دو برس بعد امریکہ آنا ہوا۔ شکاگو بھی ایک دن کے لیے جانا تھا۔ وہاں ایک قریبی عزیز کا بائی پاس آپریشن ہوا ہے۔ اللہ نے اسے نئی زندگی دی ہے۔ اس کی ماں نے پاکستان سے تاکید کی تھی کہ میرے بیٹے کے پاس ضرور جانا‘ مجھے تسلی ہو جائے گی۔ میں خود دور ہوں‘ نہیں جا سکتی۔
مجھے اندازہ نہ تھا کہ شکاگو اتنا خوبصورت شہر ہے۔ میں تو شکاگو کومافیا اور مافیا ڈان ال کپون کا شہر ہی سمجھتا رہا ۔ کیون کاسٹنر اور شان کونری کی شاہکار فلم The Untouchables بھی ال کپون پر بنائی گئی تھی کہ کیسے دو‘ تین بہادر پولیس افسروں نے مافیا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ایک دن سب سے بڑے ڈان ال کپون کو قانون کے کٹہرے میں لے آئے۔ یہی امیج لے کر شکاگو ایئر پورٹ پر اترا لیکن جب شہر کے مناظر دیکھے تو میری رائے بدل گئی۔ اس خوبصورت شہرکی بلند و بالا عمارتیں اور پھر ساحلِ سمندر کے مناظر دیکھ کر دل کیا کچھ دن کیلئے یہیں رک جاؤں لیکن واپس لوٹنا تھا۔
جب اپنے اس عزیز کے گھر پہنچا تو وہاں ایک خوبصورت نوجوان بچے کو دیکھا جس سے دس سال بعد ملاقات ہورہی تھی۔ صبح ہوئی تو میں استری ڈھونڈنے لگ گیا کہ شرٹ استری کر لوں۔ اس نوجوان نے دیکھا تو کہا: شرٹ مجھے دیں‘ استری کر دیتا ہوں۔ میں ذرا ہچکچایا۔ جو لوگ امریکہ یا یورپ میں رہتے ہیں انہیں پتا ہے کہ یہاں سب اپنا کام خود کرتے ہیں۔ برتن دھونے سے لے کر صفائی تک ہرکام مرد حضرات خود کرتے ہیں۔ عموماً گھر میں مہمان آئے تو وہ بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنے کام خود ہی کر رہا ہوتا ہے‘ لہٰذا پاکستان سے آئے میرے جیسوں کی عزت اور مردانگی خطرے میں نہیں پڑتی۔ یہ ہوتا ہے ماحول کا اثر۔ اگرچہ میزبان بے چارے روکتے رہ جاتے ہیں کہ پلیز نہ کریں‘ ہم خود کر لیں گے لیکن وہی بات کہ اس ماحول میں آپ خود بخود کام کرنے لگ جاتے ہیں۔ پاکستان میں اگر کوئی مرد کچن میں برتن دھوتا یا روٹی پکاتا نظر آ جائے تو اس کا تگڑا سکینڈل بن جائے گا۔ بلکہ جب میری لینڈ میں چودھری فراز گجر سے ملا تو انہوں نے نہ صرف کھانا خود پکایا بلکہ موصوف روٹیاں بھی خود توے پر پکا رہے تھے اور ایسی پھولی ہوئی روٹی بنائی کہ کیا بات ہے۔ وہ ہنس کر کہنے لگے: سائیں یہاں سب کام خود کرنے پڑتے ہیں۔ پاکستان والی چودھراہٹ یہاں نہیں چلتی۔ مجھے خود یاد ہے میرے بچے چھوٹے تھے تو میں اکثر ان کا دودھ خود بنا کر انہیں فیڈر میں دیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ ہماری ایک بزرگ عزیزہ ہمارے گھر اسلام آباد آئی ہوئی تھیں۔ میری بیوی جاب پر گئی ہوئی تھی‘ میں نے کچن میں جا کر پانی ابال کر بچوں کے فیڈرز دھوئے اور پھر دودھ مناسب گرم کرکے جب فیڈرز میں ڈال رہا تھا تو بزرگ عزیزہ نے مجھے کچن میں کام کرتے دیکھ لیا۔ ان کی آنکھوں میں ابھری حیرت آج تک مجھے نہیں بھولتی۔ حیرت کے مارے وہ بولیں: ہائیں تم گھر کے برتن خود دھوتے ہو؟ تمہاری بیوی سب کام تم سے کراتی ہے؟ میں مسکرایا اور کہا: ہاں بڑی ظالم ہے‘ دیکھ لیں‘ کچن میں سب کام مجھ سے کراتی ہے۔ وہ بولیں: ذرا اسے دفتر سے آنے دو‘ میں پوچھتی ہوں۔ اسے سب کام خود کرنے چاہئیں۔ مرد کچن میں کام کرتے اچھا لگتا ہے؟
میں نے بچوں کو دودھ دے کر اپنی بزرگ عزیزہ سے پوچھا: مجھے بتائیں یہ میرے بچے ہیں‘ اگر انہیں بھوک لگی ہے تو کیا مجھے ان کی ماں کے گھر آنے کا انتظار کرنا چاہیے کہ وہ آئے گی‘ فیڈرز ابال کر پھر انہیں دودھ دے گی اور اس دوران میں اپنی مردانگی میں گم انہیں روتا دیکھتا رہوں؟ میں نے کہا: اگر میں اپنے گھر کا کام کرتا ہوں تو کیا حرج ہے۔ اللہ نے مجھے صحت دی ہے‘ دو ہاتھ دیے ہیں۔ ان کی حیرت نہ گئی تو میں نے مزید کہا: اگر آپ گاؤں جا کر کسی کو نہ بتائیں تو ایک اور بات بتائوں؟ وہ ذرا قریب ہو کر سرگوشی میں بولیں: بتاؤ۔ میں نے کہا: اپنے دونوں بچوں کو باتھ روم لے جانا‘ صاف کرنا‘ نہلانا‘ انہیں ڈائپر پہنانا‘ کپڑے جوتے سب کچھ میں تبدیل کرتا ہوں بلکہ وہ ماں سے زیادہ اب مجھے ہی کہتے ہیں کہ بابا سب کام آپ کریں۔ ان کا حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ کہنے لگیں: شکر ہے تمہاری اماں زندہ نہیں رہیں ورنہ یہ سن کر ان کی کیا حالت ہوتی۔ تم تو اپنی ماں کے لاڈلے تھے۔ وہ تو تم سے کوئی کام نہیں کراتی تھیں۔ میں نے کہا: اماں کے ساتھ بھی ہم بھائی کھیتوں میں جا کر گندم کی کٹائی کراتے تھے۔ جانوروں کے لیے گھاس تک کاٹتے تھے۔ فصل کو پانی بھی لگاتے تھے۔ اپنا کام کرنے میں کیا حرج ہے۔ وہ ناراض ہو کر بولیں: یہ سب کام تم بچے شوقیہ کرتے تھے۔ کھیتوں اور گھر کے کچن میں کام کرنے یا اپنے بچوں کو نہلانے میں بہت فرق ہے۔ میں نے کہا: یہ میرے بچے ہیں۔ مجھے ان کا خیال رکھنا اور کام کرنا اچھا لگتا ہے۔ ان بچوں کو میری کیئر کی ضرورت ہے۔ آج میں ان کا خیال رکھوں گا تو شاید بڑھاپے میں یہ میرا خیال رکھیں گے۔ یہ تو ادھار ہے جو ایک نسل سے دوسری تک چلتا ہے۔ آپ کو انہیں باتھ روم لے جانے میں یا صاف کرنے میں کراہت محسوس ہوتی ہے تو پھر کل انہیں اگر آپ کے بڑھاپے میں آپ سے کراہت محسوس ہو تو پھر آپ بھی برا محسوس نہ کریں کہ اولاد بدل گئی۔ میرا تو ماننا ہے جو والدین اپنے بچوں سے شکایت کرتے ہیں کہ وہ ان سے دور ہوگئے ہیں تو کہیں نہ کہیں قصور اُن کا بھی ہے کہ انہوں نے بچپن میں بچوں کو وہ پیار اور توجہ نہ دی جو انہیں والدین کے قریب کرتی۔ وہ میری باتیں سن کر مطمئن نہ ہوئیں اور کہنے لگیں: ذرا آنے دو تمہاری بیگم کو‘ پوچھتی ہوں۔
بیگم نے آتے ہی کہا: جی! میں تو ان کو منع کرتی ہوں۔ انہیں خود ہی شوق ہے بچوں کے سارے کام کرنے کا۔ بلکہ میرے دو تین مرد عزیز ناراض ہوئے کہ یہ تم نے کیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اب ہماری بیویاں کہتی ہیں رؤف بھائی اپنے بچوں کے سب کام کرتے ہیں تو آپ بھی کریں۔ میں نے کہا: تو آپ کریں نا! کس نے روکا ہے آپ کو۔ بچے پیدا کیے ہیں تو اُن کا پورا خیال رکھیں۔ اب آپ کی مردانگی کی وجہ سے میں اپنے بچوں کا خیال نہ رکھوں؟
اپنے گھر سے ہزاروں میل دور شکاگو میں پندرہ بیس سال قبل کی یہ سب باتیں سوچ کر میں اس نوجوان بچے کو شرٹ استری کرتے دیکھ رہا تھا۔ میں حیران بھی تھا کہ ایک جوان بچہ کیسے محبت اور پیار سے میری شرٹ استری کررہا تھا۔ امریکہ میں نوجوان بچے سے آپ کب یہ توقع رکھتے ہیں۔ مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر کہنے لگا: آپ کو یاد ہے دس سال قبل جب میں دس سال کا تھا تو آپ ملتان آئے تھے۔ وہاں آپ نے سب چھوٹے بچوں کو عیدی دی تھی۔ میں دور کھڑا دیکھ رہا تھا تو آپ نے پاس بلا کر مجھے بھی عیدی دی تھی۔ آپ کی وہ دی ہوئی عیدی مجھے آج تک نہیں بھولی۔میں حیرانی سے اس نوجوان بچے کو دیکھ رہا تھا۔ مجھے تو شاید یاد بھی نہ تھا۔ اس بچے کے لیے وہ عیدی کتنی اہم تھی کہ اسے دس برس بعد بھی یاد تھی اور آج امریکہ میں اسے اور کچھ سمجھ نہ آئی تو مجھ سے شرٹ لے کر استری کرنے لگ گیا کہ یہ بھی شکرگزاری کی ایک صورت تھی۔ پردیس میں‘ گھر سے دور یہ محبت بھرا رویہ دیکھ کر آنکھیں کچھ نم ہوئیں۔ مجھے اپنی بیوی کی بات یاد آئی کہ خاندان کے چھوٹے چھوٹے بچے تمہارے اتنے گرویدہ کیوں ہیں؟ میں نے کہا: میں ان بچوں کے ساتھ وہی رویہ رکھتا ہوں جس کی میں اپنے بچپن میں اپنے بڑوں سے توقع رکھتا تھا۔ اب بھی میں یہی سوچتا ہوں کہ اگر میں ان کی طرح بچہ ہوں تو میری بڑوں سے توقعات کیا ہوں گی کہ وہ میرے ساتھ کیسے پیش آئیں؟ وہ میرے کیا کیا لاڈ اور نخرے آٹھائیں۔بس اتنی سی بات ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved