پنجاب میں پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت کے بنتے ہی مسلم لیگ نواز اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں تحریک انصاف کو کے پی اور پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انہیں پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی صورت میں تحریک انصاف کی اتحادی حکومت قطعی برداشت نہیں۔ وہ سب اس کو شش میں ہیں کہ تختِ پنجاب پر دوبارہ قبضے کیلئے ہر حربہ آزمائیں اور اس سلسلے میں ابتدائی طو ر پر کسی بھی حد تک جانے کے اعلانات دھڑلے سے کیے جا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کا جب یہ بیان سنا کہ گورنر راج کی سمری پر کام کیا جا رہا ہے تو استادِ محترم گوگا دانشور نے عجیب بات کہہ کر حیران کر دیا۔ گوگا دانشور کا کہنا تھا کہ پنجاب میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب اور دوست مزاری پر عدم اعتماد کو اس طرح کے نفسیاتی حربے استعمال کرتے ہوئے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گور نر راج کا شوشہ چھوڑ نے کا مقصد نون لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کے اراکین کے قدموں کو مضبوط کرنا اور تحریک انصاف کے گروپ میں نقب لگانا تھا۔ پنجاب کی سپیکر شپ کیلئے آصف علی زرداری‘ جو دبئی میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کے اراکینِ صوبائی اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانے کی بھرپور کوششوں میں تھے‘ اچانک خاموش ہو گئے۔ اس سے پہلے انہوں نے چودھری پرویز الٰہی سے پنجاب کی وزارتِ ا علیٰ چھیننے کے اعلانات کھلے عام کیے تھے لیکن پھر انہیں آئینی ماہرین نے کچھ بریف کیا جس کے سبب ان کی مصروفیات میں کچھ کمی آ گئی۔ اب جبکہ سپیکر پنجاب اسمبلی کا انتخاب عمل میں آ چکا ہے اور سبطین خان سپیکر پنجاب اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں‘ مسلم لیگ اور اتحادی جماعتوں نے اس الیکشن کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔ اتحادی جماعتوں کا موقف ہے کہ سپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے لیکن حالیہ انتخاب میں بیلٹ پیپرز پر سیریل نمبر درج کرنا آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے لہٰذا پنجاب اسمبلی کے سپیکر کا انتخاب کالعدم قرار دینے اور دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم جاری کیا جائے۔ دوسری طرف ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک 186 ووٹوں سے کامیاب ہو گئی جس کے بعد ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہوا اور حیران کن طور پر پی ٹی آئی کے واثق قیوم عباسی بلامقابلہ ڈپٹی سپیکر منتخب ہو گئے۔ پی ڈی ایم نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید علی حیدر گیلانی کو ڈپٹی سپیکر کے طور پر نامزد کیا تھا مگر آخری وقت تک علی حیدر گیلانی نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی ہی جمع نہیں کروائے۔ اس پر ابتدائی طور پر نون لیگ کا یہ موقف سامنے آیا کہ علی حیدر گیلانی کے کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں کیے گئے مگر بعد ازاں علی حیدر گیلانی نے خود ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ سپیکر کا انتخاب چونکہ شفاف نہیں ہوا تھا‘ اس پر ہم نے ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ فی الوقت حکومتی اتحاد کی توپیں خاموش ہو گئی ہیں مگر اندرونِ خانہ گورنر راج سمیت تمام دیگر آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ نواز کی حمایتی سمجھی جانے والی ایک خاتون اینکر نے سوشل میڈیا اکائونٹ پر وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ کے گورنر راج کے بیان پر یہ تبصرہ کیا: جو گرجتے ہیں‘ وہ برستے نہیں۔ یعنی وہ چاہتی ہیں کہ گور نر راج لگانے کا یہ کام وہ جتنا جلدی کر دیں‘ اتنا اچھا ہے۔ شاید انہیں معلوم نہیں کہ اب گورنر راج لگانا وفاقی حکومت کے اختیار میں نہیں رہا۔ فرض کیجئے کہ شہباز حکومت اس کے باوجود گورنر راج لگانے کا فیصلہ کرتی ہے تو ان حالات میں اسے آئین کے آرٹیکل101 سے145تک کی شقوں کو معطل کرنا پڑے گا۔ اگر ''لندن گروپ‘‘ نے شہباز حکومت کے کندھوں پر رکھ گورنر راج کی بندوق چلانے کی کوشش کی تو کل کو یہ اقدام اس کے اپنے گلے بھی پڑ سکتا ہے اور آئین کو معطل کرنے کے جرم میں اس پر آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کا کیس بھی چل سکتا ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر راج لگانے کیلئے دو ہی طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ جس صوبے میں گورنر راج لگانا مقصود ہو اس صوبے کی اسمبلی کثرتِ رائے سے گورنر راج کی قرار داد کی منظوری دے۔ یہ قرارداد منظور ہونے کے بعد صدرِ مملکت متعلقہ صوبے کے گورنر کو گورنر راج پر عملدر آمد کا حکم جاری کریں گے۔ دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ متعلقہ صوبے کے بجائے وفاقی حکومت گور نر راج لگانے کا فیصلہ کرے۔ اس صورت میں وفاقی حکومت یہ سمری خود تیار نہیں کرے گی جیسا کہ چند دن پہلے وزیر داخلہ نے بیان جاری کیا کہ ان کا دفتر گور نر راج کی سمری تیار کر رہا ہے بلکہ یہ سمری ایوانِ صدر سے تیار کرکے بھیجی جائے گی کیونکہ گور نر راج فقط صدرِ مملکت کی صوابدید پر لگ سکتا ہے۔ اس لیے اس وقت مسلم لیگ نواز گور نر راج کیلئے صرف سوچ ہی سکتی ہے‘ اس پر عمل کرنے کی طاقت فی الحال حکومتی اتحاد نہیں رکھتا۔
گورنر راج کے علاوہ عمران خان پر اب دوبارہ لاڈلے کے نام سے حملے کیے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر عمران خان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہاں تک الزام لگایا کہ لاڈلے کو گزشتہ پندرہ سال سے دودھ پلا کر جوان کیا جاتا رہا۔ وزیراعظم صاحب کا یہ الزام جب ہم نے اپنے استاد گوگا دانشور کے سامنے رکھا تو وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد پوچھنے لگے: ''اگر تمہاری یا میری کوئی ایسی آڈیو سامنے آ جائے جس میں ہم کسی جج کو کسی کو سزا دینے اور کسی کو بری کرنے کے احکامات دے رہے ہوں تو کیا کسی منصف کو فون پر ناجائز احکامات دینے کی پاداش میں ملک کا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تو دور‘ کوئی سرکاری عہدہ لینے کی بھی ہمیں اجازت مل سکتی ہے؟ اگر اس آڈیو کی بنیاد پر جج صاحبان کے خلاف کارروائی کی درخواست کی جا سکتی ہے تو پھر کیا وجہ تھی کہ ان حضرات کو فون کرنے والوں کو کسی نے اب تک پوچھا بھی نہیں۔ اس سے تو ظاہر ہوا کہ لاڈلے کوئی اور ہیں۔ ممنوعہ فنڈنگ کی بات کرتے ہوئے سارا زور اس بات پر دیا جا رہا ہے کہ آٹھ برسوں سے یہ کیس زیرِ التوا ہے لیکن کوئی یہ بھی تو پوچھے کہ جناب! آٹھ برسوں سے تو ماڈل ٹائون کا کیس بھی زیرِ التوا ہے۔ کیا ممنوعہ فنڈنگ کا کیس ماڈل ٹائون کیس سے زیادہ بڑا ہے؟ چودہ افراد کے قتل پر کسی نے ایک لمحے کیلئے بھی بلا کر پوچھا ہے؟ آٹھ برسوں سے اس سانحے کے ذمہ داران آزاد پھر رہے ہیں اورکوئی پوچھنے والا نہیں۔ جس دن منی لانڈرنگ جیسے سنگین جرم کی فردِ جرم عائد ہونا تھی‘ اسی دن دنیا کا کون سا قانون ایسے شخص کو اہم ترین ریاستی عہدے کا حلف اٹھانے کی اجا زت دے سکتاہے؟‘‘۔ گوگا دانشور کی بات سن کر چپکے سے میں وہاں سے کھسکنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ مجھے رکنے کا کہہ کر وہ بولے: مسلم لیگ کی نائب صدر صاحبہ یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ ان کی سزا معطل کرکے انہیں صرف اس لیے ضمانت دی گئی تھی کہ وہ اپنے بیمار والد کی دیکھ بھال کر سکیں اور یہ سچ کس سے پوشیدہ ہے کہ ان کے والد گرامی‘ جن کی تیمارداری کیلئے وہ ضمانت پر ہیں‘ گزشتہ ڈھائی برسوں سے لندن میں رہ رہے ہیں۔ نہ تو پچاس روپے کے سٹامپ پیپر پر ان کی ضمانت دینے والوں کو کسی نے بلا کر کچھ پوچھا‘ نہ خود ان سے جنہوں نے چھ ہفتوں کے لیے طبی بنیادوں پر ضمانت لی تھی۔ عارضی اور مشروط ضمانت پر رہا ہونے والوں اور قومی مصروفیات کے نام پر فردِ جرم کو ٹالنے والوں سے یہ پوچھنے کی ہمت کر لیجئے کہ لاڈلاکون ہے؟
خبر ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ دنوں عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری سے فون پر بات کی ہے جس کے بعد تحریک انصاف نے سانحہ ماڈل ٹائون کے انصاف کے لیے بھرپور انداز سے مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شنید ہے کہ اگلے چند دنوں میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ماڈل ٹائون کیس کے جلد فیصلے کی استدعا کریں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved