سیاست کے نام پر دھینگا مشتی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ جن کا اقتدار گیا ہے وہ بدحواس و بے صبرے ہوئے جاتے ہیں اور جنہیں اقتدار ملا ہے اُنہیں یہ غم ستائے جاتا ہے کہ کہیں ہاتھ آئی لکشمی ہاتھ سے جاتی نہ رہے! یہ غم اُنہیں بہت کچھ کرنے پر اُکسارہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مخالفین کو ڈھنگ سے سانس لینے کا موقع بھی نہ دیا جائے۔ مخالفین کا یہ حال ہے کہ وہ ایوانِ اقتدار کے نئے مکینوں کو برداشت کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ معاملات انکار سے شروع ہوکر انکار پر ختم ہوں تو صرف خرابیوں کو راہ ملتی ہے۔ جو قومی معاملات میں سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں اُن سے کوئی بھی امید رکھنا عبث لگتا ہے۔ فضا میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ لوگوں نے مجموعی طور پر اُمید ہار دی ہے۔ حوصلہ تو پہلے ہی ہار بیٹھے تھے۔ یہ انتہائی نوعیت کی کیفیت ہے۔ جب کچھ بھی دکھائی اور سجھائی نہ دے رہا ہو تب انسان بے عمل ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ بے عملی زندگی کو ٹھہرے پانی جیسا بنا دیتی ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانیوں پر کائی جمتی ہے جو پانی کو اس قدر متعفن کردیتی ہے کہ وہ پینے کے قابل نہیں رہتا۔ ہمارے بیشتر معاملات بھی اب ٹھہرے ہوئے پانیوں جیسے ہوگئے ہیں یعنی اُن پر کائی اِتنی جم چکی ہے کہ افادیت نام کی چیز ہی باقی نہیں رہی۔ ہر معاملے کو کسی کام کا بنانے کے لیے اب سر توڑ محنت کرنا پڑتی ہے۔ اِس پر بھی کامیابی کے بارے میں پورے یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
سیاسی میدان میں جو تماشے ہو رہے ہیں وہ لطف تو کیا دیں گے، دل دہلائے دیتے ہیں۔ مایوسی کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے کیونکہ یاروں نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے عمل میں قومی اہمیت کے تمام ہی معاملات کا حشر نشر کردیا ہے۔ جن کی حکومت گئی ہے اُن کے دل و دماغ نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے اب تک انکار کر رکھا ہے۔ وہ قومی معاملات میں اپوزیشن کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ دن رات صرف یہ فکر لاحق ہے کہ حکومت کو کس طور بے دست و پا کیا جائے۔ اپوزیشن کی حیثیت سے ادا کیا جانے والا کردار بھی کم اہم نہیں ہوا کرتا۔ حکومت کو درست راہ پر گامزن رکھنا اصلاً اپوزیشن ہی کا کام ہے۔ اگر وہ اس کام کو ڈھنگ سے کرنے کے معاملے میں ڈنڈی کرنا شروع کردے تو چل چکا سیاسی نظام۔ ریاستی امور اس کھینچا تانی میں محض الجھتے ہیں اور معمول کے کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پاتے۔ ایسے میں کوئی خاص کارکردگی کیونکر ممکن بنائی جاسکتی ہے؟عام انتخابات کے انعقاد میں کم و بیش ایک سال کا وقت پڑا ہے۔ اس ایک برس میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ جنہیں اقتدار ملا ہے وہ قوم کے آنسو پونچھنے سے متعلق چند ایک اقدامات تو کر ہی سکتے ہیں۔ بہت کچھ بگڑ چکا ہے۔ بگاڑ دیکھ کر دل بیٹھا جاتا ہے۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کیونکہ جب بگاڑ بڑھ جائے تب دل کا بیٹھ بیٹھ جانا فطری امر ہے۔ ہاں! خرابیاں دیکھ کر بھی رجائیت سے ہم کنار رہنا وہ چیلنج ہے جو انسان کو حقیقی معنوں میں قابلِ قدر بناتا ہے۔
اقتدار کی مسند پر براجمان ہونے والوں کو یاد رہنا چاہیے کہ اقتدار محض پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا بستر بھی ہے۔ کسی بھی انسان یا گروہ کو اقتدار کی صورت میں بہت کچھ کرنے کا اختیار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ نعمت اور ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری سے کماحقہٗ عہدہ برآ ہونا ہی انسان یا گروہ کو قابلِ قدر بناتا ہے۔ جنہیں قوم کے تمام معاملات ہاتھ میں لینے کا موقع ملا ہے اُنہیں یاد رہنا چاہیے کہ کچھ کرنے ہی پر وہ عوام کی نظر میں قابلِ قبول ٹھہریں گے۔ اگر کوتاہی کے مرتکب ہوئے تو ایک ایک پل اور ایک ایک اختیار کا حساب دینا پڑے گا۔ جواب دہ ہونے کا احساس ہی اقتدار پانے والوں کو ڈھنگ سے کام کرنے کی تحریک دے پاتا ہے۔اگر قوم کے لیے کچھ کرنا ہو تو وقت اب بھی کم نہیں۔ ایک سال کم نہیں ہوتا۔ اگلے عام انتخابات تک موجودہ حکومت کے پاس کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ جب خرابیاں زیادہ ہوتی ہیں تو ایسا بھی بہت کچھ ہوتا ہے جس کے کرنے سے معاملات درست ہوں۔ قوم منتظر رہتی ہے کہ حکمرانی معاملات کو بہتر بنانے کی راہ پر گامزن ہوں اور اُن کا ساتھ دیا جائے۔ پاکستانی قوم اگرچہ پریشان و مایوس ہے مگر پھر بھی حکمران اگر کچھ بامقصد کرنا چاہیں تو اُنہیں تعاون حاصل رہے گا۔ قوم کو محض نچوڑنے سے گریز کیا جائے اور اُسے کچھ دینے کی کوشش بھی کی جائے۔ محض ریاستی مشینری کو تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے نام پر نوازنے کی ذہنیت قوم کی مایوسی میں اضافہ کر رہی ہے۔ سارے مزے صرف ریاستی یا انتظامی مشینری کے نہیں ہونے چاہئیں۔ عوام کو بھی کچھ دینے کی کوشش کی جائے۔ قوم منتظر ہے کہ کب اُس کے نصیب جاگتے ہیں اور کب حکمران اُس کے لیے حقیقی ریلیف کا بندوبست کرتے ہیں۔
یہ وقت اپوزیشن کے لیے بھی کم اہم نہیں۔ وہ اگر حکومت کی راہوں میں روڑے اٹکانے ہی کی روش ترک نہیں کرے گی تو قوم کو یہ پیغام ملے گا کہ جن کے ہاتھ سے اقتدار گیا ہے وہ اپنے حواس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پارہے۔ اُن کی اب تک کوشش یہ ہے کہ حکومت کام نہ کر پائے۔ دو صوبوں میں اُن کی حکومت ہے جن کے ہاتھ سے وفاق میں اقتدار گیا ہے۔ عام آدمی یہ سوچ سوچ کر پریشان ہے کہ اب ایک سال تک وفاق سے سب سے بڑے صوبے سمیت دو صوبوں کے تعلقات کیونکر اچھے رہ سکیں گے۔ کھینچا تانی جاری ہے۔ کوئی بھی اندازہ لگاسکتا ہے کہ اگر پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کچھ ایسا ویسا کرے گی تو وفاق میں قائم پی ڈی ایم کی حکومت فنڈز سمیت تمام معاملات میں اُس کی راہ مسدود کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔ اس وقت گیند پی ٹی آئی کے کورٹ میں ہے۔ اسے وسعتِ قلب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کی حیثیت سے اپنا کردار مثبت طور پر ادا کرنا چاہیے تاکہ حکومت کو کچھ کرنے کی تحریک ملے اور وہ عوام کو کچھ دینے کے قابل ہوسکے۔ اگر معاملات جلسوں، مظاہروں اور دھرنوں کے مایا جال میں پھنسے رہیں گے تو قوم کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ قوم چاہتی ہے کہ اُس کے مسائل حل ہوں۔ عوام کی خواہش تو بس اتنی ہے کہ اُنہیں بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہوں۔ وہ بجلی، پانی، گیس اور یومیہ سفر کے جھنجھٹ سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے۔ عوام کی عمومی سوچ یہ ہے کہ روزگار کے ذرائع خود تلاش کرلیں گے۔ صحت و تعلیم کے معاملات سے بھی کسی نہ کسی طور نمٹ ہی لیں گے۔ حکومت صرف اتنا کرے کہ بجلی، پانی، گیس آسانی سے اور کم نرخوں پر فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یومیہ سفر کی سہولت بھی بہتر بنائے تاکہ لوگ کام پر جانے اور واپس آنے میں نہ تھکیں۔ اگر اتنا بھی نہ کر پائے تو کوئی بھی حکومت کس کام کی؟
حکومت کی آئینی مدت میں ابھی ایک سال پڑا ہے۔ اس ایک سال میں حکومت بہت کچھ کرسکتی ہے۔ اپوزیشن کو احتجاج کی راہ سے ہٹ کر احتساب کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے۔ حکومت کو کام کرنے دیا جائے اور جو کچھ بھی وہ کرے اُس کا محاسبہ کیا جائے، چیک اینڈ بیلنس کی گرفت مضبوط رکھی جائے۔ کسی بھی حکومت کا محاسبہ اُسی وقت کیا جاسکتا ہے جب اُسے کام کرنے دیا جائے۔ تین چار ماہ کے دوران یہ انتہائی خطرناک رجحان سامنے آیا ہے کہ کسی بھی حکومت کو کام ہی نہ کرنے دیا جائے۔ احتجاج اور جلسہ گیری صرف اُس وقت کارگر ثابت ہوتی ہے جب کسی کے کام میں خامیاں پائی جائیں اور عوام کو یہ بتایا جائے کہ جو کچھ اُن کے لیے کیا جانا تھا وہ کیا ہی نہیں گیا۔وفاق میں قائم حکومت سے مطابقت نہ رکھنے والی صوبائی حکومتوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اُنہیں خود بھی عوام کے لیے کام کرنا چاہیے اور وفاقی حکومت کو بھی ایسا ہی کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ اب سے عام انتخابات تک کا ایک سال صرف کارکردگی سے عبارت ہو تو اچھا۔ اور کارکردگی ہی کو انتخابی مہم سمجھا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved