تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     01-08-2022

موجودہ مسائل پر نئی اپروچ

اگست کا مہینہ ہمارے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی مہینے ہم اپنی آزادی کے 75سال مکمل کررہے ہیں۔ یہ بھرپور جشن کا موقع ہے اور ہمیں چاہیے کہ قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کریں جنہوں نے قیام پاکستان کی تحریک کی قیادت کی تھی۔ ہمیں ان لوگوں کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے جنہوں نے آزادی کے موقع پر ہونے والے فسادات میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اس موقع پر ہمیں پوری دیانتدار ی سے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم نے کس طرح پاکستان کو ایک کے بعد ایک بحران میں دھکیلا۔ آج کل بھی پاکستان ایک انتہائی مشکل سیاسی دور سے گزر رہا ہے اور اسے سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ اگر ہم رجائیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ بھی دیں کہ جاری مسائل جلد ختم ہو جائیں گے اور ہم بہت جلد اچھے دن دیکھ سکیں گے تو حقیقت یہ ہے کہ عام شہری کی زندگی کے معیار میں کسی بہتری کی امید نظر نہیں آتی۔ ملک کی اشرافیہ تو آنے والے دنوں میں بھی خوشحالی سے لطف اندوز ہوتی رہے گی مگر افتادگانِ خاک کے بارے میں ایسی توقع کرنا محال ہے۔
پاکستان کے جاری سیاسی معاشی اور سماجی مسائل ناقابلِ حل نہیں ہیں۔ ہم ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں مگر اس کے لیے ہماری سیاسی اور سماجی قیادت کو اپنا مائنڈ سیٹ اور مجموعی سماجی سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا۔ اس مقصد کیلئے ہمیں بطورِ قوم اس عزم کے ساتھ خود آغاز کرنا ہوگا کہ ہم اپنی جدوجہد سے اپنے مسائل حل کریں گے۔ ہمیں اپنے مسائل کے حل کیلئے دوسروں کی احتیاج کو ترک کرنا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں ہم اپنے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور اپنے زورِ بازو کو آزمانے سے گریزاں نظر آتے ہیں بلکہ ہمیشہ یہ توقع کرتے ہیں کہ کوئی بیرونی ہاتھ آکر ہمارے مسائل حل کرے۔ یہ امیدِ ناتمام کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے اور دیگر ممالک ہمیں عارضی ریلیف تو دے سکتے ہیں مگر وہ ہمارے مسائل کی بنیادی وجوہات کا کوئی حل نہیں دے سکتے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دوسروں کی محتاجی کی کوئی نہ کوئی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جو عالمی تعامل کے ساتھ ساتھ ہماری داخلی سماجی اور معاشی پالیسیوں کے انتخاب محدود کر دیتی ہے۔ مائنڈسیٹ کا مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جدید علوم اور ٹیکنالوجی کی بدولت عالمی نظام اس قدر تبدیل ہو چکا ہے کہ موجودہ چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے پرانے تصورات اور پرانی اپروچز ہمیں مناسب رہنمائی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم اکیسویں صدی میں جوں جوں مزید پیش رفت کریں گے پرانی سٹریٹیجی اور نئے چیلنجز میں حائل اختلافات کی خلیج مزید گہری ہونے کی توقع ہے۔ پرانی نسل کے افراد اپنے تجربے کی بنیاد پر مشورے اور ہدایات دیں گے مگر اب قیادت اور رہنمائی کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دینا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ تجربے اور عہدِ حاضر کی گہری سمجھ بوجھ کے امتزاج سے مدد لے کر ہی ہم اپنے داخلی اور خارجہ پالیسی کے چیلنجز کا مقابلہ کر نے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
25سے 45سال عمر کے گروپ میں شامل افراد جو جدید علم‘ تعلیم اور رابطہ کاری کی ٹیکنالوجی سے لیس ہیں‘ سینئر افراد سے مشاورت کے بعد ایسی حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں جن کی مدد سے ہم پاکستان کودرپیش مسائل کا کوئی ٹھوس حل تلاش کر سکیں؛تاہم ضروری ہوگا کہ ایک نئے قومی سفر کا آغاز کرنے کیلئے موجودہ سیاسی قیادت اور جماعتوں کی طرح تنگ نظری اور گروہی تقسیم پر مبنی طرزِ سیاست کے جال میں پھنسنے کے بجائے انکساری اور پیشہ ورانہ رویوں کا مظاہرہ کیا جائے۔ ہمارے سیاسی اور سماجی مسائل کے حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ سیاسی اور سماجی طبقاتی تقسیم کی بنا پر اپنے سماجی مفادات کے بجائے چھوٹے چھوٹے پارٹی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ سینئرسیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں معاشی اور سیاسی مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں کیونکہ وہ اپنی اپنی انا اور شدید ہوسِ اقتدارکے حصار میں قید ہیں۔ وہ اسی وقت تک جمہوریت‘ انصاف پسندی اور آزاد عدلیہ کی باتیں کرتے ہیں جب تک یہ تمام اصول ان کے سیاسی ایجنڈے کے مفاد میں ہوتے ہیں۔ اگر یہ ان کے ایجنڈے سے متصادم ہوں تو انہیںمسترد کر کے ریاستی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے؛ چنانچہ ہماری سیاست‘ جمہوریت اور آئین پسندی کے اصولوں کے تابع نہیں ہے۔ اس کا واحد معیار لیڈر کی انا اوراپنی جماعت کیلئے اقتدارکاحصول ہے‘ لہٰذا ہمارے ہاں سیاست پر ہونے والی گفتگوکا عمومی چلن یہی ہے کہ اس میں حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے یا اپنی جماعت کے سیاسی مفاد کے لیے تاریخ کے مخصوص حقائق کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ وہ مسائل پر توجہ دینے کیلئے کسی درمیانی راستے یا سیاسی حل کی گنجائش نہیں چھوڑتے۔ اپنی سیاسی تقاریر اور بیانات میں ایک دوسرے کیلئے استعمال ہونے والے سیاسی القابات بھی جمہوری سیاست کیلئے مُضر ہیں۔ پاکستان کے سیاسی بالخصوص معاشی مسائل اس قدر سنگین ہیں کہ ہمارے اربابِ سیاست کو اپنی سیاسی جنگ میں باہمی اعتدال پسندی اور تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ کم از کم ملک کے بنیادی مسائل پر قابلِ عمل سیاسی مفاہمت پیدا کرنے کیلئے کام کریں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے میکرو اور مائیکرو معاشی مسائل کے حل پر توجہ دی جائے۔
اگر معیشت کے عمومی اشاریوں کی بات کی جائے مثلاً شرحِ مبادلہ‘ بین الاقوامی تجارتی عدم توازن‘ بجٹ‘ جاری اکائونٹ خسارہ اور مقامی و بیرونی قرضے وغیرہ تو ہمارا ملک شدیدمالی مشکلات کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ دوسری جانب ان مسائل کی وجہ سے عام آدمی شدید متاثر ہے جسے قیمتوں میں اضافے اور افراط زر کی بدولت سنگین مالی دبائو کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت قیمتوں کو کنٹرول کرنے والی مارکیٹ فورسز سے نمٹنے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔کاروباری اور تجارتی اشرافیہ قیمتیں بڑھانے اور مارکیٹ میں اشیائے ضروریہ کی فراہمی میں من مرضی کے فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ اگر پاکستان کا سیاسی نظام سماجی اور معاشی مسائل کے حل پر توجہ دینے پر آمادہ ہو تو فوری طور پر درج ذیل اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو اپنی بیان بازی میں تلخی اورشدت کم کرنا ہوگی‘ عوامی اجتماعات میں ایک دوسرے کے لیے باہمی احترام کا اظہار کرنا چاہیے۔ اولین تقاضا یہ ہے کہ سیاسی ماحول پر چھائی تلخی اور شدت میں فوری طور پر کمی لائی جائے ۔انہیں چاہئے کہ سہولت کاروں کی مدد سے بالواسطہ بات چیت کا بندوبست کیا جائے تاکہ سنگین معاشی مسائل کے حل کیلئے براہ راست مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔ اگر ٹھوس مذاکرات شروع کرنے کے لیے بالواسطہ ابتدائی بات چیت کامیاب رہتی ہے تو باہمی تعاون کا فریم ورک وضع کرنے کے لیے پارٹیوں کی ثانوی درجے کی قیادت کو مل بیٹھ کر مذاکرات کرنے چاہئیں۔ اگلے مرحلے میں سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے مابین بات چیت کا سلسلہ شروع ہونا چاہیے تاکہ سنگین معاشی اور سیاسی مسائل کے حل پر اتفاقِ رائے پیدا ہو سکے۔
اہم معاشی مسائل پر کم از کم اتفاقِ رائے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ معاشی ایشوز کے حل میں کوئی دوسری حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ سینئر سیاسی قیادت کو اتنا مجبورکرے کہ وہ سیاسی تقسیم اورگروہ بندی میں اعتدال پیدا کریں۔ سیاسی اجتماعات میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف گھٹیا زبان اور القابات کا استعمال کرنے سے گریز کریں اور اہم سیاسی اور معاشی مسائل پر کم از کم افہام وتفہیم کا ماحول پیدا کیا جائے‘ نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ جدید میڈیا اور ووٹ کی طاقت کا استعمال کرکے اپنی سیاسی قیادت کو مجبور کرے کہ وہ سیاسی مسائل کے حل کے لیے تعمیری سیاست کو بروئے کار لائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved