قیامِ پاکستان کے وقت لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی اور ہزاروں مسلم خواتین کی عصمت لوٹی گئی۔ لٹے پٹے قافلے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ ہر جانب المیے ہی المیے تھے۔ مہاجرین ساری قربانیوں اور تکالیف کے بعد جونہی پاک سرزمین پر قدم رکھتے تو ایک عجیب خوشی سے سرشار ہو جاتے۔ آہستہ آہستہ زخم مندمل ہوتے چلے گئے۔ دردِ دل رکھنے والے اکثر اہلِ پاکستان نے اپنے مہاجر بھائی بہنوں کے لیے ہر طرح کی قربانی اور ایثار کے اعلیٰ نمونے پیش کیے جبکہ بعض خود غرض اور نفس پرست عناصر نے اپنی خباثتوں کے مظاہرے بھی کیے۔
قیامِ پاکستان کے وقت راقم کی عمر دو سال سے کم تھی۔ چار پانچ سال کی عمر میں اندازہ ہوا کہ مہاجر آبادی بے انتہا قربانیوں اور مشکلات کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے یہاں آئی ہے۔ ان سب لوگوں کو ہمیشہ خوش و خرم دیکھا۔ ہمارے علاقے کے بعض دیہات میں ہندو اور سکھ کافی تعداد میں آباد تھے۔ ان میں سے اکثر کاروباری لوگ تھے‘ مگر کچھ لوگوں کے پاس زرعی زمینیں بھی تھیں اور وہ کاشت کاری سے اپنی روزی کماتے تھے۔ یہ سب لوگ تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان سے بھارت چلے گئے۔ مہاجرین کو غیرمسلموں کے متروکہ گھر‘ دکانیں اور زمینیں ان کے استحقاق کے مطابق الاٹ ہوئیں۔ اکثر مہاجر دکانداری یا دیگر ہنرمندی کے پیشے میں چلے گئے۔ چند ایک نے کاشت کاری سے اپنی معیشت وابستہ کی۔ ایک مہاجر بھائی بشیر احمد کے پاس چند کنال زمین تھی جس سے کوئی خاص آمدنی نہیں ہوتی تھی‘ اس لیے انہوں نے کاشت کاری کے ساتھ ہینڈ پمپ اور پھر بعد میں ٹیوب ویل لگانے کا محنت طلب مگر نفع بخش کام شروع کر لیا۔
ہمارے خاندان کے کئی ہینڈ پمپ اور بعدازاں زرعی زمینوں پر ٹیوب ویل بشیر صاحب نے ہی لگائے۔ والد صاحب سے بشیر صاحب کی بڑی بے تکلفی تھی۔ ان کی اہلیہ بھی بعض ضروریات کے لیے ہمارے گھر اکثر آتی رہتی تھیں۔ مجلس میں ایک دن بشیر صاحب سے والد صاحب نے پوچھا ''بشیر! تمہاری اہلیہ تمہاری رشتے دار بھی لگتی ہیں؟‘‘ یہ سن کر بشیر صاحب مشرقی پنجاب کے مخصوص دلچسپ لہجے میں کہنے لگے ''میاں جی! پہلے تو یہ کچھ بھی نہیں لگتی تھی اور اب تو سب کچھ یہی لگتی ہے‘‘۔ ان کی اس بات سے ہم بہت محظوظ ہوئے۔ ان کی اہلیہ نے سنا تو وہ بھی بہت خوش ہو گئیں۔
مجھے اپنے ایک استادِ محترم بھی کبھی کبھار شدت سے یاد آتے ہیں۔ مرحوم جامعہ پنجاب میں عربی ادب و شاعری پڑھاتے تھے۔ بڑی حکیمانہ باتیں بتاتے جو آج تک یاد ہیں۔ ایوب خان کا دور تھا۔ کہنے لگے کہ سیاستِ نبوی نے حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ جیسے متقی اور بے لوث حکمران اور سیاست دان پیدا کیے جبکہ لادین سیاست نے دولتانہ، ممدوٹ، غلام محمد، فیروز خان نون اور اسکندر مرزا جیسے خود غرض، مفاد پرست اور شقی القلب سیاستدانوں کا تحفہ قوم کی نذر کیا۔ اب مارشل لائی دور ہے تو اس میں بوٹ پالش کرنے والے سیاسی کھلاڑی مارکیٹ میں آ گئے ہیں۔ پریس بھی انہی کی راگنی الاپتا ہے اور عوام بھی انہی کا دم بھرتے ہیں۔
اِن دنوں استاد محترم بڑی شدت سے یاد آتے ہیں۔ ساتھ ہی بشیر مہاجر مرحوم کی باتیں بھی ذہن میں تازہ ہو جاتی ہیں۔ اگر بعد کے ادوار میں کوچۂ سیاست کے کھلاڑیوں کو دیکھتے تو پہلوں کو بھول جاتے۔ اس وقت عمران خان صاحب کی مقبولیت عروج پر ہے۔ وہ جو بات کہہ دیں‘ ان کے عقیدت مند اسے حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔ تصور میں خان صاحب سے پوچھیں کہ چودھری پرویز الٰہی سے آپ کا تعلق کیسا ہے اور کب سے ہے؟ تو تاریخی ریکارڈ سے وہ جواب دیں گے کہ اب تو یہ میرا جگری یار ہے۔ مجھے اپنی پارٹی کے سب دیوانوں اور پروانوں سے یہی زیادہ محبوب ہے۔ اسی لیے تو میں نے عثمان بزدار کو سائیڈ لائن کرکے اپنے اس دوست کو وزارتِ اعلیٰ پنجاب پر فائز کیا ہے۔
یہ محض خان صاحب اور چودھری صاحب ہی کا معاملہ نہیں ہے۔ مروجہ سیاست کے میدان میں دونوں جانب کے کھلاڑی اسی نوعیت کے ہیں۔ میاں برادران اور زرداری قبیلہ سے ایک دوسرے کے بارے میں پوچھیں، تو وہ جواب میں آپ کو بتائیں گے کہ یہ ملک کے سب سے بڑے لٹیرے اور ڈاکو تھے۔ ہم ان کا پیٹ چیرنے کے ارادے رکھتے تھے، مگر قدرت کا فیصلہ ہے کہ اب ان سے ہماری گاڑھی چھنتی ہے، ان سے زیادہ مخلص، دیانت دار اور پوتّر سیاست دان اور کوئی بھی نہیں۔ اس قوم کا مزاج بھی کمال ہے۔ جب ایک دھڑے کے ساتھ ہوتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ ہمارا لیڈر فرشتہ ہے۔ جب پینترا بدل کر دوسری جانب جاتے ہیں تو فرشتے کو شیطان اور شیطان کو فرشتے کا لقب دے دیتے ہیں۔ اسی کو سیاست کی غلاظت کہا جاتا ہے۔
زندہ اور باشعور قومیں اپنا نفع و نقصان پہچانتی ہیں اور اس کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ اندھی عقیدت میں مبتلا اور تعصبات کے زہر سے آلودہ ذہن کبھی بھی درست فیصلے نہیں کر پاتے۔ ذاتی مفادات سے بلند ہو کر ہر سیاست دان کے پورے کردار کا جائزہ لیا جائے اور غیرجانبداری کے ساتھ فیصلہ کیا جائے کہ کون بے لوث، مخلص اور دیانت و امانت کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ پھر جو بھی اس معیار پر پورا اترے اس کا ساتھ دیا جائے، اگر یہ اصول پاکستان میں اپنایا جاتا، تو آج پون صدی گزرنے کے بعد پاکستان دنیا کا ایک ترقی یافتہ، طاقتور اور قابلِ قدر ملک بن کر دنیا میں ممتاز ہوتا۔ بدقسمتی سے لوٹ مار، بدعنوانی، لاقانونیت اور چھینا جھپٹی اوپر سے لے کر نیچے تک حکمرانوں اور عوام میں رچ بس گئی ہے۔ کوئی اپنے مفادات کی خاطر اپنے موقف سے مکمل مخالف سمت میں یوٹرن لے لے تو اسے ابن الوقتی، منافقت اور دورنگی کے بجائے وہ حکمت، فراست اور سیاست کا نام دیتا ہے۔
ان سارے افسوس ناک حقائق کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ایٹمی ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ کرنسی چیتھڑا بن کر رہ گئی ہے۔ اوپر کے چند خاندانوں کے سوا ملک کی پوری آبادی آج عذاب میں مبتلا ہے۔ اس کے باوجود دونوں جانب سے سیاسی جیالے اور متوالے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے، رقص کرتے ہوئے خوشی سے جھومتے ہیں۔ مخالفین کے لیے مذمت کے الفاظ نہیں غلیظ گالیوں کی بوچھاڑ کرتے ہیں۔ معاشی ابتری کے ساتھ اخلاقی گراوٹ سے ہر باضمیر انسان اذیت میں مبتلا ہے۔ یہ شب و روز کیسے بدل سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا حل بتایا ہے، مگر کوئی اس پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِہِمْ (سورۃ الرعد: 11)
ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
اسی آیت مبارکہ کو حضرت مولانا ظفر علی خاں مرحوم نے خوب صورت انداز میں اپنے شعر میں سمو دیا ہے۔ ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
مشکاۃ المصابیح کی روایت ہے کہ حضرت ابودرداؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ (حدیث قدسی) میں ارشاد فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ (یعنی میرے قبضۂ قدرت) میں ہیں، لہٰذا جب میرے (اکثر) بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (ظالم) بادشاہوں کے دلوں کو بھی رحمت و شفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (عادل و نرم خو) بادشاہوں کے دلوں کو بھی غضب ناکی اور سخت گیری کی طرف پھیر دیتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ (بادشاہ) ان کو سخت عقوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں، اس لیے (ایسی صورت میں) تم اپنے آپ کو ان بادشاہوں کے لیے بدعا کرنے میں مشغول نہ کرو، بلکہ (میری بارگاہ میں تضرع و زاری کرکے اپنے آپ کو میرے) ذکر میں مشغول کرو تاکہ میں تمہارے ان بادشاہوں کے شر سے تمہیں بچائوں‘‘۔ اس روایت کو ابو نعیم نے اپنی کتاب حلیۃ الاولیا میں نقل کیا ہے۔
حضرت حسن بصریؒ سے منقول ہے: ''أعمالکم عمالکم، وکما تکونوایولی علیکم‘‘ یعنی تمہارے حکمراں تمہارے اعمال کا عکس ہیں۔ اگر تمہارے اعمال درست ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی درست ہوں گے، اگر تمہارے اعمال خراب ہوں گے تو تمہارے حکام بھی خراب ہوں گے۔ منصور ابن الاسود رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام اعمشؒ سے اس آیت (وَکَذَلِکَ نُوَلییُ بَعْضَ الظّٰلِمِینَ بَمْضاً) کے بارے میں کیا سنا ہے؟ آپؒ نے فرمایا کہ میں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے اس بارے میں سنا کہ: ''جب لوگ خراب ہو جائیں گے تو ان پر بدترین حکمران مسلط ہو جائیں گے‘‘۔ امام بیہقی نے حضرت کعب ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ: ''اللہ تعالیٰ ہر زمانے کا بادشاہ (حکمران )اس زمانے والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتے ہیں‘‘۔
اے کاش! ہماری قوم اور عوام اپنے رویوں پر غور کریں اور کھلنڈرا پن چھوڑ کر سنجیدگی سے اپنے حالات بدلنے کی کوشش کریں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved