تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     03-08-2022

ڈاکٹر سعید باجوہ کا کرشمہ

امریکہ پہنچ کر مشہور نیورو سرجن ڈاکٹر سعید باجوہ بارے مجھے پتا چلا کہ چار برس سے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ہم انسان بھی کتنے ناشکرے ہیں کہ چار برس گزر گئے تھے اور میرا اس عظیم انسان دوست ڈاکٹر سے رابطہ نہ رہا جس نے کبھی مجھ پر احسان کیا تھا۔ ہم بھی عجیب مخلوق ہیں۔ مشکل میں ہوں تو مدد مانگتے ہیں‘ در سے نہیں اُٹھتے۔ لیکن مشکل دور اور کام ہو جائے تو بندہ پہچاننے سے بھی انکاری ہو جاتے ہیں کہ آپ کون؟
ڈاکٹر باجوہ صاحب سے پہلے میسج پر بات ہوئی اور پھر فون پر طویل گفتگو ختم ہوئی تو میں نے گہرا سانس لیا اور سوچا‘ کیا دنیا میں ایسے معجزے بھی ہوتے ہیں؟ مجھے لگا پوری عمر جس کڑے امتحان سے ڈاکٹر سعید باجوہ گزرے ہیں‘ اس پر ایک بیسٹ سیلر کتاب اپنی جگہ لیکن ہالی وُڈ کا کوئی پروڈیوسر بلاک بسٹر فلم بھی بنا سکتا ہے۔ فون بند ہوا تو برسوں پہلے کی ایک ڈھلتی شام یاد آئی جب مشتاق بھائی‘ خالد بھائی اور سینیٹر طارق چوہدری کے ساتھ نیو یارک آئی لینڈ سے طویل مسافت کے بعد امریکہ کے ایک خوبصورت چھوٹے سے شہر پہنچے تھے۔ ایک عزیز نوجوان لڑکا تھا‘ جسے چیک کرانا تھا۔ ڈاکٹر سعید باجوہ کا شمار امریکہ کے اچھے نیورو ڈاکٹرز میں ہوتا ہے۔ انہوں نے نوجوان کا برین سکین کرایا‘ پوری محنت سے بیٹھ کر خود چیک کیا اور صحت کی کلین چٹ دی۔ کم از کم آٹھ دس ہزار ڈالرز کا بل بنا ہوگا لیکن ہسپتال کو منع کر دیا‘ ایک ڈالر بھی ان مہمانوں سے نہیں لینا۔ پتا چلا کہ پاکستان سے آئے ہر قسم کے مریضوں کی وہ خصوصی مدد کرتے ہیں۔
ان کے آفس میں ایک بزرگ خاتون اور مرد کی تصویر فریم ہو کر سامنے پڑی تھی۔ وہ ان کے والدین تھے۔ بولے: باپ نے کہا تھا: پتر سعید! ایناں وڈا ڈاکٹر وی ناں بن جاویں کہ مریض تیری فیس نہ دے سکن۔ ڈاکٹر باجوہ نے امریکہ میں مشکلات بھی بہت دیکھیں۔ عدالت میں ایک مقدمہ بھگتا۔ امریکن سب سے پہلے اُن کے حق میں گواہی دینے نکلے اور کہا: ان جیسا فرشتہ صفت ڈاکٹر ایک نعمت ہے۔ اس مقدمے سے باعزت بری ہوئے۔ الزام تھا کہ انہوں نے پاکستان ایک چیرٹی سکول کے لیے چندہ بھیجا تھا۔ جب 2005ء میں زلزلہ آیا اور ہزاروں لوگ جان بحق اور زخمی ہوئے تو وہ امریکن پاکستانی ڈاکٹروں کی ٹیم کے ہمراہ پاکستان پہنچے تاکہ اس مشکل وقت میں وہ پاکستانیوں کا علاج کر سکیں۔
ڈاکٹر باجوہ کو علم نہ تھا کہ لوگوں کی زندگی بچاتے بچاتے ایک دن ان کی اپنی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ ڈاکٹر باجوہ کو دل میں معمولی تکلیف ہوئی تو ڈاکٹرز نے فیصلہ کیا کہ پروسیجر کر کے سٹنٹ ڈال دیتے ہیں۔ سٹنٹ ڈلوانے سے پہلے بھی انہوں نے آپریشن تھیٹر میں اپنے نیورو کے مریضوں کے آپریشن کیے۔ شاید انہیں علم نہ تھا کہ وہ اپنی زندگی کے آخری آپریشن کر رہے ہیں۔ ان کے دل کا پروسیجر جو چند منٹ کا تھا‘ اس میں ایسی خطرناک پیچیدگیاں پیدا ہوئیں کہ ڈاکٹروں کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ ڈاکٹر باجوہ کو آپریشن ٹیبل سے سیدھا وینٹی لیٹر پر منتقل کرنا پڑا۔ وہ کئی ماہ کوما میں رہے۔ انہیں وہ پرابلم ہوگیا تھا جو لاکھوں میں کسی ایک بندے کو ہوتا ہے اور وہ ریکور نہیں کر پاتا۔
یوں ڈاکٹر باجوہ جو خود چل کر دل کے ڈاکٹر کے پاس اپنا پروسیجر کرانے گئے تھے‘ اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے۔ سب ڈاکٹروں کا تقریباً اتفاق تھا کہ اُس حالت میں اُن کا بچنا مشکل تھا۔ اگر کسی طرح وہ بچ بھی گئے تو ان کا برین اتنا ڈیمج ہو چکا تھا کہ وہ بقیہ عمر نارمل لائف نہیں گزار پائیں گے۔ جوں جوں کوما کا دورانیہ بڑھتا گیا‘ فیملی پر دباؤ بڑھ رہا تھا کہ وہ فیصلہ کریں کہ وہ اُس حالت میں ڈاکٹر باجوہ کو دیکھنا چاہیں گے جس میں ان کی زندگی بہت تکلیف دہ ہوگی۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ ڈاکٹر سعید باجوہ نے جتنا جینا تھا‘ جی لیا۔ اب ان کے بچنے کے امکانات صفر ہیں۔ اب ان کو لائف سپورٹ پر رکھ کر محض تکلیف ہی دی جارہی ہے۔ اسی وقت ڈاکٹر باجوہ کی بیگم صاحبہ نے سٹینڈ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹر باجوہ کی لائف سپورٹ/ وینٹی لیٹر نہیں ہٹانے دیں گی۔ ڈاکٹر باجوہ ایک دن آنکھیں کھول دیں گے۔ وہ دوبارہ زندگی کی طرف آئیں گے۔ سب حیران تھے کیونکہ آج تک کی میڈیکل ہسٹری میں ایسا نہیں سنا گیا تھا کہ اس صورتِ حال میں کوئی مریض زندگی کی طرف لوٹا ہو لیکن ڈاکٹر باجوہ کی بیگم صاحبہ ڈٹ گئیں۔ وہ ڈاکٹر باجوہ کی چچا زاد تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سعید کو بچپن سے جانتی ہیں۔ وہ ایک فائٹر ہیں۔ وہ موت کے آگے اتنی جلدی سرنڈر نہیں کریں گے۔ انہیں ساری زندگی لڑتے دیکھا ہے۔ وہ اب بھی بیڈ پر کوما کی حالت میں بھی لڑرہے ہوں گے۔ وہ زندگی کی طرف واپس لوٹیں گے۔
باجوہ صاحب کی بیگم صاحبہ نے ایک اور بڑا قدم اٹھایا اور انہیں بوسٹن میں واقع امریکہ کے ایک بڑے ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا۔ یوں ڈاکٹر باجوہ کو بوسٹن ہسپتال شفٹ کر دیا گیا۔ وہاں بھی ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اگرچہ ڈاکٹر باجوہ کی اس سٹیج سے ریکوری مشکل ہے لیکن وہ کوشش کرکے دیکھ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر باجوہ کی بیگم صاحبہ اور بیٹی نے ہسپتال کے قریب ہی ایک ہوٹل میں کمرہ لے لیا اور آٹھ ماہ تک وہ وہیں رہیں۔ بیوی اپنے خاوند تو بیٹی اپنے باپ کی محبت میں جکڑی بیڈ کے ساتھ سارا دن بیٹھی رہتی کہ کسی دن معجزہ ہوگا۔
ڈاکٹر باجوہ کی بیٹی جو ایک کیلی گرافر ہے‘ نے اپنے ہاتھ سے ''توکل‘‘ لکھ کر اپنے باپ کے ہسپتال کے بیڈ کے سامنے لگا دیا۔ بیٹی کو پتا تھا کہ ان کے والد کو اللہ تعالیٰ پر کتنا توکل تھا اور ساری عمر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے توکل پر ہی گزاری تھی۔ ڈاکٹر باجوہ نے رحیم یار خان میں اپنے گائوں اور علاقے میں لوگوں کے لیے بہت چیرٹی کی۔ وہاں غریب بچوں کے لیے سکولز کھولے۔ اُن کی ہر ممکن مدد کی۔ ان لوگوں کی دعاؤں کی اب ڈاکٹر باجوہ‘ اُن کی بیوی اور بیٹی کو اشد ضرورت تھی۔ آخر ایک دن وہی معجزہ ہوا جس کی امید بیگم باجوہ نے لگا رکھی تھی۔ ڈاکٹر سعید باجوہ کی آنکھوں میں معمولی سی حرکت ہوئی۔ یہ پہلا سائن تھا کہ آٹھ ماہ وینٹی لیٹر اور کوما میں رہنے کے بعد وہ آخرکار زندگی کی طرف لوٹ رہے تھے۔
ڈاکٹر باجوہ نے موت کو شکست دے دی تھی۔ وہ ڈاکٹر باجوہ جن کے بارے میں سب ڈاکٹرز حتیٰ کہ اُن کے خاندان کے افراد بھی کہہ رہے تھے کہ اُن کی لائف سپورٹ ہٹا لی جائے وہ سب اس معجزے پر حیران تھے۔ اس سے بھی بڑا معجزہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر سعید باجوہ کا برین مکمل طور پر ریکور ہو چکا تھا حالانکہ اگر چار منٹ تک برین کو آکسیجن نہ ملے تو انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن یہاں الٹ ہوا تھا۔ تمام تر پیچیدگیوں اور ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق دماغ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا تھا لیکن ڈاکٹر باجوہ جب ہوش میں آئے تو ان کا دماغ نارمل فنکشن کررہا تھا۔ اگرچہ شروع میں کمزوری اتنی تھی کہ وہ خود چل کر واش روم بھی نہیں جا سکتے تھے۔ پھر دھیرے دھیرے ڈاکٹر سعید باجوہ کی انرجی بحال ہوئی۔ تاہم ان کے Lungs اب بھی کمزور تھے‘ لہٰذا وہ زیادہ دیر تک بات نہیں کر پاتے تھے۔
آٹھ ماہ بعد وہ گھر لوٹے۔ ان کی اہلیہ نے ہر قسم کے دباؤ اور رپورٹس کے باوجود ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ اپنے خاوند کو جانے دیں۔ میں کافی دیر سے حیرت سے یہ ساری کہانی سن رہا تھا۔ ڈاکٹر باجوہ ہنس کر بولے: جب سب ڈاکٹرز اور حتیٰ کہ میرے اپنے فیملی کے کچھ افراد مایوس تھے‘ اس وقت میری اہلیہ نے ہار ماننے سے انکار کر دیا تھا اور وہ مجھے اللہ کے کرم سے زندگی کی طرف واپس لے آئی۔ایک معجزہ ہوچکا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved