وطن عزیز پاکستان اس وقت سیلاب کی زد میں ہے۔ سینکڑوں قیمتی زندگیاں سیلاب کی نذر ہو چکی ہیں۔ ان زندگیوں میں ایک زندگی ایسی بھی تھی جو دوسروں کی زندگیاں بچاتے بچاتے اپنی قربانی دے گئی۔ قربان ہونے والی اس زندگی کا نام سرفراز ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کوئٹہ کے کور کمانڈر تھے۔ انہوں نے بلوچستان کے عوام کی زندگیاں بچانے کے لیے دن رات ایک کر رکھا تھا۔ پاک فوج کی ایک خصوصیت ہے جو اسے دنیا کی دیگر کئی افواج سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ خصوصیت یہ ہے کہ جوانوں کے ساتھ اس کے افسر بھی فیلڈ میں مصروفِ کار نظر آتے ہیں۔ اپنے جوانوں سے پیار کرتے اور ان کی ہمت بڑھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی شہید میں یہ خصوصیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ حسبِ معمول یکم اگست کو اپنے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے۔ ان کے ہمراہ ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد حنیف ستی تھے۔ 12 کور کے بریگیڈیئر محمد خالد تھے۔ میجر سعید احمد پائلٹ تھے۔ میجر طلحہ منان معاون پائلٹ تھے۔ ہیلی کاپٹر کی دیکھ بھال کے انچارج نائیک مدثر فیاض تھے۔ بلوچ عوام کی خدمت سے فارغ ہوکر جب یہ فیصل ایئر بیس کے لیے روانہ ہوئے تو ہیلی کاپٹر ایک موسمی طوفان میں گھر گیا اور موسیٰ گوٹھ کے پہاڑی علاقے میں گر گیا۔ اب تمام سواروں کے خاکی اجساد زمین پر تھے مگر اپنی روحوں کے بغیر۔ ان کی روحیں آسمان کی جانب پرواز کر گئی تھیں۔ وردی کے ساتھ معرکے میں شہید ہونا تو بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے کہ خون آلود وردی میں دفن ہونا حضور کریمﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہونا ہے جبکہ پاک فوج میں یہ بھی اعزاز سمجھا جاتا ہے کہ کوئی وردی پہنے ہوئے اپنے سرکاری کام میں مصروف ہو اور اسی دوران فوت ہو جائے۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کا اعزاز اس لحاظ سے انہیں سرفراز کر گیا ہے کہ وہ وردی میں تھے‘ فوج کی ڈیوٹی پر تھے اور سیلاب میں گھرے ہوئے عوام کی خدمت میں مصروف تھے۔ اسی دوران حادثہ پیش آیا او روہ شہید ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو قبول فرمائے، آمین!
کوئٹہ میں میرے ایک دوست ہیں۔ محمد اشفاق ان کا نام ہے۔ ان سے رابطہ کیا اور جنرل صاحب مرحوم کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ وہ بڑے ملنسار، قابل اور صاحبِ اخلاق جرنیل تھے۔ اب میں نے ان کے بارے میں ریسرچ شروع کی تو ایک تقریب میں ان کوخطاب کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ تقریب حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کی زیارت ریزیڈینسی میں ہوئی تھی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اور دیگر عمائدین موجود تھے۔ بچوں نے ترانے اور ملی نغمے گائے۔ وطن کی محبت کے گیت سنائے۔ عوامی خدمت کے ٹیبلوز پیش کیے۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی ڈائس پر آئے تو بلوچ بچوں کی مہارتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ سر جھکا کر ذرا خاموش ہوئے ایسے کہ جیسے وہ اپنے رب کریم سے مستقبل کی بہتر اور ہونہار قیادت مانگ رہے ہوں۔ وہ چند لمحات کے لیے گویا اس دنیا سے بے خبر ہوگئے تھے اور اپنے اللہ پاک سے جڑ گئے تھے۔ پھر اپنے آپ کو سنبھالا اور حاضرین کا سامنا کرتے ہوئے کچھ اس طرح بولے کہ میں ان کے الفاظ سن کر دنگ رہ گیا۔ کہنے لگے: ''ہم بوڑھوں کی نسل جا رہی ہے۔ اپنے حصے کی آگ جلائے ہوئے (یعنی روشنی پھیلائے ہوئے) اپنی شمع اپنی نئی نسل کو پاس کرتے ہوئے (دیتے ہوئے) ہم جا رہے ہیں۔ ان بچوں کے ترانے اور تقریریں اس لیڈر شپ کی تیاری ہے جس نے اس شمع کو لے کر آگے چلنا ہے اور منزل مقصود پر لے جانا ہے‘‘۔
مجھے کالم لکھنے کی تحریک ملی تو جنرل صاحب کے اس جملے سے کہ ''ہم بوڑھوں کی نسل جا رہی ہے‘‘۔ اس جملے کا مطلب یہ ہوا کہ جنرل صاحب اپنے رب کریم کے پاس جانے کے لیے تیاری کی حالت میں ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھی اسی بات کا پیغام تھا۔ لوگو! جس شخص کے دل میں اپنے اللہ پاک سے ملاقات کی لگن ہو اور اپنی قوم او رملک سے ہمدردی ہو تو ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ ایسے مومن سے ہم اپنی محبت کا اظہار کریں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ''سورۂ مومن‘‘ نازل فرمائی ہے۔ اس سورت مبارکہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کی دعا کا ذکر فرماتے ہیں کہ جنہوں نے عرش کو اٹھا رکھا ہے۔ اور وہ بھی جو عرش کے گرد طواف کرکے عبادت میں مصروف ہیں۔ وہ پاکباز فرشتے دنیا کے مومنوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ کریم! زمین کے مومنوں کے گناہ معاف فرمادے۔ ان کو، ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچوں کو عدن کا جنت دے دے۔ قیامت کے دن کی سختی سے ان کو محفوظ فرما لے۔ جی ہاں! ایمان ایک ایسا رشتہ ہے۔ لا الٰہ الا اللہ ایک ایسا باہمی تعلق ہے کہ جس میں آسمانوں کے فرشتے اور زمین کے انسان باہم بندھے ہوئے ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ یاد رہے جس کا کردار یہ نہیں‘ اس نے ایمان کی حلاوت و مٹھاس کا ذائقہ نہیں چکھا۔
شہید جرنیل سرفراز علی مزید فرماتے ہیں ''ہماری قوم کا ہم پر قرض ہے جسے ہم نے ان شاء اللہ واپس کرنا ہے۔ ہمیں آج بھی، کل بھی، سو سال بھی، ہزار سال بھی محنت کرنا پڑی تو ان شاء اللہ کریں گے۔ ہر سال ارادہ (عزم) کریں گے۔ ہر روز ارادہ کریں (پیمان باندھیں) گے۔ آج کی تقریب یاد دلاتی ہے کہ ہم سب کے جذبات مقدس اور صاف ہیں۔ ہم (بقول لوگوں کے) ہر روز کشمیر کا دن مناکر کیا کرتے ہیں؟ میں کہتا ہوں اگر کسی سے قرض لینا ہے تو اس کا تقاضا نہ کرنا قرض کی اہمیت کو ختم کردیتا ہے۔ (اس طرح قرض ڈوب جاتا ہے) لہٰذا قرض کا تقاضا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے امید ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کشمیر آزاد ہوگا۔ دشمن کو جو تکلیف کشمیر میں ہو رہی ہے اس کا اظہار وہ بلوچستان میں کرتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ باقی حالات اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ حالات کے نکتے نہ دیکھیں‘ حالات کا دھارا دیکھیں۔ ایک وقت تھا پاکستان میں دہشت گردی عروج پر تھی۔ بحمد اللہ وہ ختم ہوگئی۔ دھارے اللہ کے فضل سے ہمارے حق میں ہیں‘‘۔
امریکہ کی University of Louisvirlle کی جو ریسرچ سامنے آئی ہے‘ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ بندے کا جب دل دھڑکنا بند ہوجاتا ہے تو دماغ کو آکسیجن کی سپلائی بند ہوجانے سے دماغ کی بھی موت واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے مگر دماغ کا وہ حصہ جو یادداشت کا خانہ ہے‘ اس میں سرگرمی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ زندہ انسان میں جس قدر دماغی سرگرمی ہوتی ہے اس سے کئی گنا بڑھ کر سرگرمی موت کے وقت شروع ہوجاتی ہے؛ چنانچہ آج کی میڈیکل دنیا میں یہ جملہ ایک سلوگن بن گیا ہے کہ When your life flashes before your eyes upon death۔ تمہاری آنکھوں کے سامنے جب موت ہوتی ہے تو اس وقت تمہاری (اصل) زندگی منور ہوتی ہے۔ امریکی ڈاکٹروں کی ٹیم‘ جس میں ایک مسلمان نیورو سائنٹسٹ اجمل زیمار بھی شامل ہیں‘ کہتی ہے کہ موت کے وقت دماغی یاد داشت میں ساری زندگی کے واقعات آجاتے ہیں۔ دماغی سرگرمی اس قدر تیز ہوتی ہے کہ زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار آدمی ایک آدھ سیکنڈ میں اپنی پوری زندگی کو دیکھ لیتا ہے۔ جیسا کہ محمد اشفاق صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک تقریب میں انہیں جنرل سرفراز صاحب سے ملنے کا موقع ملا‘ وہ عاجزی والے نرم طبیعت کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی زندگی کی حسنات کو قبول فرمائے۔ غلطیوں سے درگزر فرمائے۔ قرآنِ کریم اور ہمارے پیارے رسول حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساڑھے چوہ سو سال پہلے واضح کردیا کہ موت کے وقت ہر انسان کے اعمال اس کے سامنے کر دیے جاتے ہیں۔ محترم لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی صاحب عوام کی خدمت کے لیے موجودہ سیلابی حالات میں جو خدمات سر انجام دے رہے تھے اور ان کے جو اچھے اعمال تھے‘ اللہ تعالیٰ ان کا بہترین صلہ ان کو اور ان کے ہمسفر ساتھیوں کو عطا فرمائے اور تمام شہداء کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ اصل کامیابی اور کامرانی آخرت کی کامیابی اور کامرانی ہے۔ آخرت کی زندگی کے مقابلے میں موجودہ دنیا کی زندگی ایک خواب ہے۔ افسوس کہ ہم خواب کو حقیقت بنانے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ اصل حقیقت کو فراموش کیے ہوئے ہیں۔ سرفراز علی صاحب کو اصل حقیقت کا ادراک تھا۔ اسی لیے وہ فَلَڈ فیلڈ کے سرفراز جرنیل تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved