تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کے حامی خاصے کنفیوز دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ممکنہ طور یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ اس فیصلے پر خوشی منانی ہے یا دکھ کا اظہار کرنا ہے۔ اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ گیند ایک مرتبہ پھر اعلیٰ عدلیہ کے کورٹ میں جا سکتی ہے۔ آرٹیکل 62 اور 63 ایک مرتبہ پھر زیرِ بحث آ سکتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر قانون کی تشریح کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کتاب میں درج قوانین اس وقت تک بے معنی رہتے ہیں جب تک ماہر قانون دان ہر زاویے سے انہیں پرکھ نہ لیں۔ حالات و واقعات کی مناسبت سے ایک ہی قانون کے تحت مختلف نوعیت کے فیصلے دیے جا سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں کس شخص کو ہیرو اور کس شخص کو ولن بنانا ہے اس کا فیصلہ تاریخ دان کرتا ہے‘ لہٰذا تاریخی واقعات پر یقین کرنے سے پہلے تاریخ دان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے مستقبل کا کیا فیصلہ کیا جاتا ہے‘ اس کا علم چند دنوں میں ہو جائے گا لیکن اس سے پہلے یہ نظر میں رکھنا ضروری ہے کہ اس کا دیگر سیاسی جماعتوں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ ابھی تک کی معلومات کے مطابق پاکستان کی چاروں بڑی سیاسی جماعتیں ممنوعہ فنڈنگ لیتی رہی ہیں بلکہ کچھ پارٹیوں پر یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ وہ ماضی میں بیرونی حکومتوں سے بھی فنڈنگ لیتی رہی ہیں۔ یہ الزامات ابھی تک ثابت نہیں کیے جا سکے لیکن ذرائع کے مطابق ان الزامات میں کافی حد تک حقیقت ہے۔ تحریک انصاف سے متعلق فیصلہ آ گیا ہے تو اب مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی ایف سے متعلق فیصلہ جلد کرنے کے لیے بھی دبائو بڑھنے لگا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف کو بطورِ پارٹی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ دیا جاتا ہے یا چیئرمین تحریک انصاف آرٹیکل 62، 63 کے تحت صادق اور امین نہیں رہتے تو کیا دیگر سیاسی جماعتیں بھی ختم کی جا سکتی ہیں اور ان کے صدور اور چیئرمینوں کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے؟ اگر یہ روایت چل نکلی تو اس کے نتائج کیا ہوں گے اس بارے میں شاید زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ عوام سمجھدار ہو چکے ہیں اور معاملات کی نزاکت اور نوعیت کے بارے میں بخوبی آگاہ ہیں۔
اگر ماضی کے اوراق میں جھانک کر دیکھا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو نے مولانا بھاشانی کی قائم کردہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کو قانونی طریقے سے نااہل کروانے کے لیے راستہ مہیا کیا تھا۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں اب تک ایک ہی مرتبہ ہوا ہے جس کے نقصانات آج بھی عوام کے سامنے ہیں۔ نیپ متحدہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت تھی اور اس کے خلاف انتقامی کارروائیوں نے عوام میں نفرت اور محرومی کی ایسی فضا پیدا کی کہ بالآخر 71ء کا سانحہ رونما ہوا۔ آج تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے جس کی دو صوبوں کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی حکومت ہے۔ یہ وقت انتہائی حساس ہے۔ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ چھوٹی سے غلطی ملک کو بند گلی میں دھکیلنے کا سبب بن سکتی ہے لیکن یہاں کب کیا فیصلہ ہو جائے‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ فی الحال سیاسی میدان میں جو سکوت دکھائی دے رہا ہے اس کی وجہ آئی ایم ایف ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ ہو چکا ہے لیکن شنید ہے کہ حکومت کو یہ متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر اپوزیشن سڑکوں پر آ گئی اور ملک میں نیا سیاسی دھماکا کرنے کی کوشش کی گئی تو قرض کی اگلی قسط ملنا مشکل ہو سکتا ہے لہٰذا کسی بھی قیمت پر ملک میں امن قائم رکھنا ضروری ہے۔ یہ بھی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط ملنے کے بعد چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف آرٹیکل 62، 63 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو حکومت کو اس کے مضمرات کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔ یہ فیصلہ ایک نیا سیاسی محاذ کھولنے کے مترادف ہو گا۔
میدانِ معیشت کی بات کریں تو فی الحال ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے پچھلے چار برسوں میں دو مرتبہ پیش آمدہ معاشی بحرانوں پر قابو پا لیا گیا‘ اسی طرح پاکستان موجودہ بحران سے بھی نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ معاشی بحرانوں سے نمٹنے والوں کے لیے ہر معاشی بحران ایسا ہی ہوتا ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ہوتی۔ موجودہ معاشی بحران پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ یہ گزشتہ 3 برسوں کے دوران ملک کو درپیش کم از کم تیسرا بڑا معاشی بحران ہے۔ 2019ء کا موسمِ بہار اور موسمِ گرما ہمارے معاشی مستقبل کے حوالے سے خاصی غیر یقینی کا دور تھا اور سب کے ذہنوں میں یہ سوال تھا کہ آیا پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جائے گا یا نہیں۔ جولائی 2019ء میں جب آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر کے قرض پیکیج کا اعلان کیا تو ساتھ یہ بھی کہا کہ پاکستان کی معیشت ایک نازک موڑ پر تھی اور بہت زیادہ مالیاتی ضروریات اور کمزور اور غیر متوازن ترقی کی وجہ سے اہم اقتصادی چیلنجوں کا سامنا کر رہی تھی۔ اس بحران پر قابو پانے کے بعد مارچ 2020ء میں دوسرے بحران کا سامنا کرنا پڑا جو اس وقت واقعی بے نظیر معلوم ہورہا تھا اور جو کورونا کی وجہ سے آیا تھا لیکن بہترین حکمت عملی کے باعث پاکستان اس بحران سے نہ صرف کامیابی سے نکلا بلکہ پوری دنیا میں کورونا کے دوران پاکستان کی معاشی مینجمنٹ کو بطورِ مثال پیش کیا گیا۔ اب تیسرا بحران سر پر ہے لیکن یہ بعض اعتبار سے پچھلے بحرانوں کی نسبت شاید زیادہ گمبھیر نہیں ہے۔ پاکستان کے قرضوں کی صورتحال اور مجموعی ذخائر کی سطح آئی ایم ایف پروگرام میں جانے سے قبل‘ 2019 ء کے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے مقابلے میں بہتر ہے۔ جون 2019ء کے اختتام پر مجموعی ذخائر کم ہوکر 7 ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ اس کے برعکس جون 2022ء کے اختتام پر یہ ذخائر 10 ارب ڈالر تھے۔ سٹیٹ بینک کی فارورڈ لائبلیٹیز بشمول سواپس‘ جو ذخائر کے ممکنہ قلیل مدتی اخراجات کا ایک پیمانہ ہے‘ ماضی میں 8 ارب ڈالر تھے جو اب 4 ارب ڈالر ہیں۔ اس وقت ڈالر کی قیمت میں بھی نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز انٹربینک مارکیٹ میں ٹریڈنگ کے دوران روپے کی قدر میں اس وقت نمایاں بہتری دیکھی گئی جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 9 روپے 59 پیسے کا اضافہ ہوا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق انٹربینک میں ایک روز قبل 238 روپے 38 پیسے پر بند ہونے والی مقامی کرنسی کی قدر میں گزشتہ روز ڈالر کے مقابلے میں 9 روپے 59 پیسے یا 4.19 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد انٹر بینک میں روپیہ 228 روپے 80 پیسے پر بند ہوا۔ یہ یقینا ایک خوش آئند پیش رفت ہے لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالات ابھی اس نہج پر نہیں پہنچے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو لیکن حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے پاکستانی عوام بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ادارۂ شماریات کے مطابق جولائی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح تقریباً 25 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جو پچھلے 14 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی چار فیصد سے زیادہ بڑھی ہے جو ملکی تاریخ میں دوسرا بڑا اضافہ ہے۔ اس قربانی کے نتیجے میں ممکن ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ جائے لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کو دیوالیہ ہونے سے کون بچائے گا۔
غریب اور متوسط طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ اربوں روپوں کا کاروبار کرنے والوں سے ٹیکس آمدن کے مطابق وصول نہیں کیا جا رہا۔ ذرائع کے مطابق نادرا نے جدید نظام کے ذریعے ایسے 74 ملین لوگوں کا ڈیٹا فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو دیا ہے جن کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور ان میں سے اکثر ٹیکس رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں۔ یہ ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے بلکہ نان فائلر ہوتے ہوئے دو سے تین گنا زیادہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ نان فائلرز سے اضافی ٹیکس وصول کرنے کے بجائے ان کی خریداری اور بیرونِ ملک دوروں پر پابندی لگائے جانے کے مثبت اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ اس سے ٹیکس بیس بڑھ سکتی ہے‘ غریب آدمی پر ٹیکس کا بوجھ کم ہو سکتا ہے اور شاید بجلی‘ گیس سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی بھی ضرورت نہ رہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved