وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک نے جنرل مشرف کو بلوچستان کی بربادی کا اصل ذمہ دار اور آئین شکنی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں آج مشرف کی نہیں بلکہ ڈاکٹر مالک کی حکومت ہے۔ اگر وہ الزامات کی سیاست میں مصروف رہے اور امن و امان بہتر بنانے کی بجائے دوسروں پر خرابی کی ذمہ داری ڈالتے رہے اور قتل و غارت کا سلسلہ بھی جاری رہا تو پھر ایسے اقتدار کا کیا فائدہ ؟درحقیقت اس طرح کے بیانات دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کے اقدامات کو کلین چٹ دینے اور بھڑکتی آگ پر تیل ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔ بلوچستان میں امن و امان کی حالت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ موصوف مکران کے اپنے انتخابی حلقے میں بھی امن لانے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔یہ جاننے کے لیے کسی طویل بحث کی ضرورت نہیں کہ بلوچ عوام کی محرومیوں کے حقیقی ذمہ دار کون ہیں؟ بلکہ اس کے لیے وفاق کی طرف سے مہیاکئے جانے والے ترقیاتی فنڈز کے اعدادو شمار دیکھ لینا ہی کافی ہے ۔ پتہ چل جائے گا کہ بلوچستان کے حقوق کن لوگوں نے غصب کئے‘ صوبے کے عوام کو کس کس نے لوٹا؟۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ خود ڈاکٹر مالک بھی اٹھارہویں ترمیم کے ڈرافٹ کو مکمل کرنے والی کمیٹی کے ایک اہم رکن بھی تھے۔ موصوف اس نقطے پر اڑے رہے کہ تعلیم کا شعبہ وفاق سے صوبوں کو منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ صوبوں کو یہ اختیار بھی دیا جائے کہ وہ اپنے نصاب میں جیسے اور جس قسم کی چاہیںتبدیلی کر سکتے ہیں۔ یوں اُن کے اصرار نے پاکستان میں تعلیمی نظام کی بنیاد سے پہلی اینٹ سرکا دی؟ جب آئینی کمیٹی میں مالک صاحب کی جانب سے تعلیم کو مرکزی کنٹرول سے مکمل آزاد کرانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تو مجھے بلوچستان کے ہی ایک سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا لکھا ہوا واقعہ یاد آ گیا۔ 1982-86ء میں جب وہ بلوچستان میں تعینات تھے تو انہوں نے صوبے میں تعلیمی نظام کی اصلاح کا ارادہ کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ کسی بھی امتحانی مرکز میں داخل ہونے والے طالب علم کی سب سے پہلے مکمل تلاشی لی جائے اور اس کے پاس سوائے رول نمبر والے کاغذ کے اور کوئی چیز نہ ہو۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس پابندی سے یونیورسٹی سمیت چاروں طرف شور مچ گیا اور مالک صاحب بھی ، جن کے ساتھ میرے بہت اچھے دوستانہ تعلقات تھے اورا س وقت کے مشہور طالب علم لیڈر بھی تھے‘ احتجاج کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ طلبا کو نقل کی اجا زت دینے کی سفارش کرنے والوں میں مالک صاحب کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر حسن بلوچ بھی تھے اور پھر1995ء میں یہی ڈاکٹر مالک صاحب صوبے کے وزیر تعلیم بنے۔ اس دوران اربوں روپیہ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، کینیڈا، جاپان اور ڈنمارک کی حکومتوں سمیت دوسرے عطیات دہندگان کی جانب سے بلوچستان میں لڑکیوں کی پرائمری تعلیم اور ٹیچرز ٹریننگ پروگرام کیلئے مہیا کیا گیا۔ سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری مزید لکھتے ہیں کہ ان کی ملازمت کا وہ پہلا مرحلہ تھا جب وہ کھربوں روپے کی اصطلاح سے واقف ہوئے۔سوال یہ ہے کہ دنیا کی پانچ حکومتوں اور دو بڑے مالیاتی اداروں سے بلوچستان کو ملنے والا وہ کھربوں روپیہ کہاں گیا؟ کروڑ ہا روپے کی لاگت سے خریدی جانے والی بیش قیمت جہازی لینڈ کروزر نہ جانے کدھر گئیں؟ یہاں ڈاکٹر مالک صاحب کی ایمانداری پر شک نہیں؛ کیونکہ بحیثیت وزیرتعلیم انہوں نے میرٹ کی ہر وقت پابندی کی‘ لیکن صوبے کی تعلیمی حالت سب کے سامنے ہے۔ تعلیم کے حوالے سے اگر بلوچستان میں کا م کیا جاتا تو وہاں کی حالت ہی بدل جاتی۔ سکول‘ کالج اور یونیورسٹیوں کا جال بچھانے کے بعد ہی ایسے دعوے کئے جا سکتے ہیں کہ ہم نے ملک کے لیے کچھ کیا ہے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ ہمیں صوبے کے مسائل کا ادراک ہے‘ کافی نہیں۔ یہ کام صرف حکومت کا نہیں بلکہ اپوزیشن کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس حوالے سے حکومت کو یاددہانی کراتی۔ تعلیم عام ہونے کا فائدہ کسی مخصوص لابی یا فرقے کو نہیں ہوتا بلکہ تعلیم صوبے کی حالت بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جس کے فوائد ہر شخص سمیٹ سکتا ہے۔ دانشوروں کا بھی یہ کام ہے کہ وہ صوبے کے اصل مسائل اور ان کا حل اُجاگر کریں۔ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ حکومت صوبے کے حقوق سے غافل ہے یا فلاں ادارے نے کوتاہی برتی ہے۔ اس طرح کے الزامات کی سیاست تو روز اول سے ہی ہمارے ملک میں ہورہی ہے۔ مختصراً یہ کہ بلوچستان کی محرومیوں میں سیاستدانوں کو اقتدار میں لانے والے فوجی اور سیاسی حکمران سب ہی برابر کے شریک ہیں۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل پر حملے پر صوبے میں تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کو تو مطعون کیا جاتا ہے۔ لیکن پندرہ جون کو بلوچستان میں زیارت میں قائداعظمؒ ریذیڈنسی پر حملے سے آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری جنرل مشرف پر ڈال کر سر خرو ہو رہے ہیں ،اسی طرح بعض جگہوں پر دہشت گردوں اور ان کے لواحقین کو اس انداز میں مظلوم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ دہشت گرد بے خوف ہوکر فوج اور اس کی ایجنسیوں پر حملے کرنے لگے ہیں۔ وہ جواپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر دہشت گردوں کو گرفتار کرتے ہیں،وہ یا تو عدم ثبوت پربری ہوجاتے ہیں یا انہیں ان کے ساتھیوں کی طرف سے جیلیں توڑ کر بآسانی رہا کرا لیا جاتا ہے ۔اب تو وکلاء کے ایک گروپ نے بھی فوج سے بھاگنے والوں کو ہیرو اور سکیورٹی اداروں کو ولن بنا کر پیش کرنا شروع کر دیاہے۔ اس سلسلے میں پنجاب کی آٹھ بار کونسلوں نے ایک قرار داد بھی منظور کر کے بھیج دی ہے اگریہ سلسلہ چل نکلا اور اسے روکا نہ گیاتو پاکستان کا دفاع زمین بوس ہو جائے گا ۔۔۔ ہم سب کواس سازش کو آگے بڑھ کر روکنا ہو گا ،ورنہ سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔۔ صرف اگست کے پہلے پندرہ دنوں میں بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے3 5افراد کو چن چن کر سب کے سامنے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا اور یہ مذموم کارروائی کرنے والے آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔ کیا اب تک وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک نے ان نصف درجن کے قریب افراد کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے جو مختلف ممالک میں لطف اندوز ہو رہے ہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved