر چلتے رہتے تو بھی انہیں وزارتِ اعلیٰ تو نصیب ہو ہی جانا تھی کہ مسلم لیگ(ق) کے دس ووٹ مسلم لیگ(ن) کے ووٹوں سے مل کر اکثریت حاصل کر لیتے‘ لیکن عمران خان کی صحبت ہاتھ نہ آتی‘ جو اَب وافر مقدار میں میسر ہوگی‘ مونس الٰہی کا یہ خیال ہے کہ یہ رفاقت آئندہ انتخابات میں بھی کام آئے گی‘ اور اسی کشتی میں بیٹھ کر وہ تلاطم خیز دریا کو بآسانی عبور کر جائیں گے۔ بہرحال یہ بعد کی باتیں ہیں‘ جب حشر کا دن آئے گا‘ اس وقت دیکھا جائے گا‘ فی الحال تو وہ ہو چکا ہے‘ جو مونس الٰہی چاہتے تھے۔ چودھری پرویز الٰہی‘ اور چودھری شجاعت کی سیاست الگ ہو چکی‘ مسلم لیگ(ق) کی صدارت سے چودھری شجاعت کو اور سیکرٹری جنرل کے منصب سے طارق بشیر چیمہ کو الگ کیا جا چکا۔ ممکن ہے چند روز بعد چودھری پرویز الٰہی اپنی پارٹی کی صدارت سنبھالنے کا اعلان بھی کر دیں۔ چودھری ظہور الٰہی شہید کے خانوادے میں جو تفریق پیدا ہو گئی‘ اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ چودھری ظہور الٰہی اور چودھری منظور الٰہی دونوں بھائیوں نے مل کر جس ایمپائر کی بنیاد رکھی تھی‘ اس میں دراڑ کیا شگاف پڑ چکا ہے۔ چودھری وجاہت حسین اور ان کے بیٹے حسین الٰہی اور موسیٰ الٰہی اپنا وزن چودھری پرویز الٰہی کے پلڑے میں ڈالے ہوئے ہیں جبکہ چودھری شجاعت اپنی بیماری اور دو بیٹوں سالک حسین اور شافع حسین کے ساتھ تنہا کھڑے ہیں۔ سالک حسین وفاقی وزیر ہیں‘ شہباز شریف کو طاقت فراہم کر رہے ہیں یا ان سے طاقت حاصل کر رہے ہیں۔
چودھری شجاعت حسین نے عین آخری وقت میں اپنی پارٹی کے ارکانِ اسمبلی کو یہ ہدایت جاری کی کہ وہ چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ نہ دیں لیکن ان کی یہ ہدایت مانی نہیں گئی‘ ارکانِ اسمبلی نے اپنے پارلیمانی لیڈر ساجد بھٹی کی رہنمائی میں چودھری پرویز الٰہی کے حق میں ووٹ داغ دیے۔ یوں زرداری صاحب کا کیا دھرا خاک میں مل گیا‘ چودھری شجاعت سے پے در پے ملاقاتوں کے بعد وہ ''وی‘‘ کا نشان بناتے ہوئے ان کے گھر سے نکلے تھے لیکن ہندسہ الٹ گیا‘ زرداری سیاست چودھری خاندان کو لے بیٹھی۔ ڈپٹی سپیکر نے‘ جو انتخابی عمل کی نگرانی کر رہے تھے‘ جماعت کے صدر کی ہدایت پر مسلم لیگ(ق) کے10 ارکان کے ووٹ شمار کرنے سے انکار کر دیا‘ یوں چودھری پرویز الٰہی کے مقابلے میں حمزہ کامیاب قرار پائے‘ معاملہ سپریم کورٹ جا پہنچا تو وہاں ایک سابقہ عدالتی فیصلے کے برعکس پارٹی کے صدر پر پارلیمانی لیڈر کو فوقیت دے دی گئی‘ نتیجتاً چودھری پرویز الٰہی نے اقتدار سنبھال لیا۔ آئین کے الفاظ اس کی سابقہ عدالتی تشریح پر غالب آ گئے۔
چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی ہم عمر ہیں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھے‘ ایک ہی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کی‘ برطانیہ گئے تو اکٹھے گئے۔ دونوں ایک دوسرے کے بہنوئی ہیں اور برادرِ نسبتی بھی۔ چودھری ظہور الٰہی اور چودھری منظور الٰہی نے سیاست اور کاروبار کو بانٹ ر کھا تھا۔ سیاست ظہور الٰہی کرتے تھے‘ کاروبار منظور الٰہی چلاتے تھے‘ زندگی بھر ایک دوسرے سے جڑے رہے۔ دونوں نے اپنے ایک ایک بیٹے کو سیاست کے لیے منتخب کیا‘ لاہور میں دونوں نوجوان چودھریوں کے گھر ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں‘ انہی کی طرح دل بھی ملے رہے‘ لیکن اگلی نسل اس رشتۂ اخوت کی پاسبانی نہیں کر سکی۔ دونوں کے بیٹے اپنی اپنی سوچ میں توانا ہوتے گئے‘ بالآخر چودھری شجاعت کے ایٹمی دھماکے نے پرخچے اڑا دیے۔ ان کے خط نے جہاں چودھری برادران کو ایک دوسرے سے کاٹ کر رکھ دیا‘ وہاں سپریم کورٹ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان بھی دوری پیدا کر دی۔ حکمران اتحاد کی جماعتوں نے اس خط کو رد کرنے کی پاداش میں سپریم کورٹ کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔ سپریم کورٹ کے اندر بھی اس کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ 63 اے کی جو تشریح سپریم کورٹ کے فل بنچ نے کی‘ اس پر بحث جاری ہے۔ منحرف ارکان کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا حکم سیاسی جماعتوں سے ہضم ہو رہا ہے‘ نہ قانونی اور صحافتی حلقوں سے۔ ان کی بڑی تعداد اسے دستور کو ''ری رائٹ‘‘ کرنے کے مترادف قرار دے رہی ہے۔ اگر یہ فیصلہ نہ آتا‘ اور لاہور ہائی کورٹ اسے مؤثر بہ ماضی نافذ نہ کرتا‘ تو پھر نہ چودھری شجاعت حسین کو خط لکھنا پڑتا‘ نہ حمزہ حکومت امتحان در امتحان سے دوچار ہوتی۔ ایسی صورت میں وزیراعلیٰ حمزہ کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے تحریک عدم اعتماد پیش کرنا پڑتی۔ تاریخ کا رخ مختلف ہو سکتا تھا‘ لیکن جو ہونا تھا‘ وہ ہو چکا۔ گجرات کے چودھریوں کو بھی اب ایک دوسرے کو معاف کر دینا چاہیے‘ اگر عمر ان خان سے چودھری پرویز الٰہی کا معاملہ ہو سکتا ہے‘ اور نواز شریف سے چودھری شجاعت حسین مل سکتے ہیں تو شجاعت اور پرویز ایک دوسرے سے ہاتھ کیوں نہیں ملا سکتے۔ چودھری شجاعت حسین کو ''بیماری الائونس‘‘ کیوں نہیں دیا جا سکتا؟؎
ایک‘ دو‘ تین‘ چار نہیں
سب خطائیں میری معاف کرو
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved