کالم لکھنے کے لیے تازہ خبروں پر نظر ڈالی تو ایک چھوٹی سی خبر نے فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ خبر تھی ''چین میں طلب کی کمی کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گر گئیں۔ نیوز ایجنسی کے مطابق ''بین الاقوامی مارکیٹ میں امریکی خام تیل کی قیمت میں ساڑھے 5 فیصد کمی ہوئی۔ امریکی خام تیل 93 ڈالر فی بیرل پر فروخت ہونے لگا، برطانوی خام تیل کی قیمت بھی 4.15 فیصد گر گئی، برطانوی خام تیل 99 ڈالر فی بیرل پر فروخت ہو رہا ہے‘‘۔ اب آپ کہیں گے کہ اس میں کون سی نئی بات ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں تقریباً روز ہی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں، پاکستان میں بھی حکومتیں اورکچھ کریں یا نہ کریں لیکن تیل کی قیمتیں بڑھانے یا کبھی کبھار کم کرنے کا کام کرتی رہتی ہیں۔ اس میں اصل خبر تیل کی قیمتوں میں کمی نہیں بلکہ چین جیسے بڑے ترقی یافتہ ملک میں تیل کی طلب کی کمی ہے جس کے نتیجے میں دو بڑی طاقتوں کو خام تیل کی قیمتیں کم کرنا پڑ گئیں۔ دراصل یہی معاشیات کا اصول ہے کہ جب بھی‘ جہاں بھی‘ جس چیز کی طلب کم ہو گی اس کے نرخ خود بخود کم ہو جائیں گے اور جب کسی شے کی طلب بڑھے گی تو پھر ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو مصنوعی مہنگائی کا موقع مل جائے گا۔
ویسے ہماری قوم ابھی تک ضرورت یا اہمیت سے زیادہ مجبوری کے تحت چلتی ہے یعنی عام الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ڈنڈا پیر کی پیروکار ہے۔ دنیا بھر میں جب کسی شے کی قلت پیدا ہونے‘ قیمتوں میں اضافے‘ رسد میں کمی یا مصنوعی مہنگائی کا خدشہ پیدا ہونے لگے تو لوگ اس کا متبادل تلاش کر کے حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس چیز کا استعمال کم یا ترک کر دیتے ہیں جس سے اس کی طلب میں کمی آ جاتی ہے اور جب طلب کم ہو جائے تو اس کی پیداوار یا سٹاک محدود ہونے کے باوجود رسد پوری ہو جاتی ہے اور اس کے مینوفیکچررز، پروڈیوسرز یا ڈسٹری بیوٹرز قیمت کم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جب کوئی قوم بھیڑ چال کی طرح بلا ضرورت ایک چیز کے پیچھے لگ جاتی ہے‘ ہر کوئی اس کا خریدار بن جاتا ہے تو اس کے نرخ بھی آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ منافع خور ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں اور مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کرکے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ دنیا میں جب کوئی شے نایاب ہونے لگے تو لوگ اس کا متبادل اپناتے ہیں یا اس کی طلب کم کر دیتے ہیں جس سے اس کی قیمت کو کنٹرول کرنا آسان ہو جاتا ہے لیکن پاکستان میں لوگ ایسا صرف اسی وقت سوچتے ہیں جب کوئی چیز بالکل دسترس سے باہر ہو جائے یعنی یا تو وہ چیز مارکیٹ سے بالکل غائب ہو جائے یا پھر لوگوں کی قوتِ خرید سے مکمل طور پر باہر ہو جائے۔
جب پٹرول کی قیمت دو سو روپے فی لٹر سے متجاوز ہوئی تو عام آدمی کے لیے کام پر؍ دفتر جانے کے لیے بھی گاڑی کا ایندھن پورا کرنا مشکل ہو گیا‘ اس دوران ہم نے مشاہدہ کیا کہ راولپنڈی جیسے بڑے شہر کی مصروف ترین مرکزی شاہراہ‘ مری روڈ پر بھی پرائیویٹ گاڑیوں کی آمد و رفت میں تیس سے چالیس فیصد تک کمی آ گئی۔ لوگوں نے اپنی گاڑیاں گھروں میں کھڑی کر کے موٹر سائیکلوں یا میٹرو بسوں پر سفر کرنا شروع کر دیا تھا جس سے وہ مری روڈ‘ جس پر صدر سے فیض آباد تک دس کلومیٹر کا فاصلہ ایک گھنٹے میں طے ہوتا تھا‘ کا سفر سمٹ کر بیس سے پچیس منٹ کا رہ گیا۔ اس سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوئی کہ وہ تیس سے چالیس فیصد تک گاڑیاں بلاضرورت چل رہی تھیں۔ اگر لوگ پہلے ہی کار کے بجائے بائیک یا پبلک ٹرانسپورٹ کوترجیح دیتے تو شاید حکومت کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتنے دلیرانہ اضافے کی جرأت ہی نہ ہوتی۔ اس صورتِ حال میں موٹر سائیکل ساز کمپنیوں کو بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی سوجھی۔ پٹرول مہنگا ہونے پر مارکیٹ میں موٹر سائیکل کی طلب میں اضافہ ہوا تو غریب کی یہ سواری بھی مہنگی کر دی گئی۔ گزشتہ روز ایک بار پھر ایک بائیک کمپنی نے موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں پانچ ہزار روپے سے پندرہ ہزار روپے تک اچانک اضافہ کر دیا ہے۔ اگر ہر گھر میں ایک گاڑی کھڑی کرکے تین‘ تین بائیکس نہ خریدی جاتیں اور لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دیتے تو شاید موٹر سائیکلوں کے نرخوں میں اتنا اضافہ نہ ہوتا۔
موبائل فون کی مثال لے لیں۔ طلبہ کے ہاتھوں میں بھی مہنگے ترین دو‘ دو یا تین‘ تین فون سیٹ دیکھے جا سکتے ہیں۔ بیروزگار اور فارغ شخص کا گزارہ بھی ایک فون سے نہیں ہوتا۔ خصوصاً قوم کو سوشل میڈیا کی ایسی لت پڑی ہے کہ لوگوں نے فون کال، وٹس ایپ، ٹک ٹاک اور دیگر ایپس کے لیے الگ الگ سیٹ اٹھائے ہوتے ہیں، حالانکہ اکثر بڑے بڑے اور اہم عہدوں پر بیٹھے افسران، پروفیسرز اور کاروباری حضرات بھی ایک ہی فون سیٹ سے گزارہ کر رہے ہیں کیونکہ اب تو زیادہ تر موبائل فون ایسے ہیں جن میں دہری سم استعمال ہو سکتی ہے، اسی فون میں کال، ایس ایم ایس، وٹس ایپ، ای میل اور دیگر تمام امور سر انجام دیے جا سکتے ہیں لیکن لوگوں نے غیر ضروری استعمال اور فیشن کے طور پر اس اہم ضرورت کو بھی لگژری آئٹم بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے موبائل فون کی درآمد اور استعمال پر بھی ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ اگر لوگ تین کے بجائے ایک ہی فون سیٹ پر گزارہ کرتے تو اس کی طلب میں بھی‘ ایک تخمینے کے مطابق‘ چالیس سے ساٹھ فیصد تک کمی آ جاتی اور قیمتیں بھی نمایاں حد تک کم ہو سکتی ہیں۔
خوراک انسان کی بنیادی ضرورت ہے لیکن جب ہم کھانے پینے کی کسی شے کا استعمال ضرورت سے زیادہ شروع کر دیتے ہیں تو اس کے نرخ بھی آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ عوام اشیائے خور و نوش کا استعمال سوچ سمجھ کر اور ضرورت کے مطابق کریں تو کبھی قلت پیدا نہ ہو۔ کہنے کو تو ہم ایک زرعی ملک ہیں لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ گندم اور چینی تک ہم درآمد کرنے پر مجبور ہیں لہٰذا اب یہ ضروری ہو چکا ہے کہ ہم ہرکام میں چادر دیکھ کر پائوں پھیلائیں اور خوراک کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ اگر ملک میں گوشت اور پولٹری کے نرخ بڑھتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ کچھ دن دالوں اور سبزیوں پر گزارہ کریں۔ یقین کریں کہ چکن کی قیمتیں راتوں رات کم ہو جائیں گی۔ اسی طرح اگر ٹماٹر‘ پیاز یا کسی دوسری سبزی کی قلت پیدا ہونے لگے تو ہمیں اس کا استعمال بھی کچھ کم کر دینا چاہئے تاکہ ذخیرہ اندوز مصنوعی قلت پیدا کرنے کی جرأت نہ کر سکیں۔ اگر ہم ماضی کی طرح گڑ اور شکر کا استعمال زیادہ کر دیں تو نہ صرف چینی کی قیمتیں کم ہو جائیں گی بلکہ ذیابیطس کے مرض میں بھی خاطر خواہ کمی لائی جا سکے گی اور جسم میں شوگر کی مقدار بھی کنٹرول رہے گی۔
وطن عزیز پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اللہ پاک نے ہمیں تمام صلاحیتوں کے ساتھ زرخیز مٹی، معدنیات، نباتات اور بہترین قدرتی سہولتوں سے نواز رکھا ہے۔ ہمیں صرف اپنی زندگی میں میانہ روی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ قوم اس وقت ملکی تاریخ کے سب سے کٹھن معاشی بحران سے گزر رہی ہے۔ ہر چیز کے نرخ پہنچ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں اور عوام کی قوتِ خرید جواب دے چکی ہے۔ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے تمام تر حکومتی اقدامات دعووں سے آگے کارگر ثابت نہیں ہو رہے۔ ان حالات میں ہمیں معاشی بحران سے نکلنے کیلئے معاشیات کا ایک سادہ سا اصول اپنانا ہو گا یعنی اپنی زندگی میں میانہ روی اختیار کرتے ہوئے جس شے کی قلت پیدا ہونے لگے‘ اس کامتبادل تلاش کرکے اس کی طلب کم کرنا ہو گی۔ اس سے مہنگائی ازخود کافی حد تک کم ہو جائے گی، اور اس کے لیے ہمیں حکومت یا دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنی ذات سے آغاز کرنا ہو گا۔ ہم اپنی زندگی کو جتنا سادہ بنائیں گے یہ اتنی ہی باسہولت اور بہتر ہوتی جائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved