تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف جب متفقہ حکمت عملی کے تحت تیار کی گئی عدم اعتماد تحریک کامیاب ہو گئی تو تحریک انصاف نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا لیکن اس کے پاس ملک کے دور دراز علاقوں میں جانے کیلئے وہ پہلے والی پرائیوٹ جہاز کی سہولت نہیں تھی، اس پر پارٹی نے ایک ہیلی کاپٹر یا چھوٹا جہاز خریدنے کا فیصلہ کیا۔ ملک بھر میں جلسوں کا بھی شیڈول بنایا گیا تھا‘ سو جونہی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے چندہ دینے کی اپیل کی گئی تو محض دس دنوں میں 75 کروڑ روپے پی ٹی آئی کے اکائونٹ میں ٹرانسفر ہو چکے تھے۔ اب جس شخص کے بلّے پر کیے جانے والے دستخط کی قیمت ایک سے پانچ کروڑ روپے تک ہو یا جس شخص کے ایک بچے کی قمیص پر دیا جانے والا آٹو گراف دس کروڑ روپے سے بھی بڑھ جائے‘ اس کے خلاف اگر یہ کہا جانے لگے کہ اس نے پچیس، پچاس، پچھتر، سو اور ڈھائی سو ڈالر لے کر (خدا نخواستہ) ملکی سالمیت کے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہے تو الزام لگانے والے شخص کی عقل پر ماتم کرنا بھی وقت اور اپنی توانائی ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
الیکشن کمیشن کا سنایا گیا فیصلہ پڑھتے ہوئے سر دھنتے جائیے کہ پندرہ سے زائد سیاسی قوتوں اور میڈیا کے ایک حصے کے تحریک انصاف کے خلاف کئی برسوں سے مچائے جانے والے شور کے اندر سے نکالابھی تو کیا؟ کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا محاورا بھی یہاں ہیچ محسوس ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس حوالے سے قسمت کے دھنی ہوتے ہیں کہ رائی کو پہاڑ کی شکل میں پیش کر کے کئی کروڑ روپے کما جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے آٹھ بر سوں سے کھایا جانے والا پھل آج کاٹ کر رکھ دیا ہے لیکن لگتا ہے پیٹ بھرنے کیلئے اس کے مدعی نئے خواب بیچنے لگیں گے۔ شنید ہے کہ پس پردہ قوتوں کی جانب سے اکسایا جا رہا ہے کہ اس کیس میں نظر ثانی کی اپیل دائر کرتے ہوئے اسے عدالتِ عظمیٰ کے پاس لے جایا جائے۔
الیکشن کمیشن کے تینوں اراکین کے سنائے گئے 'متفقہ فیصلے‘ کو غور سے پڑھیں تو آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے کہ '' بہت شور سنتے تھے پہلو میں 'جس‘ کا؍ جو چیرا تو اک قطرۂ خون نہ نکلا‘‘۔ رانا ثنا اللہ، مریم اورنگزیب، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت قمر زمان کائرہ، سعید غنی، ناصر شاہ اور مرتضیٰ وہاب، مولانا فضل الرحمن اور دیگر کئی سیاستدان پچھلے کئی سالوں بالخصوص گزشتہ کئی ہفتوں سے عوام کو یہ باور کرا رہے تھے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی نے ملک دشمنوں، بھارت اور اسرائیل سے فنڈنگ لی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں ان اکائونٹس کی تفصیلات بھی مہیا کی گئی ہیں۔ عنقریب فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سامنے آنے پر ان کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ اب اگر یہ فہرست دیکھیں تو آپ سر پکڑ کر رہ جائیں گے کہ یہ ہے پٹاری کا وہ سانپ جسے یار لوگ آٹھ برسوں سے فارن فنڈنگ کا نام دے کر پوری قوم کو پی ٹی آئی کے نام سے ڈرا رہے تھے۔ حکومتی اتحاد کے رہنمائوں کی تقریروں، میڈیا ٹاکس اور پے درپے پریس کانفرنسز سے تو یہ تاثر مل رہا تھا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان اس ملک کے دشمن ہیں جنہوں نے امریکہ اور کینیڈا سے نجانے کتنے کروڑ ڈالرز لے رکھے تھے۔ اگر 2013ء میں دیے گئے ان چندوں کی بات کرتے ہیں تو ایوی ایشن سے ریکارڈ منگوا کر دیکھیں کہ کتنے ہزار اوور سیز پاکستانی صرف پی ٹی آئی اور عمران خان کو اپنا ووٹ دینے کرنے کیلئے ہزاروں‘ لاکھوں ڈالرز خرچ کر کے پاکستان آئے تھے اور ان کے ووٹوں کو‘ بقول اس وقت کے صدر آصف زرداری‘ آر اوز نے ہائی جیک کر لیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں جن 36 اکائونٹس میں ممنوعہ فنڈنگ کا حوالہ دیا ہے اس فہرست کو غور سے دیکھیں تو 2013ء میں پچاس ڈالر دینے والے تین، 75 ڈالر دینے والے دو، 100 ڈالر دینے والے نو، 125 ڈالر دینے والے پانچ، 250 ڈالر دینے والے تین اور 300 ڈالر دینے والے ایک شخص کے علاوہ 500 ڈالر دینے والے تین اور 750 ڈالر دینے والا ایک شخص کا نام بھی اس فہرست کا حصہ ہے۔ اس کے بعد ایک ہزار ڈالر دینے والے چار اکائونٹس کا درج ہے جبکہ پانچ ہزار اور ساڑھے سات ہزار ڈالر ایک ایک شخص نے دیے ہیں۔ یہ جو مذکورہ تفصیلات سامنے رکھی گئی ہیں‘ یہ سب الیکشن کمیشن کے فیصلے میں سنایا جانے والا ریکارڈ ہے۔
فیصلہ سنائے جانے سے قبل الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے اور اردگرد جس قسم کا حصار قائم تھا اور جس قدر پولیس، رینجرز اور ایف سی کے دستے تعینات کیے گئے تھے‘ ان سے ایسا تاثر مل رہا تھا کہ جیسے کوئی سیاسی نہیں بلکہ دہشت گردی کے کیس کا فیصلہ سنایا جا رہا ہے۔ جس قسم کی مسکراہٹ متعلقہ اراکین نے عمران خان کے خلاف پیش ہونے والے مدعی کو دیکھ کر اس کی طرف اچھالی تھی‘ اسے محسوس کرتے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ فیصلہ کیا آنے والا ہے لیکن اس قدر کھدائی کے بعد نتیجہ کیا نکلا‘ اس پر بعد میں بات ہو گی کیونکہ اس فیصلے میں ایک پیراگراف ایسا ہے جو چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ پی ڈی ایم اس فیصلے کو کیا رخ دینے جا رہی ہے۔ اگلے ایک ہفتے تک حکومتی اتحاد کوے کو سفید ثابت کرنے اور بات کا بتنگڑ بنانے کیلئے نجانے کتنی نئی اصطلاحات استعمال کرے گا۔ اس سے بھی آگے کی سوچ اور ارادوں کی جھلک وفاقی وزرا اور حکومتی ترجمانوں کی پریس کانفرنسوں اور بیانات سے دیکھنے کو مل جائے گی۔
الیکشن کمشنر نے متفقہ طور پر 68 صفحات پر مشتمل جو فیصلہ سنایا ہے اور جس کیلئے اس پر پی ڈی ایم سمیت وفاقی حکومت کا دبائو دن بدن بڑھتا جا رہا تھا بالخصوص پنجاب میں ہونے والے 17 جولائی کے ضمنی انتخابات کے بعد وفاقی اور سندھ حکومتیں لٹھ لے کر جلد سے جلد فیصلہ سنانے کیلئے الیکشن کمیشن کے سر پر سوار ہو چکی تھیں‘ اس فیصلے سے ویسا کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔ یہ باتیں بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ اس فیصلے سے چند دن پہلے حکومتی اتحاد کے کچھ لوگوں نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات کے لیے ایک شخصیت چند روز پہلے ہی لندن یاترا کے بعد واپس پاکستان پہنچی تھی۔ اس وفد کی الیکشن کمیشن کے اراکین سے کیا باتیں ہوئیں‘ یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن ان ملاقاتوں کی خبریں میڈیا میں کافی جگہ بنا چکی ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ جو اہم ترین شخصیت لندن کے دورے کے بعد ہنگامی طور پر وطن واپس پہنچی تھی‘ وہ محض چائے یا کافی پینے کے لیے الیکشن کمیشن کے دفتر نہیں گئی تھی۔ اب اگر کسی نے اس شخصیت کو کوئی فائل وہاں سے لاتے یا وہاں پہنچاتے ہوئے دیکھا ہے تو یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں کوئی ہدایت تھی یا کوئی مواد یا سادہ سے کاغذات تھے۔ یہ تو اس فائل کو دیکھنے والے یا پھر لینے اور دینے والے ہی جانتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس میں ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی کے پیغامات ہوں اور جو کچھ سوچا جا رہا ہے‘ وہ سب خدشات بے بنیاد ہوں۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں پانچ پانچ‘ دس دس ڈالر کی ''ممنوعہ فنڈنگ‘‘ کی فہرست دیکھ کر وہ منظر یاد آ جاتا ہے کہ اکثر مساجد میں خطبۂ جمعہ کے دوران کچھ لوگ ایک چادر پھیلا کر ہر نمازی کے سامنے سے جب گزرتے ہیں تو نمازی حضرات جو دل چاہتا ہے‘ اس چادر میں بطور چندہ ڈال دیتے ہیں۔ اسی طرح شہروں اور قصبوں کے اکثر سٹورز اور دکانوں پر کسی رفاہی ادارے کا ایک ڈبہ رکھا ہوا ملتا ہے جس میں آتے جاتے لوگ حسب منشا کرنسی نوٹ ڈال جاتے ہیں۔ سٹرٹیفکیٹ اور بیانِ حلفی کو خلطِ مبحث کرنے سے کوئی اپنا سیاسی فائدہ کشید کرنا چاہے تو اور بات ہے‘ لیکن یہ بھی تو دیکھئے کہ پی ٹی آئی کا ایک ایک پیسہ بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان میں بطور زرمبادلہ لایا گیا۔ اب لگے ہاتھوں مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے حساب کتاب بھی دیکھ لیجئے کیونکہ یہاں تو ایسے ایسے واقعات بھی رپورٹ ہو چکے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت کو بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے خود پشاور پہنچ کر ''ڈالروں کا تھیلا‘‘ تھمایا تھا۔ یہ سنی سنائی بات نہیں بلکہ تاریخ کا حصہ ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو آج کھلے عام چیئرمین تحریک انصاف کو ٹھکانے لگانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved