تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     31-07-2022

دھمکی اور اعلان

خان عبدالولی خان کے پوتے اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے وزیراعظم ہاؤس میں پی ڈی ایم کی تمام قیادت کی موجودگی میں سابق وزیراعظم اور اِس وقت ملک کی سب سے بڑی سیا سی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف جو دھمکی آمیز بیان جاری کیا وہ قابلِ مذمت ہے۔ایمل ولی خان کے اس بیان پر تحریک انصاف نے اُن کے خلاف تھانہ سیکریٹریٹ میں ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دے دی ہے۔پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے اس حوالے سے کہا کہ اے این پی کے رہنما ایمل ولی خان نے عمران خان کے بارے میں جو دھمکی آمیز بیان دیا ہے اُس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم اب غیر جمہوری عمل کی طرف گامزن ہو چکی ہے۔چند روز قبل مولانا فضل الرحمن نے بھی ایک ہنگامی پریس کانفرنس بلاکر عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے اسی طرح کے دھمکی آمیز بیانات جاری کیے تھے ۔ ایمل ولی خان نے آج کل وہی جارحانہ انداز اپنایا ہوا ہے جو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ان کے دادا اور بعد میں والد گرامی اسفند یار ولی خان نے اپنے جلسوں‘ میڈیا ٹاکس اور ریلیوں میں اپنایا تھا۔
بات یہ نہیں کہ ایمل ولی خان نے سابق وزیراعظم اور پی ڈی ایم کے مشترکہ سیاسی حریف کو دھمکی دی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ المیے کی بات یہ ہے کہ اُس پریس کانفرنس میں اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے کسی بھی حکومتی وزیر اور اتحادی جماعتوں کے لیڈران نے آگے بڑھ کر ایمل ولی خان کو اس طرح کی دھمکی آمیز گفتگو کرنے سے روکا یا ٹوکا تک نہیں۔ نہ ہی پی ڈی ایم کی قیادت میں سے کسی نے ابھی تک اس قسم کے بیان اور دھمکی کو ایمل ولی خان کا ذاتی بیان قرار دیتے ہوئے عمران خان کودی جانے والی اس دھمکی اور اعلان سے خود کو علیحدہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ ان تمام سیاسی جماعتوں اور وہاں بیٹھی ہوئی سیاسی شخصیات کی بھی وہی سوچ اور خواہش ہے جو ایمل ولی خا ن کی زبان سے نکلی ہے۔
جب کسی بھی خاندان‘ معاشرے اور ریاست میں سیاست میں دلائل کم ہو جائیں یا جب کسی بھی سیا سی جماعت کو یقین ہو جائے کہ وہ اپنے مخالف کی مقبولیت اور سیا ست کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی اور یہ کہ اپنے اس حریف سیاستدان کی موجودگی میں وہ سیا ست میں کوئی بلند مقام حاصل نہیں کر سکتی تو اس سیاسی جماعت کے لوگ انتقام کی سیا ست کرنے لگتے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کے پاس انتظار کرنے کے بجائے ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے کہ کسی طرح اس شخص کو اپنے راستے سے ہٹا دیا جائے۔اس مقصد کیلئے وہ اپنی بات کو دلائل کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے ایسی ہی بیان بازی کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھ چکے ہوتے ہیں کہ اُن کا سیاسی سفر زوال پذیر ہو چکا ہے ۔ موجودہ حالات میں اتحادی جماعتوں کے زوال کی وجہ صرف ایک ہی شخص ہے جس کا نام عمران خان ہے ۔
ہمارے ملک میں سیاست شخصیات کے گرد ہی گھومتی ہے۔ پاکستان میں ایک نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی حب الوطنی اور ایمانداری کی زمانہ گواہی دے گا لیکن وہ سیاست میں اپنا مقام پیدا نہیں کر سکے بلکہ اگرکبھی انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ کیا بھی تو شخصیات کے گرد گھومنے والی سیاست کی وجہ سے کبھی کسی قبضہ گروپ تو کبھی کسی منشیات فروش کے ہاتھوں اس بری طرح شکست کھا گئے کہ سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے توبہ کرتے ہوئے گوشہ نشین ہو کر ملکی حالات کی تباہی دیکھ دیکھ کر کڑھنے کے سوا کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔
بلاشبہ عمران خان اپنی شخصیت کی وجہ سے اس وقت پاکستان اور دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کے مقبول ترین لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بائیس کروڑ عوام کے رہنما ہیں لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس ملک کی بہت بڑی اکثریت ان کی ایک آواز پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتی ہے۔ اس وقت پنجاب‘ کے پی‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ان کی جماعت کی حکومت ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ عمران خان وفاقِ پاکستان کے تاج ہیں‘ اس لیے ان کی مقبولیت کو اگر کسی بھی طریقے سے‘ کسی بھی سازش سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی یا ان کو دھمکیاں دینے والوں کو روکا نہ گیا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی نہ کی گئی تو یہ سوچ خدانخواستہ کوئی خوفناک رنگ اختیار کر سکتی ہے جس کے نتائج اس قدر ہولناک ہوں گے کہ شاید کسی سے سنبھالے ہی نہ جا سکیں۔ متعلقہ حکام کو چاہیے کہ وہ عمران خان کے خلاف دیے جانے والے ایسے دھمکی آمیز بیانات کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے اُن کی فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنائیں۔
وزیراعظم ہائوس میں جو پریس کانفرنس منعقد کی گئی اس میں نظامِ عدل کو بھی نشانہ بنایا گیا جو کسی طور بھی منا سب نہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی کوے کو آپ کے کہنے پر سفید یا سرخ کہہ دے۔ پنجاب اسمبلی میں 22جولائی کو ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے آپ وقتی طور پر خوش تو ہو گئے لیکن پھر ہوا یہ کہ چند منٹ بعد ہی اُن لوگوں کی طرف سے بھی جو دہائیوں سے آپ کی حمایت کرتے چلے آ رہے ہیں‘ ایک بار نہیں بلکہ میڈیا ٹاک میں بار بار کہا گیا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ بالکل غلط اور خلافِ قانون ہے جب آئین ہی اجازت نہیں دیتا تو کس بنا پر ایسی رولنگ دی جا سکتی ہے۔ آپ کے سینئر وکلا نے آپ کو اکیلے میں سمجھایا بھی تھا کہ ہمارا مقدمہ کمزور ہے‘ اس لیے یہ رولنگ مسترد ہو جائے گی‘ ہم سپریم کورٹ کے اندر اور باہر صرف شور مچا سکتے ہیں‘ جو چاہیں گے اپنی زبان سے میڈیا کو بتا تے جائیں گے لیکن جب قانون کی بات ہو گی تو ہمارے پاس سوائے مایوسی اور ناکامی کے کچھ نہیں ہوگا۔پھر فیصلہ کیا گیا کہ شور مچاؤ اور اس کیس کو طول دینے کی کوشش کرو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور نظامِ عدل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جس نظام کی وجہ سے آج آپ وزیراعظم ہاؤس میں براجمان ہیں‘ آپ کی وازرتیں قائم ہیں‘ آپ اپنے تمام مقدمات نیب اور ایف آئی اے سے ختم کروا چکے ہیں‘ پاکستان کے قیمتی اثاثے ایک دوست ملک کو فروخت کرکے اس کے سرمایہ داروں سے اپنا کمیشن وصول کرنے کیلئے چپکے سے دبئی کے دورے کر رہے ہیں اور اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کرکے اپنے مخالفین کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ آج پاکستان کے ہر مرکزی ادارے میں اپنے من پسند افسروں کی تعیناتیاں کر رہے ہیں‘ لندن‘ دبئی اور ترکی سمیت مختلف ممالک کے سرکاری دوروں کے نام پر خفیہ اور کاروباری ملاقاتیں کر رہے ہیں‘ اُسے تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ اب بند ہو جانا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved