کئی بار مشاہدہ کیا گیا کہ دورانِ سروس کئی افسران و اہلکار ریٹائرڈ ملازمین و ضعیف پنشنرز کے ساتھ منفی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ جوانی کی طاقت اور اختیارات کے نشے میں یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ ایک دن ان کی جوانی بھی بڑھاپے میں ڈھل جائے گی اور جس کرسی پر وہ آج براجمان ہیں‘ مستقبل میں یہاں شاید ان سے بھی کوئی زیادہ سخت دل شخص بیٹھا ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خود انہیں بھی ضعیف پنشنرز کی قطار میں دھکے کھانا پڑیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی رویے میں بھی تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ملازمت کے آخری سال جب کوئی ملازم اپنی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات تیار کرنے لگتا ہے تو دوسرے ساتھی ملازمین کی جانب سے غیرذمہ دارانہ اور نامناسب رویے کا آغاز ہو جاتا ہے‘ جو ریٹائرمنٹ کے بعد بے حسی کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسے میں ماضی کی یادیں مزید پریشان کرتی ہیں کہ بطور مجاز افسر وہ خود بھی ملازمت کے دوران بزرگوں اور خواتین پنشنرز کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھتا رہا اور اب مکافاتِ عمل کے طور پر اسے ویسے ہی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پنشن کی ادائیگی کے طریقہ کار کے حوالے سے پنشنرز میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے۔ ڈاک خانوں کا نظام نہایت فرسودہ ہے جہاں بزرگ پنشنروں کو تپتی دھوپ یا شدید ٹھنڈ میں موسم کی شدت کے باوجود سارا سارا دن قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات طویل انتظار کے بعد جب ضعیف پنشنرز کی باری آتی ہے تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ مقررہ تاریخ گزر جانے کے باوجود ان کی پنشن ابھی تک ڈاک خانے کو موصول نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے انہیں دہری اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر پنشن مقررہ وقت پر مل جائے تو اکثر ڈاک خانوں میں ڈاکیا بابو ہر پنشنر سے 'سروس‘ کے نام پر پچاس روپے سے لے کر دو سو روپے تک غیر قانونی کٹوتی کرتا ہے جو سراسر رشوت یا بھتہ خوری ہے لیکن بزرگ پنشنرز اور خواتین کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ حکومت کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور پوسٹ ماسٹرز کو سختی سے ہدایت کی جائے کہ پنشنروں کے مسائل کا تدارک کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ڈاک خانے کا کوئی بھی اہلکار پنشن میں سے ایک روپے کی بھی غیر قانونی کٹوتی نہ کرے۔
بعض بینکوں نے بزرگ شہریوں اور پنشنروں کے لیے خصوصی کائونٹرز قائم کر رکھے ہیں جہاں ترجیحی بنیادوں پر انہیں خدمات فراہم کی جاتی ہیں لیکن اب بھی ملک میں بینکوں کی اکثر و بیشتر چھوٹی برانچوں میں نہ تو بزرگ شہریوں کے لیے مخصوص کائونٹرز ہیں اور نہ ہی پنشنر حضرات سہولت کے ساتھ رقم وصول کر سکتے ہیں بلکہ انہیں گھنٹوں قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ بینکوں کی جانب سے پنشنروں کو اے ٹی ایم کارڈ کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے لیکن اس حوالے سے بھی پنشنروں کی بعض شکایات سامنے آئی ہیں۔ ضعیف العمر پنشنروں اور بیوگان کی اکثریت ناخواندہ یا کم پڑھی لکھی ہے جنہیں اے ٹی ایم کارڈ استعمال کرنا نہیں آتا۔ ایسی شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ بزرگ شہریوں نے اے ٹی ایم کے استعمال کے لیے کسی دوسرے شخص سے مدد لی اور وہی شخص ان بزرگوں کو لوٹ کر چلتا بنا۔ اے ٹی ایم کارڈ کی سالانہ فیس بھی پنشنروں کے لیے ایک بوجھ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ بینکوں کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کرے کہ پنشن والے اکائونٹ ہولڈروں سے اے ٹی ایم کی سالانہ فیس وصول نہ کی جائے کیونکہ سال بعد جب کسی بزرگ شہری یا بیوہ خاتون کی پنشن میں سے دو‘ ڈھائی ہزار روپے کی کٹوتی ہوتی ہے تو ان عمر رسیدہ شہریوں کا سارا بجٹ ڈسٹرب ہو جاتا ہے۔
تنخواہوں کے مقابلے میں پنشن کی شرح میں اضافہ انتہائی قلیل ہے جبکہ پرانے پنشنرز پرانی تنخواہوں کے حساب سے پنشن وصول کرتے ہیں جو بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہے کیونکہ ان کی پنشن معمولی تنخواہوں کے تناسب سے مل رہی ہوتی ہے لیکن مہنگائی دگنی‘ تگنی شرح کے حساب سے بڑھ رہی ہوتی ہے‘ یوں پنشنروں کے مسائل روز افزوں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ حاضر سروس ملازمین تو مختلف قسم کے الائونسز اور دیگر مراعات و سہولتوں سے بھی مستفید ہو رہے ہوتے ہیں لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد پنشنرز نہ صرف ان تمام مراعات سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ ضعیف العمری کے باعث مشکلات کا سامنا بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ کئی محکمے فنڈز کی کمی کا بہانہ بنا کر کئی کئی ماہ تک ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن روک لیتے ہیں؛ تاہم حاضر سروس ملازمین کی تنخواہیں بروقت ادا کی جاتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام قومی اداروں اور محکموں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ اپنے وسائل میں اضافے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں اور پنشن کی ادائیگیوں میں کبھی بھی تعطل نہ آنے دیں۔
بہت سے قارئین یہ جان کر حیران ہوں گے کہ مہنگائی کے اس دور میں بھی اولڈ ایج پنشن صرف ساڑھے آٹھ ہزار روپے ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف بھی نہیں اور یہ ریٹائرڈ بزرگ افراد کے ساتھ کسی سنگین مذاق سے کم نہیں۔ اولڈ ایج پنشنرز مہنگائی کے ہاتھوں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ موجودہ پنشن میں وہ ضروریاتِ زندگی تو درکنار اپنی ادویات کے اخراجات اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی کرنے سے بھی قاصر ہیں کیونکہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی صحت بھی جواب دے جاتی ہے اور عمر کے اس حصے میں بیشتر افراد کو ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔ 8500 روپے کی پنشن سے وہ دیگر اخراجات کہاں سے پورے کریں؟ عمر کے آخری حصے میں بڑھاپے، کمزوری اور بیماریوں کے سبب کوئی دوسرا کام بھی نہیں کیا جا سکتا اور ان بزرگوں کا سارا دار و مدار پنشن ہی پر ہوتا ہے جو ان کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی۔ یہ پنشن سروس کے دوران ان کی تنخواہوں میں سے کاٹے گئے فنڈ سے ادا کی جاتی ہے‘ اس کے لیے حکومت کو سرکاری خزانے سے کچھ ادا نہیں کرنا پڑتا۔ الٹا حکومت نے اس فنڈ سے اربوں روپے کے قرضے لے رکھے ہوتے ہیں۔ اعلیٰ افسران اپنی لاکھوں کی تنخواہوں اور پنشن میں مست رہتے ہیں لیکن ضعیف پنشنروں کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ حالیہ بجٹ میں سرکاری پنشن میں اضافہ تو کیا گیا لیکن اولڈ ایج پنشن میں اضافے کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ سابق حکومت نے گیارہ ہزار روپے پنشن کی سمری کابینہ میں پیش کی تھی لیکن اس کی منظوری نہیں دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ تقریباً 5 لاکھ پنشنرز اور بیوگان 2017ء سے اپنی پنشن میں اضافے سے محروم ہیں۔ متعدد ریٹائرڈ ملازمین اضافے کی حسرت لیے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ موجودہ حکومت اولڈ ایج بینیفٹ میں فوری اضافہ کرے، یہ حکومت کا بوڑھے اور لاچار پنشنرز پر ایک احسان ہو گا اور اس سے حکومت کی عوام میں پذیرائی بھی بڑھے گی۔
ضعیف پنشنرز کے مسائل کے حوالے سے حکومتی رویہ سرد مہری پر مبنی ہے، چونکہ ان افراد کے پاس احتجاج کیلئے کوئی مناسب پلیٹ فارم نہیں ہے لہٰذا حکومت بھی اس حوالے سے کوئی دبائو محسوس نہیں کرتی اور حاضر سروس ملازمین کے مقابلے میں ریٹائرڈ حضرات کے مسائل ہمیشہ عدم توجہی کا شکار رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں بزرگ شہریوں کو خصوصی سہولتیں‘ مراعات اور احترام دیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں سنیئر سٹیزنز کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ مستحق ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پنشنرز کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرے اور ان کے حل کیلئے مؤثر اقدامات کرے تاکہ ضعیف پنشنرز کے مسائل کم ہو سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved