تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     04-08-2022

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ناقابلِ قبول؟

27 جولائی کی رات اسلام آباد میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان نے پنجاب میں اپنے سیاسی حلیف چودھری پرویز الٰہی کے صوبائی وزیراعلیٰ منتخب ہونے کی خوشی میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ وہ ٹی ٹی پی اور دیگر علیحدگی پسند عناصر سے تو مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن ملک کے سیاست دانوں‘ جنہیں وہ چور اور ڈاکو کہتے ہیں‘ کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے پر راضی نہیں۔
اپنے سیاسی کیریئر خصوصاً 2014ء کے آزادی مارچ اور اسلام آباد کے دھرنے سے لے کر اب تک سابق وزیراعظم نے متعدد ایسے دعوے اور وعدے کیے جن کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں تھی اور نہ ہی وہ ساڑھے تین برس تک اقتدار میں رہنے کے باوجود ان میں سے ایک بھی وعدہ پورا کر سکے۔ دوسروں پر لگائے گئے الزامات ثابت کرنے میں بھی وہ کامیاب نہیں ہو سکے‘ مگر اس سے صرفِ نظر سے کام لیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ سیاست کا حصہ ہے اور جنگ اور سیاست میں ہر حربہ جائز ہے۔ ان کے مخالفین نے بھی سیاسی مفاد کی خاطر سنگین الزام تراشی سے احتراز نہیں کیا‘ لیکن تقریباً دو تہائی آبادی کی نمائندہ اور منتخب سیاسی پارٹیوں اور سیاسی رہنمائوں کو ایک ایسی تنظیم‘ جس کے ہاتھ وطن کے ہزاروں جوانوں‘ افسروں اور معصوم شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں‘ کے برابر لانا کسی لحاظ سے بھی پسندیدہ اور قابلِ قبول امر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے محبِ وطن اور سنجیدہ حلقوں کی طرف سے اس بیان کو غیرمعقول قرار دیا گیا کیونکہ اس بیان سے نہ صرف سرحد پار سے حمایت حاصل کرنے والے دہشت گردوں کو ان کا من پسند پیغام جا سکتا ہے بلکہ اس سیاسی جماعت کے سپورٹرز بھی اپنے لیڈر کا بیانیہ اپنا سکتے ہیں۔ وہ پیج جس پر ایک ہونے کا دعویٰ کیا جاتا تھا‘ اب ریزہ ریزہ ہو کر بکھر چکا ہے۔ اب اس کی جگہ ایک نیا پیج تشکیل پا رہا ہے جس پر اب پی ٹی آئی اپنے ہم خیالوں کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ اس کا بیانیہ بڑا سیدھا سادا اور قابلِ فہم ہے۔ پی ٹی آئی کے علاوہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان کرپٹ ہیں کیونکہ وہ ایک کرپٹ اور سامراجی طاقت کے نافذ کردہ (نمائندہ جمہوری) نظام کی پیداوار ہیں۔ اس نئے پیج پر کھڑی ہونے والی پارٹیوں کے نزدیک آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ علاوہ ازیں جمہوریت اسلام کے منافی ہے۔ صرف شریعت‘ جس کی وہ خود تشریح کریں گے‘ قابلِ قبول ہو گی اور اس کے (پورے ملک میں) نفاذ کے لیے جو بھی کرنا پڑا‘ اس سے احتراز نہیں کیا جائے گا۔
ٹی ٹی پی نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں سابقہ فاٹا میں شامل علاقہ جات کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کو ختم کر کے ان کی سابقہ حیثیت کو بحال کرنے کا مطالبہ پیش کر رکھا ہے اور واضح کیا ہے کہ ان کا یہ مطالبہ اٹل اور ناقابلِ واپسی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے ان پاکستانی طالبان کو 'اپنے بندے‘ قرار دے چکے ہیں۔ انہی طالبان نے پیپلز پارٹی کے دور میں مذاکرات کے دوران عمران خان کو اپنا ضامن مقرر کیا تھا اور یہ خان صاحب ہی ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ مذکورہ کالعدم جماعت کو پاکستان میں اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
اب تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ افغانستان سے امریکیوں کی واپسی اور (افغان) طالبان کی حکومت کے قیام سے ٹی ٹی پی کو تقویت ملی ہے۔ اس کا ثبوت پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں اس کا اختیار کردہ سخت موقف ہے۔ ان مذاکرات میں پاکستان کی طرف سے جو وفد مذاکرات کر رہا ہے‘ اس کی پوزیشن بہت کمزور ہے‘ کیونکہ اس کاکوئی بیانیہ نہیں ہے اور اگر ہے تو اتنا کمزور کہ دہشت گردوں کے بیانیے کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ جو کہ ملک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ بنیادی انسانی آزادیوں اور حقوق کے علمبردار حلقوں کو اس بات پر تشویش ہے‘ لیکن اس کی قیادت کے دعوے کے مطابق پاکستان کی سب سے بڑی اور سب سے پاپولر جماعت پی ٹی آئی کو نہیں۔ عمران خان افغان طالبان کو افغانستان کا نجات دہندہ قرار دے چکے ہیں۔ ٹی ٹی پی ان کو اپنا روحانی رہنما مانتی ہے اور ان کے ہم رکاب طویل افغان خانہ جنگی میں مخالف فریق کے خلاف جنگ میں حصہ لے چکی ہے۔ سیاسی طور پر مصلحت کے تحت اگر نہیں‘ تو نظریاتی طور پر افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے درمیان زیادہ فرق نہیں۔ اول الذکر کی طرح موخر الذکر بھی خواتین کی تعلیم کے مخالف ہیں۔ سابقہ فاٹا میں ان کے ہاتھوں لڑکیوں کے سینکڑوں سکولوں کی تباہی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب بھی جبکہ سابقہ فاٹا‘ صوبہ خیبر پختونخوا کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے‘ لڑکیوں کے بہت سے سکول بدستور بند پڑے ہیں۔ مذکورہ کالعدم جماعت کے مطالبے کے تحت سابقہ فاٹا کو ان کے حوالے نہیں کیا گیا‘ مگر ان کے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ حکومت پاکستان اپنے دعووں کے مطابق ملک دشمن عناصر کا خاتمہ کرنے کے بجائے ان سے جنگ بندی چاہتی ہے۔ ان کو اس پر راغب کرنے کیلئے جون میں علما کا ایک وفد بھیجا گیا تھا مگر اپنے مقصد میں ناکام رہا۔ اب ایک اور وفد اس مشن پر کابل میں موجود ہے اور مذکورہ کالعدم جماعت سے مذاکرات کے بجائے افغان طالبان سے انہیں جنگ بندی میں توسیع پر آمادہ کرنے کی درخواست کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کالعدم جماعت جنگ بندی میں ایک اور توسیع پر راضی ہو جائے لیکن کس قیمت پر؟ اس سے قوم کو کبھی بھی آگاہ نہیں کیا جائے گا جس سے افواہوں پر مشتمل ماحول پیدا ہوگا۔ اس قسم کے ماحول میں عمران خان کا یہ بیان کہ وہ چوروں اور ڈاکوؤں کے بجائے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کو ترجیح دیں گے‘ جبکہ مذکورہ کالعدم جماعت اپنی چند شرائط کی پیشگی منظوری کے بغیر حکومتی ٹیم سے مذاکرات پر آمادہ نہیں‘ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس جماعت کو معلوم ہے کہ پاکستان میں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو اس کے پاس اس کی شرائط کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ 2004ء سے اب تک پاکستانی طالبان اپنی شرائط پر حکومت کے ساتھ مذاکرات اور سمجھوتا کرتے چلے آ رہے ہیں‘ اور اب بھی انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے حق میں سمجھوتا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ان حالات میں عمران خان کا یہ بیان دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی اور ہمارے بہادر جوانوں اور افسروں کیلئے‘ جو اپنے شہید ساتھیوں کی طرح سینوں پر دہشت گردوں کی گولیاں کھانے کو تیار ہیں‘ حوصلہ شکنی کا باعث نہیں ہوگا؟ کیا اپنی پارٹی اور جہاں کہیں اس کی حکومت ہے‘ وہاں حکومتی وسائل کو صرف مخالف سیاستدانوں کو نیست و نابود کرنا مقصود ہے؟ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے مگر پاکستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جو کوئی بھی اس راہ پر چلے گا‘ ناکامی کا منہ دیکھے گا۔ عمران خان سے کہیں زیادہ پاپولر اور طاقت ور حکمرانوں نے ملک میں ون پارٹی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی مگر آخر کار انہیں کثیر جماعتی نظام تسلیم کرنا پڑا۔ ایوب خان اور ضیاء الحق نے سیاسی پارٹیوں اور اپوزیشن پر پابندی عائد کرکے سیاسی پارٹیوں سے پاک (Partyless) نظام حکومت رائج کرنے کی کوششیں کیں مگر ناکام رہے۔ پاکستان میں ملٹی پارٹی سسٹم کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جلد یا بدیر پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved