یہ کہہ لیجیے کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی یا ہیٹ سے کبوتر بالآخر نکل آیا۔ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آگیا۔ وہ جو تلوار لٹک رہی تھی بالآخر گر پڑی۔ اب اس تلوار سے پی ٹی آئی کتنی مجروح ہوئی ہے‘ یہ تو وقت اور قانون دان اکٹھے بتائیں گے لیکن ایک نفسیاتی معاملہ یہ ہے کہ جب وہ خطرہ جس کا ڈر ہو‘ واقعہ بن ہی جائے تو ڈر بھی جاتا رہتا ہے۔ محاذِ جنگ پر لڑنے والوں کا کہنا ہے کہ جنگ سے پہلے کا سکوت جتنا جان لیوا ہوتا ہے‘ خود جنگ اتنی خوفناک نہیں ہوتی۔ ایک بار میدانِ گرم ہو جائے تو خون بھی گرم ہو جاتا ہے۔
فیصلہ الیکشن کمیشن نے پہلے ہی محفوظ کر رکھا تھا جوکہ حسبِ توقع پی ٹی آئی اور عمران خان کے خلاف آیا ہے اور اکبر ایس بابر کے حق میں۔ اکبر ایس بابر عمران خان کے سابقہ ساتھی اور پی ٹی آئی کے سابقہ اساسی ارکان میں تھے اور اختلافات کی وجہ سے عمران خان کو چھوڑ چکے تھے۔ پورا فیصلہ پڑھیں تو بنیادی طور پر درج ذیل اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ اور یہ چاروں نہایت کلیدی نکات ہیں۔
1۔ الیکشن کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ممنوعہ رقوم تحریک انصاف نے پوری رضا مندی سے وصول کی ہیں (فارن فنڈنگ کے بجائے فیصلے میں ممنوعہ رقوم Prohibited funding کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں)۔
2۔ پارٹی کو 34غیر ملکی شہریوں اور 351غیر پاکستانی نژاد کمپنیوں سے رقوم وصول ہوئی ہیں۔
3۔ پی ٹی آئی نے اپنے اکاؤنٹس میں سے 8اکاؤنٹس ظاہر کیے تھے،13 اکاؤنٹس خفیہ رکھے اور 3اکاؤنٹس کی توجیہ پیش نہیں کر سکی۔
4۔ فارم 1 جو پارٹی سربراہ یعنی عمران خان کی طرف سے دیا گیا تھا‘ درست نہیں پایا گیا۔
فیصلے میں الیکشن کمیشن نے جانتے بوجھتے اور پوری رضامندی سے (Knowingly and willfully) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ فیصلے میں ممنوعہ فنڈنگ کی جو مثالیں دی گئی ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔
ووٹن کرکٹ لمیٹڈ (Wootton cricket limited) سے‘ جس کے مالک کاروباری شخصیت عارف نقوی ہیں‘ اکیس لاکھ اکیس ہزار پانچ سو برطانوی پاؤنڈز وصول کیے گئے۔ اسی طرح برسٹل انجینئرنگ سروسز (Bristol engineering services) جو کہ ایک اماراتی کمپنی ہے، ای پلانیٹ ٹرسٹی‘ ایس ایس مارکیٹنگ مانچسٹر (یوکے نژاد کمپنی) وغیرہ سے رقوم وصول کی گئیں۔ ایک بھارتی نژاد امریکی کاروباری خاتون رومیتا شیٹی سے بھی عطیات وصول ہوئے۔ غیر ملکی کمپنیوں اور غیرملکی شہریوں دونوں سے عطیات ممنوعہ رقوم کی ذیل میں آتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے سامنے صرف 8بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے تھے۔ جبکہ 13اکاؤنٹس خفیہ تھے اور پارٹی نے ان سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ لیکن سٹیٹ بینک آف پاکستان سے حاصل شدہ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ ان اکاؤنٹس‘ جن سے تحریک انصاف لاتعلقی کا اظہار کرتی رہی‘ پی ٹی آئی کی مرکزی اور صوبائی قیادت کے ذریعے کھولے اور چلائے گئے تھے۔ 3 غیر ظاہر شدہ اکاؤنٹ وہ ہیں جو پارٹی کی سینئر قیادت کے کنٹرول میں تھے لیکن پارٹی ان کی کوئی توجیہ پیش نہ کر سکی۔ اس طرح یہ 16اکاؤنٹس‘ جنہیں ظاہر نہیں کیا گیا یا چھپایا گیا‘ پارٹی کی طرف سے ایک سنگین غفلت کے زمرے میں آتا ہے۔ اور آئین کے آرٹیکل (3) 17 کی خلاف ورزی ہے۔ آرٹیکل (3) 17 کہتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ وہ اپنے قانونی ذرائع آمدن اور اکاؤنٹس ظاہر کرے۔
اب معاملہ یوں پیچیدہ بن جاتا ہے کہ عمران خان 2008ء سے 2013ء کے درمیان مسلسل پانچ سال فارم ون جمع کرواتے رہے ہیں۔ جو الیکشن کمیشن کے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے حاصل کردہ ریکارڈ اور دیگر دستیاب ریکارڈ کے مطابق بالکل بھی درست نہیں ہے۔ چنانچہ فیصلے کے مطابق یہ معاملہ سیاسی جماعتوں کے آرٹیکل (3)2 سے متعلق ہو جاتا ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ فارن فنڈنگ کے اس مقدمے کی سماعت کے دوران بھی اب تک پی ٹی آئی ان اکاؤنٹس کو چھپاتی رہی ہے۔
یہ تو ہوا فیصلہ اور اس کے اہم نکات۔ جیسا کہ خان صاحب کو بھی خدشہ تھا‘ یہ فیصلہ ان کے خلاف آیا ہے اور اسی کے پیش نظر عمران خان مسلسل الیکشن کمیشن کے سربراہ کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں؛ تاہم جن مخالفین کو یہ توقع تھی کہ عمران خان کو سیاسی طور پر نااہل قرار دے دیا جائے گا یا پی ٹی آئی پر پابندی لگا دی جائے گی‘ ایسا کچھ نہیں ہوا‘ فی الحال تو صرف ایک نوٹس پارٹی کو بھیجا گیا ہے۔ حسب توقع تحریک انصاف نے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے اور اس میں بہت سے قانونی نقائص کی موجودگی ظاہر کی ہے۔ احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ فیصلے کے مضمرات پر قانون دان اپنی اپنی آراء دے رہے ہیں۔ جناب محمد مشتاق جو قانون کے استاد ہیں اور ان کا جھکاؤ عموماً عمران خان کی طرف ہوا کرتا ہے‘ ان کا تبصرہ سن لیجیے۔
جو سادہ لوح یہ کہتے ہیں کہ صرف شو کاز نوٹس ہی جاری کیا گیا ہے اور تو کچھ نہیں ہوا۔ انہیں 68صفحات پر مشتمل فیصلے کا صرف ایک صفحہ نمبر67پڑھ لینا چاہیے اور اس صفحے میں بھی صرف تین پیراگراف جے‘ ایچ اور کے۔ انہیں معلوم ہو جائے گا کہ پارٹی قیادت اور پارٹی کے سر پر کیا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ چونکہ ان پر کئی سال تک مسلسل غلط مندرجات پر مشتمل بیان حلفی پیش کرنے کا الزام ہے اس لیے یہ معاملہ دراصل نااہلی کا بنے گا۔ اگر اس الزام کو غلط ثابت نہ کردیا جائے۔ اور غلط ثابت کرنے کے لیے جلسے جلوس‘ اعلانات‘ بیانات سوشل میڈیا ٹرینڈ سے کام نہیں چل سکتا۔ عدالتی جنگ لڑنا ہوگی۔ سٹے لینے سے خطرہ صرف وقتی طور پر دور ہوگا‘ مکمل طور پر نہیں۔
ایک کالم نگار کی حیثیت سے مجھے تحریک انصاف کی قانونی ٹیم پر ہمیشہ تحفظات رہے ہیں۔ اور وقت نے بہت بار ثابت کیا ہے کہ ان کے سیاسی مشیر انہیں درست مشورہ دینے میں ناکام رہے ہیں۔ پارٹی سربراہ ہر معاملے کو خود نہ سمجھ سکتا ہے نہ ہر معاملہ خود دیکھ سکتا ہے۔ اکاؤنٹس کا معاملہ ہو یا ممنوعہ رقوم کا۔ درست طریقے سے اس معاملے کو سنبھالنا ان کے اکاؤنٹس سنبھالنے والوں‘ آڈیٹرز‘ نائبین اور قانونی مشیران کا کام تھا۔ جس میں وہ واضح طور پر ناکام رہے ہیں۔
قانونی نکات اپنی جگہ۔ عملی صورت حال کیا ہے۔ ایک عام آدمی کی نظر سے دیکھا جائے تو عمران خان کو اس فیصلے کی بنیاد پر نا اہل قرار دینا‘ ایک بہت بڑا اور بہت مشکل قدم ہوگا۔ اس میں کیا شک ہے کہ عمران خان اس وقت بھی مقبولیت کی لہر پر سواری کر رہے ہیں۔ یہ بات عام آدمی کو سمجھ نہیں آسکتی کہ مسلم لیگ نون‘ پیپلز پارٹی میں جس جس رہنما پر ملک لوٹنے کے سنگین الزامات اور مقدمے چل رہے ہیں‘ وہ سیاست کے اہل ہیں اور جس پر اس نوعیت کا ایک مقدمہ بھی نہیں‘ وہ نا اہل ہو چکا ہے۔ یہ بات عام آدمی ہضم نہیں کر سکتا تو عمران خان کے مداح کیسے مان سکتے ہیں۔ فارن فنڈنگ کے مقدمات دیگر جماعتوں پر بھی ہیں۔ ان کے فیصلے کیا آتے ہیں اور کس کے حق میں۔ یہ بھی اسی سے منسلک ہوگا اور انتخابات جو بظاہر اب چند مہینوں کی دوری پر رہ گئے ہیں‘ ان سے قبل یہ نااہلی یا کالعدم قرار دینے کا اقدام ملک میں ایک خوفناک لہر پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے اس انتہائی اقدام سے بچتے ہوئے راستہ نہ نکالا گیا تو یہ سب بحرانوں میں پھنسے ہوئے ملک کو ایک خوفناک ترین گرداب کی طرف دھکیلنے جیسا ہوگا۔ خدا کے لیے اس گرداب سے بچئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved