لوگ پوچھتے ہیں ہم برباد کیسے ہوئے؟ اس کے لیے مجھے ایک سچی کہانی سنانا پڑے گی! 2009ء کی بات ہے، دہشت گردی عروج پر تھی۔ پتہ چلا‘ پاکستان نے چین سے سکینرز منگوائے ہیں تاکہ شہر میں داخل ہونے والے راستوں پر لگا کر دھماکہ خیز مواد کو پکڑا جاسکے۔ اس کام کے لیے ایک چینی بنک سے ہی اربوں روپوں کا قرضہ لیا گیا؛ کیونکہ پاکستان کے پاس اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے ایک ارب روپے بھی نہیں تھے! ایک سکینر کی قیمت چوبیس کروڑ روپے تھی اور کل چوبیس سکینرز لینے تھے۔ ابتدائی طور پر صرف دو سکینرز منگوائے گئے۔ اسلام آباد نیشنل پولیس بیورو کو سکینرز کا کنٹرول دیا گیا؛ تاہم اس دوران ڈی جی رینجرز کو علم ہوا کہ اسلام آباد کے لیے دو سکینرز منگوائے گئے ہیں تو انہوں نے رحمن ملک کو فون کیا کہ ایک سکینر فوراً کراچی بھیجا جائے انہیں اپنے دفتر کے لیے ضرورت ہے۔ یوں ایک سکینر اٹھا کر کراچی بھیج دیا گیا۔ باقی اکلوتے سکینر کو گولڑہ موڑ پر لگایا گیا تو پتہ چلا بہت سارے ٹیکنیکل پرابلم سامنے آرہے ہیں جو پولیس بیورو کی سمجھ سے باہر تھے؛ چنانچہ انہیں چلانے اور استعمال کرنے کی تربیت لینے کے لیے کچھ اہلکاروں کو چین بھیجا گیا۔ اس دوران کام شروع نہ ہوا اور سکینر گولڑہ موڑ پر دھول اکٹھی کرتا رہا۔ پتہ چلا کہ سکینر چلانے کے لیے بعض دیگر ضروری چیزیں بھی نہیں مل رہیں اور نہ ہی اس سسٹم کو چلانے کے لیے اہل لوگ موجود ہیں۔ اس پر نیشنل پولیس بیورو اور وزارت داخلہ کو گولڑہ موڑ سے ایک خط بھیجا گیا کہ جناب حالات خراب ہیں۔ اس دوران یہ بھی پتہ چلا کہ باقی چھوڑیں سکینر چلانے کے لیے جو لائسنس لیا گیا تھا اس کی مدت بھی ختم ہوگئی ہے اور چار لاکھ روپے لائسنس فیس نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تجدید نہیں ہو سکی۔ اس دوران نیشنل پولیس بیورو بھی چپ کر کے بیٹھ گئی اور اس نے بھی نہیں کہا کہ اس کا لائسنس دوبارہ جاری کریں تاکہ سکینر چلتا رہے۔ یوں پی این آر اے ادارے کی طرف سے ہدایات ملیں کہ اس سکینر سے مزید کام نہ لیا جائے؛ چنانچہ کام روک دیا گیا۔ پولیس بیورو، وزرات داخلہ اور پولیس کے درمیان ابھی تک یہ معاملہ چل رہا ہے کہ لائسنس کا کیا کرنا ہے۔ ہاں یہ بتانا بھول گیا کہ جہاں گولڑہ موڑ پر کھدائی کر کے سکینر لگایا گیا تھا وہ جگہ بہت خراب تھی۔ سکینر لگانے سے پہلے جگہ کو مناسب طریقے سے تیار نہیں کیا گیا تھا جس سے سکینر کو خاصا نقصان پہنچا۔ اس کے لیے جب نیشنل پولیس بیورو سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا جناب کام چل رہا ہے چلائیں۔ کون سی قیامت آجائے گی۔ جو اسلام آباد پولیس کے اہلکار چین سے تربیت لے کر آئے تھے وہ اب اس ایک سکینر کو بغیر Dose meters کے چلا رہے تھے جو کہ اس نظام کو چلانے کے لیے دی گئی ہدایات کے بالکل خلاف ہے۔ ڈوز میٹرز کے بغیر سکینر کسی کام کا نہ تھا۔ اس دوران پتہ چلا کہ وزارت داخلہ میں 4 اپریل 2011ء کو ایک اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس سکینر کو چلانے کی ذمہ داری نیشنل پولیس بیورو سے واپس لے کر اسلام آباد پولیس کے حوالے کر دی جائے۔ اسلام آباد پولیس کی ایک اور ٹیم تیار کی گئی جس نے چین جا کر سکینر کو چلانے کی تربیت لینی تھی۔ اس کا بجٹ بنایا گیا ۔ اس دوران پتہ چلا کہ اسلام آباد پولیس کی ضروریات‘ کہ کچھ فاصلے سے کسی گاڑی میں موجود دھماکہ خیز مواد کو ٹریس کر سکے‘ یہ سکینر پورا نہیں کر سکتا تھا۔ اس پر سوچا گیا کہ چھوڑیں کس چکر میں پڑ گئے ہیں۔ کیوں نہ اس سکینر کو اٹھا کر کسٹم اور ایکسائز کے محکمے کو دے دیا جائے۔ اس پر 26جولائی 2011ء کو ایک اور اجلاس منعقد کیا گیا تاکہ اس پورے سسٹم کو اٹھا کر کسٹمز کو دے دیا جائے۔ اس اجلاس کے دوران یہ متفقہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اس کے لیے وزارت داخلہ کو سفارشات بھیجی جائیں گی تاکہ یہ سکینر اٹھا کر کسٹمز کو دے دیا جائے کیونکہ یہ اسلام آباد پولیس کے کسی کام کا نہ ہے۔ اس پر اسلام آباد پولیس سے رابطہ کیا گیا کہ وہ اس سکینر کو چلانا بند کردیں کیونکہ اس کا لائسنس ختم ہوگیا تھا۔ پی این آر اے ادارے نے اپنا ایک بل بنا کر وزارت داخلہ کو بھی بھیجا کہ اسے چار لاکھ روپے کی ادائیگی کی جائے تاکہ لائسنس کو دوبارہ جاری کیا جائے۔ اس پر نیشنل پولیس بیورو سے رابطہ کیا گیا کہ جناب آپ پیسوں کا بندوبست کریں تاکہ سکینر کے لائسنس کی تجدید کرائی جا سکے۔ یہ کیس ابھی تک نیشنل پولیس بیورو کے پاس چل رہا ہے۔ اس دوران اسلام آباد کے چیف کسٹمز کے دفتر میں ایک اور اجلاس ہوا جس میں پھر اس بات پر غور و فکر کیا گیا کہ کیسے اس نظام کو چلانا ہے۔ اس کے لیے مختلف ٹیسٹ کیے گئے تاکہ پتہ چلایا جا سکے کہ یہ سکینر کیسے کام کرتا ہے اور اسے کیسے چلانا ہے۔ اس رپورٹ سے پتہ چلا کہ اس سکینر میں دھماکہ خیز مواد کو پکڑنے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی فاصلے سے کسی موٹر کے بارے میں اشارہ دے سکتا ہے کہ فلاں میں دھماکہ خیز مواد یا پھر اسلحہ ہے۔ انکشاف ہوا کہ یہ سکینر تو صرف کسٹم حکام ہی استعمال کر سکتے ہیں اور اس کا دھماکہ خیز مواد کو پکڑنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اس سکینر کو صرف کنٹینرز کو کلیئر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ اسلام آباد پولیس کے کسی کام کا نہیں۔ یوں رحمن ملک کی وزارت کو یہ پتہ چلانے میں تین برس لگے کہ جو سکینر چین سے لائے گئے تھے وہ اسلام آباد پولیس کے کسی کام کے نہیں ہیں اور بہتر ہے کسٹمز حکام کے حوالے کر دیے جائیں اور اسلام آباد کے سپاہی کو ٹارچ پکڑوا کر دہشت گردوں کو ڈھونڈنا جاری رکھا جائے۔ اس پر پچھلے ماہ اٹھارہ جولائی کو وزارت داخلہ میں ایک اجلاس ہوا کہ اب ان سکینرز کی ڈیل کا کیا کیا جائے جو چین کے ساتھ کی گئی تھی اور باقاعدہ چینی بنک سے اربوں روپے کا قرضہ لیا گیا تھا۔ اب وزارت داخلہ کو پریشانی ہوگئی کہ کہیں چینی ناراض ہی نہ ہو جائیں کیونکہ بنک کا قرضہ تو منظور ہوچکا ہے۔ اس اجلاس میں تین آپشن پیش کیے گئے۔ پہلے ہاتھ باندھ کر چینی حکام سے درخواست کی جائے کہ وزارت اس معاہدے کو ختم کرنا چاہتی ہے کیونکہ ان کے سکینرز کسی کام کے نہیں ہیں۔ تاہم اس پر وزارت داخلہ کو فکر پڑگئی کہ اگر چینی یہ سن کر ناراض ہوگئے تو کیا ہوگا ۔ اس پر فیصلہ ہوا کہ پہلے وزرات قانون سے پوچھا جائے کہ ان بیکار سکینرز کا کیا کریں کہ وہ چین سے مزید منگواتے ہیں تو بھی کوئی فائدہ نہیں اور اگر نہیں منگواتے ہیں اور معاہدہ ختم کرتے ہیں تو چینی بھائی ناراض ہوجائیں گے۔ سو بتائیں کہ کدھر جائیں۔ وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری نے ایک اور فیصلہ بھی اس اجلاس میں کیا کہ چینی بھائیوں کی ناراضی سے بچنے کا ایک اور طریقہ بھی ہے کہ وہ اس قرضے کو کسی اور کام کے لیے استعمال کر لیتے ہیں۔ سکینرز کا کیا ہے پھر دیکھ لیں گے۔ سکینر جو گولڑہ پر لگایا گیا تھا اس کو اب زنگ لگ گیا ہے۔ آپ ابھی بھی حیران ہیں کہ سکندر کیسے دو کلاشنکوفیں گاڑی میں لے کر اسلام آباد میں داخل ہوا اور پانچ گھنٹے تک اس نے پورے شہر کو یرغمال بنا لیا؟ فلمی بڑھکوں کے لیے مشہور رحمن ملک کی پانچ برس تک چلائی گئی جو وزارت داخلہ، نیشنل پولیس بیورو اور اسلام آباد پولیس پچھلے تین برس میں یہ نہیں سیکھ سکی کہ کون سا سکینر لینا اور کیسے چلانا ہے، اس سے آپ شکایت کرتے ہیں کہ وہ پانچ گھنٹے تک سکندر پر ہاتھ کیوں نہیں ڈال سکی ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved