تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     03-08-2022

مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی استحصال

بھارت یوں تو مقبوضہ کشمیر پر اپنا ناجائز تسلط برقرار رکھنے کے لیے سات عشروں سے جبر و تشدد کے ناجائز اور ناروا ہتھکنڈے آزماتا آیا ہے لیکن 5 اگست 2019ء کا دن کشمیری کبھی نہیں بھلا سکتے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی‘ جس کے ہاتھ گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں‘ نے مقبوضہ کشمیرکو تختۂ مشق ستم بناتے ہوئے پانچ اگست کو ایسا صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا جس نے نہ صرف بھارت سرکار کا سیکولر چہرہ بے نقاب کر دیا بلکہ نریندر مودی‘ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور بھارتی فاشسٹ جماعت آر ایس ایس کے گٹھ جوڑ کو بھی آشکار کر دیا تھا۔ بھارت‘ جہاں پہلے ہی علیحدگی کی درجنوں تحریکیں چل رہی ہیں‘ جہاں غربت اور انسانی حقوق کی پامالی بلندیوں کو چھو رہی ہے‘ کے حکمرانوں کی جانب سے صدارتی حکم نامے کی آڑ میں مقبوضہ کشمیرکے عوام کے لیے زمین مزید تنگ کرتے ہوئے ان کے بنیادی حقوق بھی غصب کرنے کی تیاری شروع کر دی گئی۔ صدارتی حکم نامے کے تحت بھارتی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35اے کی دفعات کو منسوخ کر دیا۔ ان دفعات میں مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کو جائیداد کی ملکیت‘ شہریت اور بنیادی حقوق کے تحت خصوصی حیثیت دی گئی تھی۔ پاکستان نے اس ناجائز اقدام کے ایک سال مکمل ہونے پر 2020ء میں پانچ اگست کو یوم استحصال منانے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ بھارتی اقدام کے نتیجے میں کشمیریوں کا استحصال اور ان کے حقوق کو مزید پامال کیا جانے لگا تھا اور اس دن مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے اپنی فوج کے ذریعے جبری قبضہ کیا تھا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے مقبوضہ وادی میں جاری تحریک کو دبانے کی ناکام کوشش کی۔ دراصل یہ تحریک اس اقدام کے بعد مزید تیز ہوئی او ر وہاں کے عوام کے دل میں جذبۂ آزادی مزید پروان چڑھا۔ کشمیری بچوں‘ عورتوں‘ جوانوں اور خواتین‘ جن پر بھارتی فوج ہر طرح کا تشدد کر چکی ہے اور ٹارچر کے ہر قسم کے طریقے آزما چکی ہے‘ کو ایسے اقدامات کے ذریعے خاموش کرانا ممکن نہیں۔
مقبوضہ کشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کرنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ پانچ اگست کا اقدام دراصل بھارتی انتہا پسند تنظیموں کی شہ پر کیا گیا جس کا مقصد بھارت بھر سے لوگوں کو مقبوضہ کشمیرمیں لا کر آباد کرنا تھا تاکہ وہاں کے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ حد بندی کمیشن نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں نوے اسمبلی حلقوں کے نقشے تبدیل کیے ہیں جبکہ 1995ء کی آخری حد بندی کے تحت پہلے سے موجود 19 حلقوں کو فہرست سے نکالے بغیر 28 نئے حلقوں کا نام بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ کمیشن نے قبائل کے لیے جموں ڈویژن میں چھ جبکہ مقبوضہ کشمیر ڈویژن میں تین نشستیں مخصوص کی ہیں۔ اسی طرح جموں ڈویژن میں اسمبلی کی چھ نئی سیٹیں نکالی گئی ہیں جبکہ کمیشن نے ایک حلقے کا نام شری ماتا وشنو دیوی رکھ دیا ہے، یعنی علاقے کا مسلم تشخص بھی ختم کیا جا رہا ہے۔
بھارت کے ان غیر آئینی اور تعصب پر مبنی اقدامات نے مودی سرکار کا فاشسٹ چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ اگر ہم مقبوضہ کشمیرکے عوام کے ساتھ ہونے والے ریاستی تشدد کی بات کریں تو وہاں بھی خوف ناک اعداد و شمار دکھائی دیتے ہیں۔ سالِ رواں کے پہلے چھ ماہ میں وادی میں 98 سے زائد افراد کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ پانچ اگست 2019ء سے دسمبر 2021ء تک 515 کشمیریوں کو تشدد کے ذریعے شہید کیا جا چکا ہے۔ شہید ہونے والوں کے جنازوں پر بھی پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں کی گئیں اور جلسے‘ جلوسوں پر تو مکمل پابندی عائد ہے۔ سرینگر کی مرکزی جامعہ مسجد میں عیدین کی نماز وغیرہ تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ احتجاج کرنے والوں کو پیلٹ گنوں‘ ربڑ کی گولیوں‘ آنسو گیس کا نشانہ بنایا جاتا رہا‘ حتیٰ کہ سیدھے فائر کر کے انہیں شہید کیا جاتا رہا۔ اس بربریت کے نتیجے میں 2100 سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے۔ 17 ہزار سے زائد افراد کو بغیر وارنٹ اور بلاوجہ گرفتار کر کے عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا۔ بیشتر افراد کی گرفتاری ظاہر کی گئی نہ ہی ان پر کوئی مقدمہ درج ہوا بلکہ انہیں محض الزام کی بنیاد پر جیلوں میں سڑنے کے لیے پھینک دیا گیا۔ بھارتی فوج کے گھروں‘ دکانوں اور دفاتر پر چھاپوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ جہاں سے کسی مرد کی گرفتاری نہ ہو پاتی‘ وہاں خواتین کو زدوکوب کیا جاتا ہے۔ ان سے زیورات اور قیمتی سامان چھین لیا جاتا ہے حتیٰ کہ گھروں کو گرانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ پیلٹ گن جیسے ممنوعہ اسلحے کا مقبوضہ کشمیر میں بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اور بچوں اور بوڑھوں کو بھی اس معاملے میں کوئی رعایت یا معافی نہیں ملتی۔ 2014ء سے پیلٹ گنوں کے ذریعے لوگوں کی بینائی چھینی جا رہی ہے۔ بھارت کا مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی قبضہ گزشتہ ایک صدی کے دوران سب سے بڑے انسانی المیے اور بحران میں تبدیل ہو چکا ہے جو عالمی برادری کی بے حسی کو بھی آشکار کر رہا ہے۔
پاکستان ہمیشہ سے کشمیریوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور آئندہ بھی کھڑا رہے گا۔ پاکستان مقبوضہ کشمیرکی سفارتی‘ سیاسی اور اخلاقی حمایت کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت ملنا چاہیے اور جتنا جلد ہو سکے بھارت کو اپنے غاصبانہ قبضے سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ جتنا خون اب تک مقبوضہ کشمیر میں بہہ چکا ہے اس حوالے سے بھارت کو اپنے ہر ظلم کا جوابدہ ہونا پڑے گا کیونکہ شہید کشمیریوں کا خون کشمیریوں کی آزادی کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔ 5 اگست 2019ء کو مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیرکی قانونی حیثیت کو تبدیل کیا اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کے جس نئے دور کو شروع کیا‘ یہ سیاہ دور ایک نہ ایک دن ضرور ختم ہو گا۔ بھارت نے جنت نظیر وادی کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے، لیکن آرٹیکل 370 اور 35 اے کے منسوخ ہونے کے بعد سے صورتحال مزید ابتر ہو چکی ہے۔ کشمیری عوام کے لیے کئی دہائیوں سے ہر لمحہ بھاری ہے۔ ہزاروں بھارتی فوجی اہلکار ہر وقت سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور علاقے میں کسی احتجاج یا اجتماع کی صورت میں فوری کارروائی کرتے ہیں۔ نہتے کشمیریوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے۔ معصوم خواتین اور بچوں کو پائوں تلے روند دیا جاتا ہے۔ آج کے اس جدید اور آزاد دور میں بھی کشمیروں کو قید کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت نے کشمیریوں پر ہر طرح سے ظلم و ستم کر کے دیکھ لیا ہے لیکن وہ اپنی آزادی اور خود مختاری کا سودا کرنے کو تیار نہیں۔ یہ بات بھارت کو آج نہیں تو کل سمجھ آ جائے گی کیونکہ ظلم جتنا بڑھتا ہے آزادی کا جوش اور ولولہ اتنا ہی توانا ہو جاتا ہے۔ مقبوضہ وادیٔ کشمیرکا ایک ایک بچہ اپنی جان دینے کو بے تاب ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جس سے بھارت خوف زدہ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ تمام تباہ کن ہتھیار استعمال کر کے بھی جذبۂ حریت کو شکست نہیں دے سکتا۔ اسی لیے وہ مختلف حیلوں اور حربوں سے مقبوضہ وادی کو جہنم بنانے اور عوام کے بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کشمیریوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہ پاکستانیوں کو اپنا خیرخواہ اور بھائی سمجھتے ہیں اور پاکستانی پرچم اٹھا کر گھروں سے نکلتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ بھارت کی شر انگیزیوں کا نوٹس لے اور کشمیریوں سے کیے گئے وعدوں کا پاس کرے۔ مقبوضہ کشمیر میں معصوم کشمیریوں کے گرنے والے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب نریندر مودی سرکار کو دینا پڑے گا۔ پانچ اگست کے اقدام کو بھی واپس لیا جانا چاہیے اور مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت بھی فوری طور پر بحال کی جانی چاہیے۔ یہ محض کشمیریوں کا ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کا بھی مطالبہ ہے۔ اسلام کی رُو سے مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں کہ ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا عضو وہ تکلیف محسوس کرتا ہے۔ کشمیریوں کو ان کا حق دلانے کے لیے پاکستانی قوم کو بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved