تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     05-08-2022

فارن کے فنڈنگ والے

اس میں بھی کوئی شک ہے کہ پاکستان کے اصل خادم کون ہیں؟ بابائے قوم حضرت قائداعظم ؒ کی رحلت اور ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد دھوتی کی رفتار سے زیادہ تیز آنے جانے والے خادموں کی لائن لگ گئی۔ ہماری ریاست ابھی تک ان خادموں کی لگائی ہوئی لائن یا لکیر کی فقیر ہے۔ دنیا ترقی کرتی چلی گئی‘ آگے بڑھتی گئی۔ ہم بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے بلکہ جس رفتار سے آبادی بڑھتی گئی اُس کی ڈبل رفتار سے‘ پہلے سے ڈبل سائز والے خادم بڑھ گئے۔ بڑھنے کی اس دوڑ میں خادم آگے نکل آئے‘ قوم اور سلطنت دونوں کہیں پیچھے رہ گئے۔ جمہوریت نوازی نے اس قدر ترقی کی جسے دیکھ کر جمہوریت آج بھی شرما رہی ہے۔
جس طرح سیکنڈ ورلڈ وار کے بعد تاجِ برطانیہ نے یورپ اور مڈل ایسٹ میں نیا ورلڈ آرڈر لاگو کیا عین اُسی طرح ایوب خان‘ آغا یحییٰ‘ ضیا الحق اور پرویز مشرف نے اپنے اپنے دور کا ''ڈیموکریٹک‘‘ آرڈر نافذ کیا۔ ایوب صاحب کے دور میں Basic Democracies کا قانون آیا۔ یحییٰ خان نے درباری مولویوں اور ایک نان مسلم جج کی پارٹنر شپ سے اسلامی نظام کا مسودہ بنوایا۔ ضیا صاحب نے پان اسلام ازم کے بینر تلے ملک کو فرقوں کے متحارب لشکروں‘ لسانی تنظیموں‘ گروہی اور علاقائی گروپوں کو لیز پر دے دیا۔ وہی لیز ہولڈر آج جمہوریت کے اصلی تے وڈے خادم ہیں۔
پرویز مشرف نے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء پرسنل آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا۔ آج اُس آرڈیننس کے بچے لومڑی کے بچوں کی تعداد میں پھیل رہے ہیں۔ جمہوریت کی اتنی بڑی خدمت دیکھنے سے پہلے دو نکات پہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔
پہلا نکتہ ہے فارن فنڈنگ: شاید یہ کہنا بے جا‘ یا بے محل نہ ہو کہ اس وقت ہماری سیاست کے تقریباً سارے ستون‘ پائے بلکہ منجی پیڑھی تک سب فارن فنڈنگ پر کھڑے ہیں۔ انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ‘ ورلڈ بینک‘ اے ڈی بی پی ہمیں ریاست و حکومت چلانے کے لیے فنڈنگ کرتے ہیں۔ دنیا کے مہنگے ترین سود کے ریٹ اور سود واپس لینے کی شرائط لگا کر۔ ایسی شرائط‘ جن کے نتیجے میں 22کروڑ لوگ محنت کر کے جو مال و زر اکٹھا کرتے ہیں اُس سے بمشکل بیرونی قرضوں پر لگنے والے سودکی سہ ماہی قسط ادا ہوتی ہے۔ قرض کی اصل رقم اپنی جگہ نہ صرف باقی رہتی ہے بلکہ روپے کی ویلیو میں کمی کی وجہ سے قرض مسلسل بڑھتا جاتا ہے۔ تازہ مثال پچھلے تقریباً 4ماہ سے با آسانی لی جا سکتی ہے۔ 4ماہ میں پاکستانی روپے کی قدر میں 30 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی۔ سادہ مطلب یہ کہ پاکستان پر اگر 100ارب کا قرضہ تھا تو اب وہ بڑھ کر 130ارب روپے ہوگیا۔
فارن فنڈنگ کی اور بھی بہت شکلیں ہیں۔ مثلاًسیاسی جماعتوں کی فنڈنگ‘ جس کے دوکیسز رپورٹ شدہ ہیں۔ پہلے کیس میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت کے لیڈر لیبیا سے ٹائر ٹیوب میں ڈالر بھر کر لائے‘ جو واہگہ بارڈر پر پکڑے گئے۔ دوسری فارن فنڈنگ کا انکشاف بے نظیر بھٹو شہید نے کیا۔ بعد میں یہ فنڈنگ کئی کتابوں کا مستقل باب بن گئی۔ بی بی کے مطابق اسامہ بن لادن صاحب سے نواز شریف نے فارن فنڈنگ کے ڈالرز لے کر منتخب حکومت کو رجیم چینج کے راستے نکالا۔ ذرا آگے چلیں تو بہت سی مذہبی‘ فلاہی تنظیمیں اور ادارے‘ مسجدیں‘ مکتب اور مدرسے فارن فنڈنگ پر چلتے ہیں۔ یہ سب کچھ جائز ہے۔ چلتا آیا ہے‘ چل رہا ہے اور چلتا ہی جائے گا۔
بڑے صحافی بطور دانشور فارن فنڈڈ بیرونِ ملک دورے شورے کرتے ہیں۔ یہ سب بھی 'حلال‘ ہے۔ بیرونِ ملک مقیم ایک کروڑ پاکستانی دنیا بھر کی غیرملکی اور غیرمسلم کمپنیوں میں نوکریاں کرتے ہیں۔ وہ وطن کا سب سے بڑا سورس آف انکم بن چکے ہیں۔ 40‘ 42 ارب ڈالر ہر سال پاکستان کو فارن فنڈنگ سے بھیجتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی‘ وہ پاکستان میں صوبائی اسمبلی‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ ان سمندر پار پاکستانیوں کو رائٹ آف ووٹ دیا گیا جو ''امپورٹڈ‘‘ رجیم چینج نے آتے ہی واپس لے لیا۔
مغرب میں امریکی شہری اور مشرق میں افغان‘ پاکستان سمیت ساری دنیا میں اپنا رائٹ آف ووٹ استعمال کرتے ہیں۔ جہاں ہیں وہیں بیٹھ کر اپنی پسند کے امیدواروں کو اپنے ملک میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ پاکستان میں سپریم کورٹ کے چار فیصلوں کے باوجود سمندر پار پاکستانیوں کو یہ حق نہیں دیا جارہا۔ الیکشن کمیشن کے تازہ فیصلے نے پاکستان سے ان کی ہمدردیاں مشکوک بنا دیں۔ بلکہ بہت سارے ایسے ہیں جن کی قومی شناخت بھی مشکوک کردی گئی۔ ہم دنیا کا واحد ملک ہیں جہاں اچھے دہشت گرد اور بُرے دہشت گرد کے اصول پر اچھی فارن فنڈنگ اور بُری فارن فنڈنگ کا قانون پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی بغیر کسی سورس کے حرام کی کمائی کرے‘ پھر ڈرٹی منی کی لانڈرنگ کرکے وہ فارن فنڈ پاکستان لے آئے تو یہ قانونی طور پر جائز ہے۔ نہ منی ٹریل پوچھا جائے گا نہ ہی رسیدیں۔ ہاں اگر امریکہ‘ چین اور بھارت کے بعد دنیا کی چھٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو بیرونِ ملک مقیم پاکستانی چندہ دیں۔ اُس چندے کا سورس اور منی ٹریل دونوں ڈکلیئر کیے جائیں‘ تو بھی یہ طریقہ حرام ہے۔
فارن فنڈنگ کا بینڈ بجانے والے ڈھولچی اب اپنی گول پوسٹ بدل چکے ہیں۔ فارن فنڈنگ کے بجائے ممنوعہ فنڈنگ کہہ کر پاکستان میں موجود پاکستانیوں کو اور اُن کے بیوی بچوں کو غیر ملکی قرار دے رہے ہیں۔ ہم وہ واحد ملک ہیں جہاں پی ٹی آئی کے علاوہ کسی اور جماعت نے ابھی تک نہ سورس آف انکم بتایا اور نہ ہی فنڈز وصولی کی رسیدیں دکھائیں۔
دوسرا نکتہ ہے کھلا تضاد: پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کا ڈرامہ مشرف والے پی پی او کے تحت شروع ہوا۔ اس قانون کے نیچے بنائے گئے رولزمیں رُول نمبر 4فارن فنڈنگ سے متعلقہ ہے۔ جس میں ہر سیاسی جماعت کو Submission of Statement of Account کا پابند بنایا گیا۔ ساتھ Consolidated سٹیٹمنٹ آف اکائونٹ‘ جو چارٹرڈ اکائونٹنٹ کی آڈٹ شدہ ہو‘ جمع کرانا ضروری ہے۔ آڈٹ شدہ رپورٹ کے ساتھ پارٹی لیڈر سر ٹیفکیٹ جمع کرائے گا۔ یاد رہے بیان حلفی کی نہ کوئی شرط ہے‘ نہ ہی کوئی بیان حلفی عمران خان نے ایسی سٹیٹمنٹ کے ساتھ جمع کرایا۔ دراصل بیان حلفی وہ 50روپے والا سٹامپ پیپر ہوتا ہے جو شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں نواز شریف کو باہر بھجوانے کے لیے حلفیہ تحریر کے ساتھ جمع کرایا تھا۔ لکھا‘ وہ نواز شریف کو 4ہفتے میں واپس لائیں گے۔
فارن کی فنڈنگ والے پوری تیاری میں ہیں۔ پی ٹی آئی اور عمران خان پر '' فاشزم‘‘ اور '' کیپٹل ازم‘‘ کے ڈرون حملے کی تیاری ہے۔ ہوگا کچھ بھی نہیں۔ سچ قتل نہیں ہوتا۔ ان دنوں حضرت جلال الدین رومی ؒ کی نادر روزگار‘ مثنوی مولوی معنوی پڑھ رہا ہوں۔ دفترِ اول میں ایک فارسی شعر یوں ہے:
بر سماعِ راست ہر کس چِیر نیست
طعمۂ ہر مرغکے انجیر نیست
ترجمہ: سچی بات سننے پر ہر شخص قادر نہیں۔ انجیر ہر حقیر پرندے کی خوراک نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved