کسی زمانے میں ایک انگریزی فلم ہمارے شہروں کے سنیما گھروں میں دکھائی گئی۔ اس کی تشہیر سے شہر کے در و دیوار بھرے ہوئے تھے۔ کئی وجوہات تھیں کہ عوام کا رش ٹوٹ پڑا ‘ اگرچہ انگریزی ان کی سمجھ سے بالا تر تھی۔ ہالی وُڈ کی فلمیں بہت مقبول ہوا کرتی تھیں۔ ہمارا تعلق بھی فلم بین طبقے سے تھا۔ پچاس سال پہلے کی ایسی فلموں کے موضوع یا کہانیاں کب کسی کو یاد رہتی ہیں‘ مگر اس فلم کے بارے میں ایک تاثر ابھی تک زندہ ہے۔ ڈھائی گھنٹے لاہور کے کسی ٹھنڈے سینما کی اگلی صفوں کے بیچ اس فلم کو جو دیکھا‘ یہ تشہیر سے بالکل مختلف تھی۔ مواد کا عنوان سے کوئی تعلق نہ تھا نیز پبلسٹی کے فلمی دانشورکے اردو ترجمے کا اصلی انگریزی عنوان سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ کوئی شاید اس سے پوچھتا تو وہ یہ کہتا کہ سب ایسے ہی چلتا ہے۔ مقصد تو آپ کو گھسیٹ کر فلمستان کی جنت میں لانا تھا۔ آپ آ گئے‘ ہمارا کام ہو گیا۔ دنیا کے نظام سمجھنے کے لیے جنہوں نے دانش گاہوں میں اپنی زندگی گزاری ہے‘ روز بدلتے حالات اور زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب دیکھ کر اپنے تجزیوں اور تھیوریز پر دوبارہ نگاہ ڈالتے ہیں تو دنیا واقعی پاگل معلوم ہوتی ہے۔ اتنی پاگل کہ اس کے بارے میں غور و فکر کرنے والوں کو خود پاگل پن کے دوروں کا شکار ہونے کا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عالمی سیاست کے بازار میں جو بھی دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں اکثر کا تعلق اصل حقائق سے کم ہی ہوتا ہے۔ بہت کچھ پردوں کے اندر ہوتا ہے۔ باشعور شہری اور سیاست کے طالب علم کے لیے چیلنج ہے کہ وہ سامنے کی کٹھ پتلی کے کرداروں کی اداکاری‘ اس کی شوخ بیان بازی اور قومی مفادات کے تحفظ کے داؤ پر نہ جائے کہ وہ ڈھکوسلے ہو سکتے ہیں۔ حالات کو وسیع تر تناظر اور بڑی طاقتوں اور ہمارے حکمران طبقات کے درمیان‘ اندر کے گٹھ جوڑ‘ علاقائی اور عالمی طاقت کے بدلتے ہوئے توازن اور قوموں کے درمیان مسابقت اور بنتے بگڑتے اتحادوں کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ ساری پیشہ ورانہ زندگی اس میدان میں گزارنے کے بعد مجھے ایسا کوئی گھمنڈ نہیں کہ میں اس پاگل دنیا کی سیاست کو آپ سے بہتر سمجھتا ہوں۔ جو کچھ ہم دیکھ اور پڑھ رہے ہیں اور جو عالمی سطح پر آج کل جنگ‘ امن‘ ترقی‘ خوشحالی اور گمبھیر مسائل جنہوں نے انسانیت کو گھیرے میں لے رکھا ہے‘ پر غور کریں تو گزرے وقتوں کی اس فلم کے عنوان کی مثال ان پر صادق آتی ہے۔
اب میں صرف ایک دو باتوں کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس سے شاید کسی حد تک قائل ہو سکیں کہ جو کچھ آنکھوں کے سامنے سے گزر رہا ہے وہ عقل کی فریب کاری سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ دسمبر 2010ء تھا جب تیونس میں جاڑوں کی نرم گداز دھوپ میں پولیس سے تنگ آکر بو عزیزی نے احتجاجاً چوراہے میں خود کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ اس دن سے عرب بہار کا آغاز ہوا۔ عوام کو دبانے‘ تشدد اور قید و نظر بند کی صعوبتیں دینے کے لیے ہر غیرجمہوری ملک میں پولیس حکمرانوں کے ہاتھ میں استعمال ہوتی ہے۔ ہم ایک جمہوری ملک ہیں اس لیے 25 مئی کے دن اسلام آباد اور پنجاب کے ہر شہر میں سڑکوں پر نکلے مرد و خواتین اور بچوں پر وزیر داخلہ اور اتحادی حکومتِ وقت نے جوکرایا وہ اس زمرے میں نہیں آتا۔ دہشت گردی جیسے سنگین الزامات پر سینکڑوں کارکنوں کے خلاف مقدمات۔ کچھ بے چارے صحافیوں کی بات ہی نہیں کرتے جو حکمرانوں کے خلاف گستاخی کے مرتکب ہونے کی سعادت رکھتے ہیں۔ بو عزیزی کی لاش سے نکلتے شعلوں نے پورے عالمِ عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جمہوریت‘ انسانی حقوق‘ معاشی خوشحالی اور آزادی کے نعرے تو گونجے مگر عرب بہار کا مرکزی نقطہ عشروں سے غالب حکمران طبقے کے تسلط کو ٹھکانے لگانا تھا۔ تیونس‘ لیبیا‘ مصر اور الجیریا میں حکمرانوں کو بھاگنا پڑا۔ شام اور یمن میں حکمرانوں نے بچاؤ کیلئے فرقہ واریت کا سہارا لیا۔ وہاں ابھی تک خانہ جنگی کی آگ جل رہی ہے۔ عرب بہار کی خوشبو ایران‘ بحرین اور مراکش تک پہنچی مگر حکمران غالب رہے۔ سرکاری جبر و تشدد جیت گیا‘ آزادی کی اٹھتی لہر کو دبا دیا گیا۔ مغربی اور مشرقی بلکہ سب دنیائیں دنگ رہ گئیں کہ انقلاب نے حکمران ٹولوں کو کیسے خاک چٹائی۔ وہ بھی دن تھا جب امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ یہ جگہ ان کے لیے غیرمعمولی حیثیت رکھتی ہے کہ یہاں انقلاب کی ابتدا ہوئی تھی۔
انقلاب آیا‘ جمہوری حکومت بنی تو پرانے حکمران طبقے کچھ دیر کے لیے زیرِ زمین رہے کہ ریاستی ادارے جو کسی زمانے میں ان کے دست و بازو تھے اب کسی اور کے ہاتھ میں تھے۔ دولت کے انبار جو ملک کے اندر اور باہر تھے اور طبقاتی گٹھ جوڑ اور میڈیا اور سول معاشرے میں ان کے تماشے اس لیے تو نہیں تھے کہ وہ آسانی سے ہار مان جائیں گے۔ عرب بہار کے انقلابوں میں اسلامی رنگ نمایاں تھا کہ اشرافیہ کے خلاف تحریکوں میں خون اسلامی تحریکوں نے ہی دیا اور اکثر جگہوں پر عوام نے انہیں منتخب کیا تھا۔ لیکن انہیں ہٹانے کے لیے قوانین بدلے جانے لگے۔ عالمی نظام کے رکھوالوں نے نائن الیون واقعات اور افغانستان میں ایک خون ریز جنگ کے تناظر میں اسلامی انقلاب کا خطرہ بھانپ لیا۔ چند برسوں میں ہی ہر جگہ پر بساط پلٹی جانے لگی۔ مصر کے صدر مرسی صرف ایک سال تین دن اقتدار میں رہے‘ چھ سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے جیل کی کال کوٹھری میں وفات پا گئے۔ ہزاروں شہید ہوئے اور ہزاروں ابھی تک ان ملکوں میں قید خانوں میں گل سڑ رہے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح اسرائیل نے ہٹ دھرمی سے فلسطینیوں کو تباہ کیا‘ جو سلوک کچھ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں حقوقِ آزادی اور جمہوریت کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے‘ اس کی شدت میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔ سب سے بڑا آزادی کا علمبردار ملک مصر کو ایک ارب ڈالر سالانہ امداد دے رہا ہے۔
چونکہ یہ پاگل دنیا ہے اور اس کے بارے میں میرا علم نامکمل اور سطحی ہے اس لیے پاکستان میں اپریل کی 10تاریخ کو اچانک تبدیلی کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا‘ مگر کچھ حقائق تو آپ کے سامنے رکھ سکتا ہوں۔ گزشتہ اتوار کی صبح کو القاعدہ کے لیڈر الظواہری کو کابل کے گنجان آباد علاقے میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ پہلے تو شکر کریں کہ وہ ہمارے مہمان نہیں تھے‘ طالبان حضرات کے تھے۔ جو کچھ مغربی ذرائع سے میسر تھا‘ دیکھا کہ کیسے پتا چلایا گیا اور امریکہ میں افغانستان کے بارے میں کیا پالیسی پروان چڑھ رہی ہے۔ یکم اپریل کو نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کو بریفنگ دی گئی کہ الظواہری کابل میں موجود ہے۔ ظاہر ہے صدر بائیڈن کو بھی بتایا گیا تو انہوں نے کئی ذرائع استعمال کرکے تسلی کی اور پھر حکم جاری کر دیا۔ ناراض نہ ہوں تو کچھ کہہ دوں۔ افغانستان کی جنگوں اور وہاں کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وطن عزیز میں تین حکومتیں ماضی میں تابعدار رہیں۔ امریکی چلے گئے تو عمران خان سے ''گستاخی‘‘ سرزد ہو گئی۔ بات گہری ہے‘ آنے والے دن سب کچھ واضح کر دیں گے۔ افغانستان میں القاعدہ اپنے قدم جما چکی ہے‘ تحریک طالبان بھی اپنے دست و بازو مضبوط کررہی ہے۔ مغربی ذرائع کا دعویٰ ہے ۔ صدر بائیڈن اور امریکی ماہرین یہ فرما رہے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ وہ وہاں قدم دھر ے بغیر کریں گے۔ اس کے لیے علاقائی ممالک کا تعاون‘ نئی صف بندی اور تابعدار حکمرانوں کی ضرورت پڑے گی۔ بد گمانیاں میرے ذہن میں تو پیدا ہورہی ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ کوئی صدر مرسی کے انجام کو پہنچے اور تابعدار آزادی اور بیداری کی تحریک کو قانونی اور غیر قانونی حربوں سے دبانے کی کوشش کریں۔ پھر کیا ہوگا؟ فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved